بس کردو

جمعہ 23 مئی 2014

Hussain Jan

حُسین جان

سری لنکن ٹیم پر دہشت گرددں کے حملے کے بعد سے ہمارا ملک عالمی کرکٹ کی میزبانی سے محروم ہے،لیکن کچھ لوگ ملک میں کرکٹ کو مرحوم بنانے کے چکر میں ہیں محرومیت تو دور کی جاسکتی ہے لیکن اگر مرحوم ہو گئے تو اس کا کوئی حل نہیں ۔ہماری سپریم کورٹ جس تیزی سے کرکٹ کے فیصلے صادر کر رہی ہے اگر اسی رفتار سے عام مقدمات کے بھی فیصلے سنا دیے جاہیں تو بہت سو ں کا بھلا ہو جائے۔

یہاں تو ماتحت عدلیہ کا یہ حال ہے کہ بس کچھ نا پوچھیں لکھتے ہوئے ڈر لگتا ہے کہ کہیں توہین عدالت نہ ہوجائے۔ ایک طرف تو یہ حال ہے کہ 90سال بعد کیس کا فیصلہ سنایا جاتا ہے اور دوسری طرف 90منٹ بھی نہیں لگتے ۔ اس طرح کے فیصلے بہت سے سوالات کو جنم دیتے ہیں۔
پاکستان کے عوام کی کرکٹ سے جذباتی وابستگی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں مگر بدقسمتی سے آج تک کسی بھی حکومت نے سنجیدگی سے کرکٹ کے معاملات کو چلانے کی کوشش نہیں کی۔

(جاری ہے)

کرکٹ ایک کھیل ہے جس میں سیاسی مداخلت نہیں ہونی چاہیے جو حکومت بھی آئی اُس نے اپنے من پسند افراد کو نوازنے کے لیے اس ادارئے کو اُس کے سپرد کر دیا۔ ان میں بہت سے لوگ ایسے بھی تھے اور ہیں جن کو کرکٹ سے دور کا بھی تعلق نہیں بدقسمتی سے آجکل کرکٹ بورڈ سیاسی آکھاڑا بنا ہوا ہے۔ اتنی جلدی تو لوگ پینٹ تبدیل نہیں کرتے جتنی جلدی جلدی چئیرمین تبدیل ہو رہے ہیں۔

نواز شریف صاحب کے پاس ملک کا تیسری دفعہ وزیر آعظم بننے کا اعزاز ہے اب ہمارے کرکٹ کے دو سربراہوں کے پاس بھی یہ اعزاز ہے کہ تین تین دفعہ اس کرسی کو سنبھال چکے ہیں۔
حال ہی میں عالمی ادارہ صحت نے پاکستان پر سفری پابندیاں لگائی ہیں اگر یہی صورتحال رہی تو ایک دن کرکٹ پر بھی پابندی لگ جائے گی ہمارے ملک میں کوئی کھیلنے نہیں آتا اور کسی نے ہمیں اپنے ملک بلانا نہیں۔

ہمارے پاس بہت سے ادارئے موجود ہیں جن میں سیاسی مداخلت سے زوال چل رہا ہے۔ ریلوئے سے لیک کر پی آئی اے تک،سٹیل مل سے لے کر واپڈا تک تمام ادارئے اپنی آخری سانسیں گن رہے ہیں۔ ہماری حکومتیں ہر اُس ادارئے کا بیڑہ غرق کرنے پر تلی ہوتی ہیں جن میں رتی برابر بھی عوامی مفاد موجود ہو۔ دُنیا میں اس گلوبل دور کے باوجود بھی بہت سے ممالک ہیں جو پاکستان کو نہیں جانتے مگر کرکٹ ایک ایسا کھیل ہے جس کی بنا پر ہم اپنی قومی تشخص بہال کرسکتے ہیں۔


بگ تھری سے لے کر سپاٹ فکسنگ تک جتنا نقصان پاکستان کرکٹ کو ہوا ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔ جو سربراہ بھی آتا ہے اپنے من پسند لوگوں کو اچھی اچھی پوسٹوں پر بیٹھا دیتیا ہے۔ اور پچھلے سربراہ کے دور میں بھرتی ہونے والے ملازمین کو فارغ کر دیا جاتا ہے۔ افسوس کی بات ہے اس وقت ملک کے کافی صحافی حضرات حکومتی عہدوں پر فائز ہیں اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ یہ پوسٹیں صرف اُن کو خوش کرنے کے لیے دی جارہی ہیں۔

ہم یہ نہیں کہتے کہ حکومت کسی صحافی کو پوسٹ نہ دے کم ازکم میرٹ کا خیال تو کرئے۔ کیا پنکچر لگانے والا بندہ کرکٹ جیسے کھیل کو احسن طریقے سے چلا سکتا ہے۔
کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے ہماری کرکٹ ٹیم کے ایک کوچ نے کھیلاڑیوں کی بری پرفارمنس پر خود کشی کر لی تھی، بیچارہ کسی کو کیا منہ دیکھاتا۔ کھیلاڑیوں کا تو یہ حال ہے کہ سمر کیمپ میں بری طرح تھک جاتے ہیں اور ان فٹ ہو رہے ہیں۔

جو وقت ہم آپسی لڑائیوں پر خرچ کر رہے ہیں یہی وقت اگر ہم اپنے کھیل کو بہتر کرنے میں صرف کرہیں تو ہوسکتا ہے عالمی سطح پر بہتر کارکردگی کی بنا پر پاکستان میں بھی اینٹرنیشنل کرکٹ بہال ہو جائے۔ پاکستان کے پاس بہت سے سابقہ کھیلاڑی موجود ہیں جو انتظامی معاملات احسن طریقے سے چلا سکتے ہیں مگر انہیں چانس نہیں دیا جاتا۔ لیکن جو میڈیا پر شور مچاتااُس کا منہ بند کرنے کے لیے کوئی نہ کوئی عہدہ عطا کر دیا جاتا ہے۔

پاکستان میں ویسے بھی سرکاری عطایے کافی موجود ہیں جن کی جولی ہر طرف سے بھری رہتی ہیں۔ بورڈ کی حالیہ لڑائی میں پوری دُنیا میں ہماری جو جگ ہنسائی ہوئی ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔ ہمارے حکمران بھی عجیب ہیں ملک کو تو رفاہی ادارہ بنا نہیں سکے پی سی بی کو رفاہی ادارہ بنا دیا ہے۔ اسی نوازش کی وجہ سے آج ہمارا ملک اندھیروں میں ڈوبا ہوا ہے نان پروفیشنل لوگوں کو جب من پسند نوکریاں ملنا شروع ہو جائیں تو ادارے ایسے ہی تباہ ہوتے ہیں۔

یہاں تو یہ عالم ہے عام آدمی کے لیے سرکاری نوکری ایسے ہے جیسے شیر کہ منہ سے نوالہ چھیننا لیکن منظور نظر لوگوں کے لیے سرکاری عہدہ گھر کی لونڈی کے مترادف ہے۔
ہمارے ایک دوست ایک ایسے ادارئے میں کام کرتے ہیں جس کے بارے میں مشہور ہے کہ جب دل کرتا ہے اپنے ملازمین کو نوکری سے نکال دیتے ہیں ، آپ تیار ہو کر گھر سے دفتر جانے کے لیے نکلتے ہیں دفتر پہنچ کر پتا چلتا ہے کہ آپ کو فائر کر دیا گیا ہے۔

یہی حال کرکٹ بورڈ کا ہے جو چئیرمین عدالتی فیصلے کے بعد سیٹ پر بیٹھتا ہے لوگوں کو فارغ کرنا شروع کر دیتا ہے ، بیچارئے ٹائی شائی لگا کر دفتر آتے ہیں تو گارڈ بتاتا ہے کہ آپ کی منسوخیکے آرڈر آچکے ہیں لہذا آپ گھر واپس چلے جائیں۔ حکمت ملکی مسائل کو پش پشت ڈال کر کرکٹ کے مسائل میں اُلجھی ہوئیہے اب تو یہ انا کا مسئلہ بنتا جا رہا ہے۔ آئی سی سی کی جانب سے واضح کیا گیا ہے کہ کرکٹ میں سیاست کا عمل دخل ختم ہونا چاہیے لیکن افسوس کی بات ہے ہم اس طر ف کوئی دھیان نہیں دے پارہے۔

کیا ہمارے پاس واقعی پروفیشنل لوگوں کی کمی ہے۔ کیا ہم پی سی بی کے چیرمین کے لیے کوئی طریقہ کار نہیں لاسکتے کیا ہمارے پاس پلاننگ کی کمی ہے۔ بچپن سے تو یہی سنتے چلے آرہے ہیں کہ پاکستان میں بہت ٹیلنٹ موجود ہے مگر یہ ٹیلنٹ ایک چئیرمین کی سلیکشن کا طریقہ کار وضح نہیں سکا۔ اور تو اور اس لڑائی میں کھیلاڑیوں کا مورال بھی بری طرح گر رہا ہے، وہ اپنی ٹرینگ پر توجہ نہیں دے پارہے روز کسی نہ کسی کھلاڑی کا کوئی نہ کوئی جھگڑا سامنے آجاتا ہے۔

اگر کچھ وقت کھلاڑیوں کی تربیت پر لگایا جائے تو بھی مثبت نتائج حاصل کیے جاسکتے ہیں ۔ ایک وقت تھا پاکستان کی گلی گلی میں کرکٹ کھیلی جاتی تھی مگر اب لوگ کرکٹ میں دلچپی لینا چھوڑ رہے ہیں۔ انڈیا نے اپنے بورڈ کو اتنا مظبوط بنا لیا ہے کہ اُس کے بغیر کرکٹ کی دُنیا میں کوئی فیصلہ کرنا ممکن نہیں رہا۔ انڈیا کے لیے کرکٹ سونے کا انڈہ دینے والی مرغی ہے اور وہ اس سے روز ایک انڈہ وصول بھی رہے ہیں مگر ہم اس مرغی کو زبح کر کے ایک ہی دفعہ سارے انڈے نکالنے کے چکر میں ہے۔

بنگلہ دیش کی ٹیم جسے کل تک کوئی پوچھتا نہیں تھا آج وہ ائی سی سی میں ہم سے بہتر پوزیشن میں ہے۔ آئی سی سی والے بھی سوچتے ہوں گے کہ پاکستان میں کرکٹ کو جس طرح لیا جارہا ہے اُسے اُسی طرح ڈیل کرنا چاہیے۔ ٹی 20ولڈ کپ کے بعد ہمارے کھیلاڑی فارغ بیٹھے مکھیاں مار رہیں ظاہر ہے اگر انتظامی معاملات ٹھیک ہوں گے تو ہی کھیلاڑیوں کی طرف توجہ دی جائے گی۔


حال ہی میں نئے کوچ کے ساتھ ساتھ بہت سے نئے لوگوں کا تقرر کیا گیا ہے ، ان لوگوں میں بھی بے چینی پائی جا رہی ہے کہ اب اُن کا کیا بنے گا۔ کبھی سنتے تھے کہ کرکٹ شریف لوگوں کا کھیل ہے مگر اب تو کرکٹ میں وہی ہوتا ہے جو زیادہ بڑا غنڈہ ہو کھلاڑی ایک دوسرے سے دست و گریبان ہوتے نظر آتے ہیں ایک دوسرے پر الزامات کی بھرمار ہے۔ جس کا جو دل کرتا ہے کر رہا ہے۔

عالمی سطح پر ہماری کرکٹ اپنے آخری دموں پر ہے۔ پوری دُنیا پہلے ہی ہمارے خلاف ہے اُوپر سے ہماری اپنی حرکتیں بھی ٹھیک نہیں ،اگر ہمیں اپنے ملک میں کرکٹ بچانی ہیں تو ہمیں سخت فیصلے کرنا ہوں گے۔ ذاتی پسند کو پس پشت ڈال کر ملکی اور کرکٹ کے مفاد کو مدنظر رکھنا ہو گا۔ اسی میں ہماری کرکٹ کی بقا ہے ورنہ ایک دن آئے گا کہ ہماری ٹیم دوسرئے ممالک میں بھی جا کر نہیں کھیل پائے گی۔ اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے ہمیں عملی اقدامات آج سے ہی کر لینے چاہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :