شب ِ تاریک سے صبح ِنو کا طلوع ہونا

جمعہ 23 مئی 2014

Muhammad Akram Awan

محمد اکرم اعوان

ہمارے ہاں سیاست نام ہی مسائل کوزیر ِ بحث لا کرہمدردی حاصل کرنے کاہے۔بحران پیدا کرنا، پھراس بحران کو حل کرنے کے دعوے کرنا، پھر اِن دعوؤں کی بنیا د پرپوائنٹ سکورنگ اور ہمدردی حاصل کرنا، پھرہمدردی کے نتیجہ میں ووٹ لے کر حکومت بنانا۔یہاں سیاست دان کی نظر صرف انتخابات کی فصل پر ہوتی ہے ۔ لیکن ہم عوام سوچتے ہیں کہ فلاں جماعت مخلص ہے یہ ہمارے مسائل حل کرے گی ، ہمیں روزگار ملے گا، مہنگائی سمیت تمام مشکلات اور مصائب سے نجات مل جائے گی، یہ جماعت کالاباغ ڈیم بنائے گی ۔کالاباغ ڈیم بن گیا توہر سال سیلاب کے ذریعہ سے آنی والی تباہی سے نجات مل جائے گی اور بلوچستان کا صدیوں سے خشک خطہ  ارض آباد ہوجائیگا،انرجی کا بحران حل ہو جائے گا۔ خیبرپختونخواہ میں تحریک انصاف کی حکومت ہے اور مرکزمیں مسلم لیگ نون، سندھ میں پیپلزپارٹی اوریہ تینوں جماعتیں عوامی مسائل حل کرنے کی دعویدار ہیں تو پھرعوام کو سبز باغ دکھانے کی بجائے کالا باغ ڈیم کا مسئلہ کیوں نہیں حل کرتیں۔

(جاری ہے)

نہیں میرے محترم دوستو!ہمارے ہاں بحران حل نہیں کئے جاتے بلکہ بحران پیدا کئے جاتے ہیں اور ان بحرانوں کے ذریعہ سے اپنی سیاست چمکائی جاتی ہے۔ ہم نے اسی کھیل کھیل میں اپنا آدھا ملک گنوا دیا، ملک کی تو خیر ہے ہمیں سیاست کرنی تو آگئی۔ ہم نے اگرآدھا ملک گنوا یاہے تو کچھ دیکھ کرہی گنوایا ہوگا۔
ایک دن بنیئے کا بیٹاہاتھ میں تیل کی ہنڈیا رکھے، کہیں جا رہا تھا۔ راستے میں ایک اشرفی پڑی نظر آئی۔ اس نے دل میں سوچا کہ اگر جُھک کر اُسے اُٹھاتا ہوں تو آس پاس کے لوگوں کے دل میں شبہ پیدا ہوگا۔ اس لئے وہ جان بوجھ کر اُس جگہ گر پڑا۔ گرنے سے اُس کے ہاتھ میں جو ہنڈیا تھی ٹوٹ گئی۔ اب ٹوٹی ہوئی ہنڈیا کے ٹکڑے اکٹھے کرنے کے بہانے اشرفی اُٹھا لی۔ اس بات کی خبرکسی نے اس کے باپ کو دی، کہ تمہارا بیٹا چلتے چلتے گر پڑا ہے اور تیل کی ہنڈیا بھی گر ِا دی۔جس پر اُس کے باپ نے کہا : " بنیئے کابیٹا ہے کچھ دیکھ کر ہی گرا ہوگا"
ہماری مثال بھی بنیے کے بیٹے جیسی ہے۔ ہم بھی ہر بات میں صرف اپنا فائدہ دیکھتے ہیں۔قصور ہمارا اپنا ہے۔ہم نے بحیثیت قوم کوئی فیصلہ کرنے کی کبھی ضرورت ہی محسوس نہیں کی۔ہم نے ساری اُمیدیں حکمرانوں سے وابستہ کر لی ہیں اور سالوں پر سال پھلانگتے چلے گئے ،نہ کوئی سمت بنی، نہ کوئی راستہ ملا اور نہ ہی مصیبتوں سے نجات نصیب ہوئی۔بس یونہی وقت کے دھارے میں بے آسرا تنکوں کی طرح بہتے رہے۔ ہم نے اپنی جانب کبھی دھیان ہی نہیں دیا ،خود اپنے آپ کو کبھی نہیں دیکھا کہ میں کیا کر رہا ہوں۔ کیا میں اپنے حصہ کا کام ایمانداری سے کررہا ہوں؟ آج ہم میں سے ہرکوئی اپنے کئے کی سزا بھگت رہا ہے۔ آج رشتوں میں اپنائیت کی جگہ مادیت نے لے لی۔ لالچ اور حرص نے ہم سے انسانیت نام کی چیزہی ختم کر کے رکھ دی ہے۔ آج ہم میں خوف ِ خدا نام کی کوئی چیزنہیں رہی۔ حالانکہ اللہ پاک نے اپنے پاک کلام میں واضح کردیا ہے ،اور وہ قادر ِ مطلق ہے۔
ترجمہ:- " اسی طرح ہوتی تھی تیرے رب کی پکڑ جب اس نے گرفت میں لیا ظلم کرنے والی بستیوں کو، بلاشبہ اس کی پکڑ المناک اور شدیدہے"( ۱۱:۱۰۲)
ہم یہ سمجھتے ہیں کہ شاید یوم آخرت میں صرف حکمران جوابدہ ہیں اور ہم تو بری الزمہ ہیں۔ ہم توجو مرضی کرتے رہیں ہم سے پوچھ ہرگز نہیں ہوگی، نہ حساب کتاب ہوگا۔ میرے دوستو!یہ جو مسائل ، مصیبتیں ،مشکلات چاہے وہ انسانی مظالم ،وحشت ،درندگی،دہشت گردی، مہنگائی اور بد امنی کی صورت میں ہوں یا قدرتی آفات زلزلہ، سیلاب اور بے موسم بارش کا ہونا یہ سب ہمارا اپنا کیا دھرا ہے۔ لیکن ہماری ڈھٹائی کی حد یہ ہے۔ کہ ہم چیخ اٹھتے ہیں کہ آخر ہم نے کیا کیا ہے؟
ترجمہ:-"جو لوگ برے کام کرتے ہیں، کیا وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ ہم اِن کواُن لوگوں جیسا کردیں گے جو ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے(اور) ان کی زندگی اورموت یکساں ہوگی جو یہ دعوے کرتے ہیں برے ہیں)"سوٴرہ جاثیہ، آیت نمبر(21
آج خیر کے عنصر سے ہمارا قومی جسد خالی ہوچکا ہے۔ دودھ میں گندا پانی ملانے والا سمجھتا ہے میرا اس کے بغیر گزارا نہیں ہوتا اور میرے اکیلے ایسا کرنے سے کیا فرق پڑ جائے گا ؟کون سی قیامت آ جائے گی ؟ دوسروں کے بچے گندملا دودھ پینے سے بیمار ہوتے ہیں اس بات سے اُسے کچھ غرض نہیں۔ اُسے تو صرف اپنے اچھے گزارے سے غرض ہے۔لیکن وہ یہ نہیں سوچتا کہ وہی جب اپنے جیسے دوکاندار سے مرچ میں سرخ اینٹیں ، ہلدی میں رنگ،ادرک میں کیمیکل اورپانی ملا گوشت لے کر گھر آئے گا تو اس کا انجام کیا ہوگا۔یہاں تک کہ زندگی بچانے والی ادویات جعلی اور دو نمبر ہوں تو ایسے معاشرے کی گراوٹ اور تنزلی کے کیا کہنے۔ارشاد ِ ربانی ہے ترجمہ:-"جوبھی مصیبت تمھیں پہنچتی ہے وہ تمھارے کرتوتوں کا نتیجہ ہوتی ہی"(۴۲:۳۰)
آدمی کی بدنصیبی ، لغزش اور پسماندگی ہے کہ وہ اللہ کے بندوں پر ظلم کرے ، ان کے حقوق مارے ۔اسلام میں تمام معاملات کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ جس کسی نے بھی اللہ کے بندوں کے حقوق مارے، ستایا،دل دُکھایا،غیبت کی،چغلی کھائی ، کسی قسم کی زیادتی کی یا نقصان پہنچایا، کسی کو ناحق مارا پیٹا یا جان سے مارا تو یہ ظلم معاف نہیں ہوں گے۔ پُرسش ہوگی اور بہت سخت پُرسش ہوگی وہ شخص جس پر زیادتی کی گئی ہو وہی معاف کرسکتا ہے۔
ترجمہ:"-اور اگر اللہ تعالیٰ لوگوں پر ان کے اعمال کے سبب پکڑ کرنے لگے تو روئے زمین پر ایک جاندار کو نہ چھوڑے، لیکن اللہ تعالیٰ نے انہیں ایک طے شدہ وقت تک مہلت دے رکھی ہے۔ سو جب وہ وقت آجائے گا تو اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے پوری طرح باخبر ہے۔"(سورہ فاطر:۴۵)
ہم سمجھتے ہیں جائزوناجائز ذرائع سے ہمارے پاس مال ہونا چاہیے کیونکہ ہمارے پاس جتنا مال ہوگا زیادہ چیزیں ہوں گی، زیادہ مکانات اور آسائشیں ہوں گی، اتناہی ہم خوش و خرم ، شادمان اور محفوظ ہوں گے۔ لیکن حقیقت میں یہ دنیاوی مال واسباب فکر اور پریشانی کا سبب بنتی ہیں۔اس کے مقابلہ میں نیکی ہمیشہ باقی رہتی ہے۔ حدیث میں ہے جس کامفہوم"نیکی سے سکون اور گناہ سے خلش پیدا ہوتی ہی"۔
ترجمہ:-" وہ لوگ جو ایمان لائے اور انہوں نے اپنے ایمان کو ظلم (شرک) سے آلودہ نہیں کیا ایسوں کے لئے امن ہے اور وہی ہدایت یاب ہیں"(۶:۸۲)
ایک موٴلف لکھتاہے"شدایدکتنے ہی کیوں نہ ہوں ان کی شدت اورامتداد کیسا ہی ہو ہمیشہ نہیں رہتے بلکہ جتنی زیادہ ان کی شدت، گہرائی اورتاریکی ہوگی اتنی ہی جلدان کے چھٹ جانے اور زائل ہونے کا وقت قریب ہوگا۔ اور یسر، فراخی، کشادگی،خوشحالی اور روشنی آئے گی" جب ابتلا اور آزمائش انتہا کو پہنچتی ہے اللہ کی مدد اوراحسان بھی اُسی وقت حاصل ہوتا ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ کسی درد مند،اپنے ملک اور قوم سے عشق کرنے والے فرشتہ نما حکمران، جووطن ِ عزیز میں امن وسکون ،ترقی و خوشحالی کا ضامن ہو،ایسے فرشتہ سیرت سیاست دان ،حکمران کی تلاش اور انتظار کرنے کی بجائے ہم اپنی انفرادی اصلاح کریں، اللہ پاک سے انفرادی اور اجتماعی استغفار کریں اور ہم سب اپنے انفرادی مفادات کی پرستش چھوڑ کراجتماعی بہبودکو اپنا نصب العین بنا لیں۔ اگر ہم میں سے ہرفرد طے کرلے کہ ملت کی ترقی اور خوشحالی کا انحصار اس کی دیانت داری ،جدوجہد اور ایمانداری سے اپنے فرائض ادا کرنے پر ہے تو اس شب ِ تاریک سے صبح ِ نو کا طلوع ہوناکچھ بعید نہیں ہے۔
اے رب العزت ہمارے گناہوں کو معاف فرما ، ہمارے حال ِ زار پر رحم فرمااور ہمارے ملک پاکستان سمیت پُورے عالمِ اسلام میں امن سکون عطاء فرما
آمین ثم آمین یارب العالمین۔
اللھم اَرحم امةَ محمدِِرحمةََعامةاللھم اصلح اُ مةَمحمدِِﷺ

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :