موبائل کلچر

جمعہ 23 مئی 2014

Manzoor Qadir Kalru

منظور قادر کالرو

محفل کا موضوع موبائل تھا۔موبائل کے فوائد کی بجائے نقصانات زیرِ بحث تھے۔اب اس وضاحت کی ضرورت تو نہیں رہی کہ یہ محفل سیانی عمر کے لوگوں کی تھی۔اہلِ محفل میں سے ایک صاحب اپنا مکہ لہرا لہرا کر کہہ رہے تھی مجھے تو موبائل کی یہی سہولت نظر آتی ہے کہ آپ گھر بیٹھے بٹھائے اپنے دُور کے رشتہ داروں کو آپس میں لڑا سکیں۔ اپنی دن بھر کی مصروفیت کی وجہ سے آپ جن دوستوں کو تنگ نہیں کر سکے انہیں بستر پر لیٹنے کے بعد تنگ کر سکیں۔

اپنے عزیزوں کو سردی کی وجہ سے چھینکوں کی آواز سنا سکیں تاکہ وہ آپ کو دلاسہ دے سکیں، موبائل پر پاپ میوزک کے ذریعے اپنے پڑوسیوں سے کل والی لڑائی کا بدلہ لے سکیں۔ دوسرے کہنے لگے ہر شخص اب موبائل کے ذریعے دوسرے کو نیچا دکھانے کے چکر میں ہے۔

(جاری ہے)

ایک زمانہ تھا کہ لوگ کشتی کے ذریعے دوسرے کو نیچا دکھاتے تھے، رسہ کشی کے ذریعے زور آزمائی کرتے تھے،کبڈی کے ذریعے کھلاڑی ایک دوسرے پر برتری حاصل کرتے تھے پھر برسوں تک تذکرے ہوتے رہتے تھے لیکن اب نیچا دکھانے کے لئے موبائل استعمال ہونے لگے ہیں۔

ذرا سا کوئی آنکھیں ملا کر بات کرنے لگتا ہے تو دوسرا اپنا قیمتی موبائل نکال لیتا ہے ۔اب تو روٹی کپڑا ملے نہ ملے موبائل ایسے ہونا چاہیے کہ دوسراپچک کر رہ جائے۔تیسرا کہہ رہا تھا بظاہرعوام مہنگائی کا رونا روتے نظر آتے ہیں لیکن گھر سے نمک مرچ کے لئے جو پیسے لے کر نکلتے ہیں اُس کا بیلنس کروا کر گھر آ جاتے ہیں۔جو دوکانیں نمک مرچیں فروخت کرنے کے لئے بنائی گئی تھیں اُن میں بھی بیلنس ہو رہے ہیں۔

بندہ گھی چینی لینے جائے تو دوکاندار کا اسرار ہوتا ہے کہ آپ ہمارے پرانے مہربان ہیں اس لئے بیلنس بھی کروا تے جائیں۔اپنی وضع داری کی خاطر کھانے پینے کی کوئی چیز چھوڑ کر بیلنس کروا لیتا ہے۔ چوتھے کہہ رہے تھے موبائل کمپنیاں صارفین کو روز بروز نئے نئے پیکج دے رہی ہیں۔یہ پیکج اتنے دلکش ہوتے ہیں کہ بچے گھر کی دیواروں پر مکے مار مار کر کہہ رہے ہوتے ہیں ابو اتنا عمدہ پیکج نہ لینا تو کفرانِ نعمت ہے۔

روز جزا اس بات کاضرور حساب لیا جائے گا کہ اتنا عمدہ پیکج دیا گیا لیکن آپ نے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا۔ابو کا جوتا ٹوٹا ہوا ہوتا ہے اور وہ سوچ رہا ہوتا ہے کہ اس تنخواہ پر ضرور جوتا لوں گا لیکن روزِ جزا کے حساب کے خوف سے اور بیٹے کے جذبے کو دیکھ کر ابو اپنے جوتے کی خریداری ملتوی کر دیتا ہے۔پانچواں کہہ رہا تھا کہ کیا زمانہ تھا کہ بچوں کو جھاڑ دیتے تھے تو وہ دو دوماہ تک آنکھ میں آنکھ ڈال کر بات نہ کرتے تھے۔

جھاڑنے کے بعد وہ اس قدر خوفزدہ ہو جاتے تھے کہ لڑکھڑاتے ہوئے چلتے تھے۔ اب ایسا بے حیا زمانہ آ گیا ہے کہ اگر کسی بچے کو جھاڑنے لگیں تو وہ اپنا موبائل جیب سے نکا ل لیتا ہے اور تیزی سے اس کے مختلف پروگرام بدلنے لگتا ہے۔اگر جھاڑنے والا جھاڑنے کے بعد کہے امید ہے اب آئیندہ تم ایسا نہیں کرو گے تو جھاڑے جانے والا موبائل سے توجہ اٹھا کر کہتا ہے آپ نے مجھ سے کچھ کہا ۔

چھٹے نے کہاکہ کیا وہ حسین دور تھا جب لوگ خیالوں میں اپنے محبوب کی تصویر سجائے ہوئے ہوتے تھے۔جب ذرا فراغت ملتی تھی تو آنکھیں بند کر کے دیدار کر لیتے تھے۔اس خوف سے محبوب کی تصویر بھی جیب میں نہیں رکھتے تھے کہ کہیں کوئی دیکھ نہ لے اور راز فاش نہ ہو جائے ۔اب محبوب بھی ویڈیو بنوانے میں فخر محسوس کرتے ہیں اور عاشق بھی دوستوں کو اپنے کیمرے کا رزلٹ دکھا کر تعریف سننے کے خواہشمند ہوتے ہیں۔

وہ جو ایک جھلک دیکھ کر اور پیاس بھڑک اٹھنے والی بات تھی اب گئے دور کی بات ہو گئی ہے۔وہ جو محبوب کی آواز سن کر مہینوں کانوں میں رس گھولتے رہنے کی لذت تھی وہ گئے زمانوں کی باتیں بن گئی ہیں۔میں نے ہمت کر کے کہا کہ صاحب موبائل کے کچھ فوائد بھی ہیں۔انہوں نے ایسی نظروں سے دیکھاکہ الفاظ زبان میں ہی خشک ہو گئے۔پھر ان میں سے ایک بولا۔ مثلاَ۔

عرض کیا۔انٹر نیٹ کی بدولت ساری دنیا سے رابطے میں رہا جا سکتا ہے۔وہ غصے سے بھرپور لہجے میں بولا اس سے کیا ہوگا۔عرض کیا معلومات میں اضافہ ہوتا ہے۔ کہنے لگے معلومات میں اضافہ ہی تو بلڈ پریشر کنٹرول سے باہر ہوتے جا رہے ہیں۔ کیا کرنا ہے معلومات میں اضافہ کر کے۔عرض کیا موبائل ٹیکنالوجی کی بدولت کسی ڈاکو یا بدمعاش کو تلاش کیا جا سکتا ہے۔

میز پر مکہ مار کر ایک بزرگ کہنے لگے لیکن اگر ڈاکو کو تلاش کر کے چھوڑ دینا ہو تو تلاش کرنے کا کیا فائدہ۔ عرض کیا موبائل میں ایک پروگرام جس کا نام جی پی ایس ہے کی بدولت راستہ بھول جانے کی صورت میں راستے کی رہنمائی مل جاتی ہے۔پہلو بدل کر ایک بزرگ بولے لیکن ایسی آوارگی بندہ کرنے کیوں نکلے کہ راہ بھولتا پھرے۔ عرض کیا کہ راستہ محض آوارگی کی وجہ سے تو نہیں بھولا جاتا۔

کہنے لگے جو آوارگی کے بغیر نکلیں وہ راستہ بھولتے ہی نہیں ۔ عرض کیا ٹیلی گرام کے لئے لوگ لمبی لائن بنایا کرتے تھے اور پھر کہیں جا کر باری آتی تھی ۔ اب آپ اپنے گھر کھڑے یا بیٹھے سیکنڈوں میں مسیج کرسکتے ہیں۔ وہ چھ کے چھ بزرگ اونچی آواز میں لاحولہ ولہ قوت پڑھنے لگے۔ پھر اُن میں سے ایک گویا ہوئے۔سارا فساد ہی تو ان میسجوں کا ہے۔عرض کیا رات کو آلارم لگا نے کی سہولت موجود ہے۔

کہنے لگے یہ تو ٹائم پیس میں بھی سہولت تھی۔عرض کیا، موبائل میں موسم کی پشین گوئی ہو سکتی ہے۔ کہنے لگے پشین گوئی سے کیا ہو گا۔پشین گوئی سے پہلے بندہ پرامید تو ہوتا ہے لیکن پشین گوئی کے بعد تو امید بھی جاتی رہتی ہے ۔گرمی جب آگ برسا رہی ہوتی ہے اور لوڈ شیڈنگ کی وجہ جان نکل رہی ہوتی ہے تو لوگ برائلر بدلیوں کو دیکھ کر بارش کی آمد کی امید لگائے بیٹھے ہوتے ہیں۔

موسم کا اگر ایک ہفتہ قبل ہی پتہ چل جائے تو سب امیدوں پر پانی پھر جاتا ہے اور زندگی دوبھر ہو جاتی ہے۔ایسی پشین گوئی کا کیا فائدہ ۔ عرض کیاموبائل کی بدولت بندہ گھر بیٹھے اپنا اکاؤنٹ ڈیبٹ یا کریڈٹ کرا سکتا ہے۔کہنے لگے ان کرتوتوں کی وجہ سے گھر بیٹھے بندہ اپنی پونجی سے محروم بھی ہو جاتا ہے۔عرض کیا موبائل پر دوسرے ملک میں موجود اپنے بیٹے سے بالمشافہ گفتگو ہو سکتی ہے۔کہنے لگے دوست سے کم اور سہیلیوں سے زیادہ بالمشافہ باتیں ہوتی ہیں۔عرض کیا موبائل قبلہ رخ بھی بتاتا ہے۔ کہنے لگے ،موبائل کا بس یہی ایک فا ئدہ نظر آتا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :