بھارتی انتخابات میں مسلمانوں کا زوال

اتوار 25 مئی 2014

Syed Farzand Ali

سید فرزند علی

بھارتی انتخابات کے تمام مراحل مکمل ہوچکے ہیں اور انتخابی نتائج کے مطابق بھارتی جنتا پارٹی نے واضح اکثریت حاصل کی ہے جس کے بعد رواں ہفتے ہی بھارتی جنتا پارٹی کے نامز د وزیراعظم نریندرمودی اپنے عہدہ کا حلف اٹھائیں گے ۔
2011کی مردم شماری کے مطابق بھارت کے 1.2ارب لوگوں میں تقریبا16فیصد مسلمان ہیں بھارتی لوک سبھا میں 35سیٹیں ایسی ہیں جن میں مسلمان ووٹرز کی تعداد ایک تہائی ہے 38سیٹوں پر مسلمان ووٹرز کی تعداد21سے 30فیصد بتائی جاتی ہے یوپی اور بہار میں مسلمانوں کی تعداد دیگر ریاستوں سے زیادہ ہے یوپی میں مسلمان ووٹرز18فیصد جبکہ بہار میں مسلمان ووٹرز کی تعداد 16فیصد ہے ان دونوں ریاستوں میں 120لوک سبھا کی نشستیں ہیں یوپی میں لوک سبھا کی ٹوٹل 80نشستیں ہیں جن میں مسلمان علاقوں پر مشتمل 32سیٹیں بنتی ہیں ان 32میں سے بھارتی جنتاپارٹی (نریندرمودی)نے30سیٹیں حاصل کی ہیں ان میں سے 8نشستیں وہ بھی ہیں جہاں مسلمان ووٹرز کی تعداد 40فیصد بتائی جاتی ہے ان علاقوں میں سہانپور،رامپور،امروہہ،مظفرنگر،شراوستی،مرادآباداوربجنور شامل ہیں صرف دو سیٹیں سماج وادی پارٹی حاصل کرسکی بھارتی تاریخ میں پہلی بار اتر پردیش میں کوئی مسلمان امیدوار کامیاب نہیں ہوسکا یہی صورتحال بھارتی ریاست بہار میں ہے جہاں 17سیٹوں پر مسلمان ووٹرز کی تعداد 15فیصد ہے وہاں سے بھارتی جنتاپارٹی نے 12سیٹوں پر کامیابی حاصل کی مہاراشٹرمیں مسلمانوں کی تعداد 14فیصد ہیں یہاں بی جے پی اور اس کی اتحادی جماعتوں نے 48میں سے 42سیٹوں پر کامیابی حاصل کی ہے ۔

(جاری ہے)


1952میں تشکیل پانے والی لوک سبھا میں پہلی بار سب سے کم نمائندگی مسلمانوں کوحاصل ہوئی ہے اس بار محض 24مسلم ارکان لوک سبھا کیلئے منتخب ہوسکے ان میں سے کچھ سیٹیں مقبوضہ جموں وکشمیر،آندھراپردیش،آسام اور کیرالہ کے علاقوں پر مشتمل ہیں قومی وعلاقائی جماعتوں سے منتخب ہوئے مسلم ارکان میں زیادہ تعداد مغربی بنگال سے تعلق رکھتی ہے یہ ارکان ممتابنر جی کی زیرقیادت ترنمول کانگریس کے ٹکٹ پر چنے گئے ہیں مقبوضہ جموں وکشمیر میں حکومت کرنے والی نیشنل کانفرنس کالوک سبھا انتخاب میں صفایاہوگیاجبکہ اسکی حریف مفتی سعید کی پی ڈی پی کے 3ارکان لوک سبھامیں پہنچنے میں کامیاب ہوسکے حیدرآباد میں مجلس اتحاد المسلمین نے اچھی کامیابی حاصل کی تھی انہوں نے سابق نشستوں کو اپنے قبضے میں رکھا آسام اور اترپردیش میں 20فیصد اور مہاراشٹرمیں 15فیصد ہونے کے باوجود مسلمانوں کو شکست کا سامنا کرنا پڑا ۔


بھارت میں ہندووٴں کے بعد مسلمان اکثریت میں ہیں اور اقلیت کی سب سے بڑی تعداد شمار ہوتے ہیں موجودہ اعدادوشمار میں مسلمانوں کی تعداد 25کروڑ بتائی جاتی ہے یہ25کروڑ مسلمان بدقسمتی سے لوک سبھا کے انتخابات میں25ارکان بھی منتخب نہیں کرواسکے اترپردیش جہاں بابری مسجد کو شہید کیاگیاوہاں ایک بھی مسلمان امیدوارکامیاب نہیں ہوسکا اسی طرح مظفرنگر میں 60فیصد مسلم خواتین کی عصمت ریزی کی گئی ڈیڑھ لاکھ لوگ بے گھر ہوئے وہاں بھی مسلمانوں کو کامیابی نصیب نہ ہوئی ۔


بھارتی انتخابات میں مسلمانوں کا وہی کرداردیکھنے میں آیا جیسا پاکستان میں سیکولر پارٹیوں کے مقابلے میں دینی جماعتوں کا ہوتا رہاپاکستان میں اسلامی نظام کے نفاذ کا نعرہ لگانے والی جماعتوں کے قائدین محض ذاتی مفادات کے پیش نظر اتحاد نہیں کرتے اور ایک دوسرے کے مقابلے میں امیدوار کھڑے کرکے سیکولرازم کے ایجنڈے کو پایہ تکمیل پر پہنچانے والے امیدوار کی کامیابی کے امکانات کو بڑھادیتے ہیں بھارت میں بھی مسلمان قیادت کا فقدان دیکھنے میں آیا وہاں بھی کسی دینی تنظیم کی آپش میں نہیں بنتی اور سب نے اتحاد کی بجائے الگ الگ حیثیت میں دوسرے مذہب سے تعلق رکھنے والے امیدوار کامقابلہ کیا ایک اوردو سے زائد مسلمان امیدواروں نے لاکھوں ووٹ بھی حاصل کئے لیکن وہ کامیابی حاصل نہیں کرسکا کیونکہ ان کے مقابلے میں کامیابی حاصل کرنے والے ہندوامیدوار نے چند سو یاپھرچندہزار زائد ووٹ لئے تھے اگرمسلم اکثریت والے حلقے میں تمام مسلمان امیدوار وں کوحاصل ہونے والے ووٹوں کوجمع کیا جائے تویہ تعداد ہندوٴ امیدوار کوملنے والے ووٹوں کے مقابلے میں دواورتین گنازائدبنتی ہے لیکن مسلمان ووٹ تقسیم کی ہونے کی وجہ سے ہندوامیدوار کامیاب ہوکر لوک سبھا میں پہنچ گیا اور مسلمان امیدوار دیکھتے ہی رہ گئے ۔


بھارتی جنتاپارٹی نے بھی خود کو سیکولر پارٹی ثابت کرنے کیلئے چند ایک نشستوں پرمسلمان امیدوار کو ٹکٹ جاری کئے لیکن انتہاپسندہندووٴں نے مسلمان امیدوارکو ووٹ دینے کی بجائے اسی حلقے میں دوسری جماعت سے تعلق رکھنے والے ہندوامیدوار کو ووٹ دے کر کامیاب کروایااسطرح بھارتی جنتا پارٹی کی ٹکٹ پر بھی کوئی مسلمان کامیاب نہیں ہوسکا اب انہیں اپنی وزارت میں مسلم نمائندگی کیلئے اتحادی پارٹی( لوک جن شکتی پارٹی) کے مسلم رکن کو وزیر بناناپڑے گا دوسری طرف بھارتی جنتاپارٹی کی جیت کے بعد بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیرکی آوازیں بھی آنا شروع ہوگئی ہے جبکہ بھارتی مسلم قائدین کے رابطوں میں فقدان کی وجہ سے اقلیت اکثریت میں موجود مسلمان مزید خوف میں مبتلاہوچکے ہیں کہ اب مسلمان اقلیت کے ساتھ کیاسلوک ہوگا ؟کیابھارت کے نئے وزیر اعظم نریندرمودی مسلم مخالف اپنی پالیسیوں کو تبدیل کرسکیں گے ؟ان تمام سوالات کا جواب قبل ازوقت دینا صرف مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن بھی ہے جبکہ بھارتی مسلم امیدواروں کیلئے صرف یہی پیغام ہے کہ اب پچھتائے کیافائدہ ؟جب چڑیاچگ گئی کھیت ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :