علمی وروحانی تقریبات کی دھنک

جمعہ 23 مئی 2014

Abdul Quddoos Muhammadi

عبدالقدوس محمدی

دینی مدارس کے تعلیمی سال کے اختتام کے دن مبارک ،پررونق ،ایمان افروز اور پرمسرت تقریبات کے دن ہوتے ہیں ۔کہیں تقسیم اسنا د کا جلسہ تو کہیں تکمیل بخاری شریف کی تقریب ،کہیں الوداعی مجالس تو کہیں پرخلوص ضیافتیں ،کہیں تقریری مقابلے اور کہیں قسما قسم مسابقے …مدارس کی دنیا میں تقریبات کی ایک دھنک جمی ہوتی ہے۔اس سال جن جن تقریبات میں شرکت کی سعادت حاصل کی ان میں سے ہر ایک تقریب ایسی ہے جو مستقل کالم کا تقاضہ کرتی ہے لیکن سب تقریبات اور اجتماعات کو احاطہ تحریر میں لانا ممکن نہیں ۔

البتہ بعض تقریبات ایسی ہیں جن کا تذکرہ کیے بغیر نہ صرف یہ کہ اجالاادھورا رہے گا بلکہ شاید تاریخ بھی ادھوری رہے ۔ان میں سے ایک تقریب جامعہ فریدیہ میں منعقد ہونے والی ختم بخاری شریف کی تقریب ہے ۔

(جاری ہے)

جامعہ فریدیہ کی ختم بخاری شریف کی تقریب کے لیے نہ کوئی اشتہار چھپتا ہے ،نہ دعوت نامے تیار ہوتے ہیں ،نہ ہوٹلوں میں کمروں کی بکنگ کروائی جاتی ہے ،نہ ہی ہاروں اور پھول پتیوں کا کوئی بندوبست ہوتا ہے ،نہ تو نامی گرامی خطباء کو مدعو کیا جاتا ہے اور نہ ہی پیشہ ور نعت خوانوں کو زحمت دی جاتی ہے ۔

لیکن عجیب بات یہ ہے کہ ایسی تقریب ،ایسی نورانیت ،ایسا ماحول اور یہ عالم شاید ہی کہیں دیکھنے کو ملتا ہو۔اس سال جامعہ فریدیہ کی تکمیل بخاری شریف کے تقریب میں جامعہ کے شیخ الحدیث مولانامفتی محمد امین دامت فیوضہم نے آخری حدیث کا درس ارشاد فرمایا ۔حضرت شیخ کے تلامذہ پورے ملک بلکہ پوری دنیامیں پھیلے ہوئے ہیں کچھ وہ جنہوں نے کراچی میں حضرت سے صرف ونحو اور فنون کی کتب پڑھیں اور کچھ وہ جنہیں بخاری وترمذی میں حضرت سے شرف تلمذ حاصل ہوا ۔

عشروں سے درس وتدریس کے شعبے سے وابستہ شیخ کے درس میں حسنِ ترتیب ،علمی نکات ،وسعت مطالعہ اور تفہیم کے جو چار چاند ہوتے ہیں وہ ان کا درس سننے والوں کو سحر زدہ کر دیتے ہیں ۔ بخاری شریف کا آخری درس بھی اسی طرح دیا کہ ایک عشرہ قبل کی دورہ حدیث کی درس گاہ کے مناظرہ آنکھوں کے سامنے گھوم گئے ۔جامعہ کے نائب مہتمم اور حسن انتظام وانصرام کا استعارہ مولانا عبدالغفار جامعہ فریدیہ کی طرح اس تقریب کے بھی روح رواں تھے ۔

ہزاروں علماء کے مربی ومحسن مولانا عبدالغفار کی جدید وقدیم فضلاء کے لیے ہدایات وارشادات حاصل محفل تھا اور یادگار اسلاف ،پیکر اخلاص مولانا محمد عبدالعزیز کا الوداعی خطاب ،مولانا کے سبق آموز نصائح ،ان کی درد بھری گفتگو ،تجربات ومشاہدات کا نچوڑ سن کر انسان زندگی کے بہت سے معمولات اور معاملات پر نظر ثانی پر مجبور ہو جاتا ہے ۔
تقریب کے اختتام پر مولانا محمد عبدالعزیز کی جس انداز سے ذکر کرواتے ہیں اور رجوع الی اللہ کا درس دیتے ہیں اس سے اس علمی تقریب میں روحانیت کا حسین امتزاج دکھائی دیتا ہے اور پھر آخر میں مولانا کی رقت آمیز دعا ختامہ مسک کا مصداق ہوتی ہے ۔

سفید عمامے باندھے،سفید براق لباس میں ملبوس جدید فضلاء ،علماء وطلباء اور عوام الناس کی کثیر تعداد،علمی دروس ،الوداعی نصائح ،مشفقانہ ہدایات نے پہلے ہی سماں باندھ رکھا ہوتا ہے اور پھر ایسے میں جب مولانا رقت آمیز دعا کرواتے ہیں تو اس سے ہر آنکھ اشکبار ہوجاتی ہے ۔میلے من دھل دھل کر اجلے ہونے لگتے ہیں ،پتھر دل پگھل پگھل کر آنکھوں کے راستے ڈاڑھیاں تر کرنے لگتے ہیں اور حقیقی معنوں میں لذت ِ طلب نصیب ہوتی ہے ۔

دعا کے بعد بھیگی آنکھوں ،بیک وقت مسرت اور فکر مندی کے ملے جلے جذبات سے دمکتے چہروں والے نوجوان فضلاء اپنے اساتذہ سے مبارکباد اور دعائیں لینے آتے ہیں تو آٹھ برس قبل کے وہ مناظر نگاہوں کے سامنے گھومنے لگتے ہیں جب کسی دورا فتادہ بستی سے ڈرا سہماہوا، زندگی کے آداب ،دینی تعلیمات اور ہر طرح کی نزاکتوں سے بے خبرایک بچہ آکر داخلہ ٹیسٹ میں بیٹھا تھا اور پلک جھپکتے ہی آٹھ برس پر محیط عرصہ گزر جانے کے بعد اب وہ ایک ”فارغ التحصیل ، عالم دین “ بن کر سامنے کھڑا ہوتا ہے ۔

اللہ ان جواں سال فضلاء کو دنیا آخرت کی سب نعمتوں سے مالامال فرمائیں اور دین کی خدمت ومحنت کے لیے قبول فرمائیں ۔
یوں تو جامعہ اسلامیہ صدر راولپنڈی کی تقریب ختم بخاری اور مولانا فضل الرحمن کے آخری درس حدیث کا بھی بہت چرچا سنا ،سیاسی جھمیلوں اور زندگی کے بکھیڑوں کے باوجود مولانا کے علمی استحضار پر بہت لوگوں کوحیران پایا لیکن میں خود اس تقریب میں شریک نہ ہو سکا ،اسی طرح اپنے محسن ومشفق مولانا پیر عزیز الرحمن ہزاروی کے ہاں ہونے والے تین روزہ علمی و روحانی اجتماع میں شریک نہ ہوسکنے کی حسرت رہی جبکہ مولانا قاضی عبدالرشید صاحب کے ہاں ہونے والی تقریب ختم بخاری مستقل کالم کی متقاضی ہے جس پر انشا اللہ آئندہ نشست میں بات ہوگی تاہم جڑواں شہروں میں منعقد ہونے والی دیگر تقریبات میں جامعہ محمدیہ اسلام آباد میں انعقاد پذیر ہونے والی تکمیل بخاری کی تقریب بھی یادگار تھی ۔

جامعہ محمدیہ ہمارے مخدوم مکرم مولانا ظہور احمد علوی کی جہد مسلسل کا ثمر ہے ۔مولانا ظہور احمد علوی وفاقی دارالحکومت میں مولانا عبداللہ شہید  کی صفت شفقت اور خوش اخلاقی کا پرتو ہیں ۔ان کا مسکراتا ہوا چہرہ ،ہر کسی سے بانہیں پھیلا کر تپاک سے ملنے کا انداز اور شفقت سے لبالب رویہ انسان کو نہال کر دیتا ہے ۔ہمارے دیکھتے دیکھتے ایک عام سی مسجد کو خون جگر دے کر ایک گلشن علوم نبوت میں بدلنے کے لیے اس شخص کو جو خون جگر دینا پڑا اور اقتدار کے ایوانوں کے قریب علم وہنر کا جو گہوارہ بنایا وہ اللہ رب العزت کی کے خصوصی فضل وکرم کا کرشمہ ہے ۔

مولانا کے جواں سال ،باصلاحیت اور درد دل رکھنے والے صاحبزادے مولانا تنویر احمد علوی اور دیگر اساتذہ ورفقاء ان کے دست راست بنے اور ایک بلند وبالا،پیچ درپیچ اور وسیع وعریض عمارت معرض وجود میں آگئی ۔جامعہ محمدیہ میں ہونے والے ختم بخاری میں جامعہ امدادیہ فیصل آباد سے شیخ الحدیث مولانا محمد طیب صاحب کو مدعو کیا گیا تھا ۔مولانا نے اپنے روایتی دھیمے اور علمی انداز سے خطاب فرمایا،خطیب نکتہ داں مولانا عبدالکریم ندیم کے خصوصی خطاب ،ندیم احمد خان چیئرمین خبیب کی امت مسلمہ کے حوالے سے فکر انگیز گفتگو ،مولانا تنویر احمد علوی کی نقابت اور مولانا مفتی سعید الرحمن اور مولانا محمد عابد کے حسن انتظام نے جامعہ محمدیہ کی تقریب تکمیل بخاری کو یادگار بنا دیا تھا ۔

ہماری محمدی مسجد سے تعلیمی سفر کا آغاز کرنے والے طلباء کی بڑی تعداد کے دوسرے بیج نے جامعہ فریدیہ اور جامعہ محمدیہ سے سند فراغت پائی تھی اس لیے بھی یہ دونوں تقریبات میری ذاتی دلچسپی کا محور ومرکز رہیں بلکہ یوں کہنا بے جا نہ ہو گا کہ میزبانی کا شرف نصیب ہوا ۔جامعہ محمدیہ میں ایک سرگرمی بطورخاص قابل ذکر ہے کہ مولانا علوی صاحب نے گزشتہ سال سے ختم بخاری کے موقع کو غنیمت جانتے ہوئے قدیم فضلاء کے جوڑ اور اجتماع کا جو اہتمام کیا ہے وہ ایک قابل تقلید مثال ہے ۔دیگر مدار س وجامعات کو بھی اس کا اہتمام کرناچاہیے …اللہ رب العزت کی ذات سے دعا ہے کہ اللہ دین کی خدمت میں مصروف عمل تمام حضرات کی مساعی جمیلہ کو قبول فرمائیں ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :