خود کو لیڈر کون کہلواسکتا ہے؟

جمعہ 23 مئی 2014

Muhammad Saqlain Raza

محمد ثقلین رضا

نیلسن منڈیلا کانام حقیقی معنوں میں آزادی پسند لیڈروں میں ہوتاہے انہوں نے کئی برس تک کالے قانون کیخلاف جس انداز میں جدوجہد کی وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ برسہابرس کی قیدوبند کی صعوبتیں گریٹ منڈیلا کے ارادوں کو پسپا نہیں کرسکیں۔ پھر ایک دور ایسا آیا کہ وہ منڈیلا جو پس زنداں تھا ‘آزادی کاعلمبردار بن کرسامنے آگیا‘ وہ منڈیلا جسے کالاہونے کی وجہ سے اپنے ہی ملک میں سفید چمڑی والوں نے دھتکار دیاتھا دنیا بھر کی اقوام کا ہیروبن گیا‘ وہ جو نفرت کی علامت تھا محبت کا سب سے بڑاسفیر بن گیا۔

اسی گریٹ منڈیلا سے کسی نے پوچھا ’#’لیڈر اور سیاستدان میں کیافرق ہوتاہے“ منڈیلا نے جواب دیا کہ ”سیاستدان کو اپنے اقتدار کی فکر ہوتی ہے جبکہ لیڈر کو قوم کی“ یہ قول نجانے کتنی بار پڑھنے اورلکھنے کے باوجود یوں لگتا ہے کہ شاید انہوں نے کسی اوردنیا کیلئے یہ جملہ کہا لیکن حقائق کی دنیا میں واپس آئیں تو ان کے جملوں کی حقیقت کھلتی ہے کہ اس وقت مادر وطن پاکستان عجیب طرز کی بے کلی‘ بے چینی اورقحط الرجال کاشکار ہے۔

(جاری ہے)

بلکہ اگراسے یوں کہاجائے کہ بے کلی‘ بے چینی‘ بدامنی‘ لاقانونیت کی اصل وجہ ہی یہی ہے کہ اس وقت ملک میں سرے سے لیڈر موجودہی نہیں ‘جوتھے ‘وہ دنیا سے رخصت ہوگئے یاکردئیے گئے‘اب تو نیچے سے اوپر تک نظردوڑانے پر کوئی ”لیڈر “ نظر نہیں آتا جسے اقتدار کی نہیں عوام کی فکر ہو۔
صاحبو!ذرا دیکھئے کہ لیڈر کی خصوصیات میں سے ایک بنیادی خصوصیت عوام کو لیڈ کرنا یا قیادت کرنا ہوتا ہے ‘ جو لیڈر اس خصوصیت کا حامل نہ ہو یعنی عوام کی آواز کے مطابق ‘عوام کی قیادت نہ کرسکے وہ لیڈرکہلوانے کا حقد ار نہیں‘ لیڈر کی دوسری خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ وہ کسی بھی معاملے کو میرٹ ‘ انصاف کی نظروں سے دیکھتے ہوئے ہرچیز کو اس کے مقررہ مقام پر رکھتاہے اگر کوئی ایسا نہ کرسکے تو پھر وہ لیڈر کہلوانے کا حق دار نہیں‘ ایک ایسا شخص جس کی نظر میں اپنا اقتدار نہیں‘اولاً ملکی سلامتی دوئم عوام کا مفاد زیادہ اہمیت کاحامل ہے اس ضمن میں اگر اسے کچھ کڑوے کسیلے فیصلے کرناپڑجائیں تو دریغ نہیں کرتا‘ لیڈر کاکام عوام کی قیادت کرنا ہوتاہے ‘کثرت رائے کا احترام کرتے ہوئے اپنے خاص اورمحب وطن مشیروں کی مشاورت کے بعد عوامی امنگوں کے مطابق فیصلہ کرتا ہے۔

اگر ان نقاط کی روشنی میں اگر پاکستان کا جائزہ لیاجائے تو سوائے شرمندگی کے کچھ ہاتھ نہیں آتا۔ دنیا بھر میں جمہوری ‘بادشاہانہ نظاموں کے جائزہ کے بعد ہم یہ نتیجہ اخذکرسکے ہیں کہ جب کوئی بھی حکومت یا حکمران فیصلہ کرنے کی اہلیت نہ رکھتاہو ‘اس کے فیصلے میں عوام یا قو م کے مفاد کی بجائے محض چند اداروں ‘چند افراد کامفاد چھپاہو ‘ یا پھر وہ فیصلے کرنے میں دیر کردے تو پھر قوم خود فیصلہ کرنے پر اتر آتی ہے اورجب قوم کوئی بھی فیصلہ کرلے یااحتجاج کی راہ پر گامزن ہوجائے تو پھر اس لیڈر کو وہ بات ماننا پڑتی ہے ایسے میں اگر یہ کہنا کہ وہ لیڈر ہے تو یہ سراسر ناانصافی ہی تصور ہوگی کیونکہ لیڈرکا بنیادی کام قوم‘ عوام کی قیادت کرنا ہے نہ کہ ان کے پیچھے چلنا ۔

جو یہ کام ہی نہ کرسکے وہ لیڈر کہلوانے کا حقد ا ر نہیں‘
آئیے ذرا دیکھئے پاکستان میں پچھلے چند ماہ کتنے بے چین گزرے۔ دہشتگردی کی بلاتو خیر ایک ساز ش کے تحت پاکستان پر مسلط ہے یہ الگ قسم کی بحث ہے جس پرسالوں بات ہونے کے باوجود حتمی فیصلہ نہیں کیاجاسکا کہ ”انڈہ پہلے ہے یا مرغی “ تاہم آج اس بحث میں پڑے بنا اگر تین چار ماہ کے دورانئے کا جائزہ لیاجائے تو عجیب سی بے کلی نظر آتی ہے‘ ملک کے مقتدر ادارے جنکا کام عوام کی حفاظت یا ملکی مفادات کا تحفظ ہوتاہے ‘ خود بے یقینی کی کیفیت کاشکار ہیں۔

اگر ایک میڈیا ئی ادارے کی دو مختلف حرکات کے جائزہ کے بعد دیکھاجائے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں تو ہمیں اپنا دامن خالی ہی نظر نہیں آتا بلکہ یوں محسوس ہوتاہے کہ ہرسو نظر آنیوالے صحرا کے بیچوں بیچ قوم ننگے پاؤں جھلستی دھوپ میں کھڑی ہے اور اسے چھت فراہم کرنیوالا کوئی نہیں؟؟ قوم کی قیادت کے دعویدا رلیڈر ہیں کہاں؟؟ لیڈر کاکام تو عوام کی بے چینی دورکرکے ملکی ‘قومی مفاد میں فیصلہ کرناہوتا لیکن یہ قیادت یا لیڈر شپ اس وقت کہاں تک جب ملکی سلامتی کے ضامن اہم ترین ادارے پر الزامات لگے‘ چلو جی چونکہ معاملہ سیاست کی بھینٹ چڑھ گیا ‘ حقیقی قیادت نہ ہونے کی وجہ سے قوم بھی دوحصوں میں بٹ گئی اس لئے اس معاملے پر ”مٹی پاؤ “ لیکن قیادت پھر بھی خاموش رہی‘ نہ تو ملک کے اہم ترین عہدوں پر بیٹھی شخصیات نے قوم کی بے چینی دور کی اور نہ ہی اس حوالے سے کوئی سنجیدہ فہمیدہ اقدام اٹھایا ۔

پھر اسی ادارے کی طرف سے ایک اور غلطی نہیں بلکہ بہت بڑا گناہ سامنے آتا ہے ‘ دنیا چیخ اٹھتی ہے‘ ہرمکتبہ فکر کے لوگ اس گناہ پر چلاتے روتے دھوتے سڑکوں پر نکل آتے ہیں لیکن قیادت پھر بھی خاموش رہتی ہے‘ احتجاج جاری رہتاہے‘ ملک بھر میں شدید عوامی دباؤ ‘ عوامی بے چینی کے پیش نظر عدالتی احکامات پر مقدمات درج ہونے لگتے ہیں‘ عوام چیخ چیخ کر تھک گئے ‘ کوئی نتیجہ سامنے نہیں آیا الٹا اس معاملے کو ”الجھاؤ اور ٹائم پاس کرو“ قسم کی فضول پالیسی کی بھینٹ چڑھاکر لیڈرکہلوانے کے دعویدار ان خود بیرون ملک دوروں میں مصروف ہیں کسی نے عوام کی سنی ؟؟ عوامی امنگوں کو جاننے کی کوشش کی ؟؟ ایسا کچھ نہیں ہوا ‘عوام سڑکوں پر نکل آئے ‘ اور خودہی فیصلہ ہاتھ میں لے لیا ‘ قیادت کرنیوالے اور لیڈر کہلوانے والے کہاں گئے‘ قوم ایک بار پھر خود قیادت کیلئے سامنے آگئی‘ لگتا یہی ہے کہ اب کی بار بھی لیڈر ہونے کے دعویدار قوم کے پیچھے پیچھے چلنے پر مجبورہوجائیں گے۔


بات ایک میڈیائی گروپ کی غلطیوں ‘کوتاہیوں ہی کی نہیں بلکہ یہاں تو ہرروز ایسے کئی تماشا ‘کئی تماشائی سامنے آتے رہتے ہیں لیکن قیادت کے دعویدار نہ تو بولتے ہیں اور نہ ہی قو م کی تسلی کیلئے کوئی عملی اقدام اٹھاسکتے ہیں‘ محض ایک سال کی حکومت کو نہ دیکھئے گذشتہ کئی عشروں سے یہی صورتحال درپیش ہے‘ قوم ہر چار پانچ سال کے بعد ”لیڈر‘ ‘ڈھونڈنے کیلئے پولنگ سٹیشنوں کارخ کرتی ہے لیکن ہر بار جب نتیجہ سامنے آتا تو کوئی نہ کوئی سیاستدان ‘لیڈر کے رو پ میں مسند اقتدار پر فائزہوجاتاہے۔


گذشتہ کئی ماہ کی بے کلی کے باعث ہم یہ سوال کرنے میں حق بجانب ہیں اگر تو کوئی کو لیڈر کہتا یا کہلواتا ہے تو پھر وہ قومی امنگوں کی ترجمانی کافریضہ انجام کیوں نہیں دے پایا؟؟آخر وہ کیا زنجیر تھی جو اسے لیڈر بننے سے روکتی رہی اورقوم کو خو د سڑکوں پرآنا پڑا؟؟ اگر بنظرغائر جائزہ لیاجائے تو وہ زنجیر اصل میں حکومت بچانے اورمفادات کو تقویت دینے کی زنجیر تھی ۔

ایسے میں گریٹ منڈیلا کے فرمان کی روشنی میں یہی بات ہی سامنے آجاتی ہے کہ اس وقت ملک قحط الرجال کا شکار ہے‘ کوئی لیڈر اس قوم کو میسر نہیں ‘البتہ ایک اینٹ اٹھانے پر کئی سیاستدان ضرور سامنے آجائیں گے۔ان سوالوں کے پیچھے کئی ضمنی سوالات بھی جواب کے منتظر ہیں ‘ لیکن جواب کون دے گا ‘ کیونکہ اس وقت تو کوئی ایسا شخص ‘کوئی ایسا لیڈر سرے سے نظر ہی نہیں آتا جو قوم کی آواز سن سکے

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :