انوکھے سیاستدان

جمعہ 23 مئی 2014

Hafiz Muhammad Faisal Khalid

حافظ محمد فیصل خالد

یوں تو پاکستان کو شروع دن سے ہی کئی گھمبیر مسائل کا سامنا رہا ہے مگر دورِ حاضر میں ان میں سے کئی مسائل شدت اختیار کر چکے ہیں۔ جن میں دہشت گردی ، بیروزگاری، بدامنی سرفہرست ہیں۔
پاکستان ان مسائل میں اُس وقت گھِرا جب جنرل مشرف نے امریکہ افغانستان کی جنگ کے طوق کو اپنے گلے ڈال لیا اور چند ڈالرز کے عوض ساری قوم کے مستقبل کو داؤ پر لگا دیا۔

امریکہ افغانستان میں اپنے مقاصد کے حصول میں کامیاب ہوا یا نہیں یہ ایک الگ بحث ہے مگر جاتے جاتے پاکستان کو ایسی دلدل میں دھکیل دیا جسے سے نکلنا آسان بات نہیں۔ اغیار کی اسی جنگ میں کئی پاکستانی لقمہٴ اجل بن گئے۔ انگنت قیمتی جانوں کا ضیاع ہوا۔ اندرونی اور بیرونی سطح پر پاکستان اور پاکستانیت کو بدنام کیا گیا۔

(جاری ہے)

ہر سطح پر پاکستان کے استحقاق کو مجروح کرنے کی مذموم کوششیں کی گئیں اور پاکستان کی تمام تر قربانیوں کو نظر انداز کر کرتے ہوئے عالمی سطح پر نہ صرف پاکستان کے امیج کو متاثر کیا گیا بلکہ ہر پاکستان مخالف قوت کو اپنے مقاصد کے حصول کے لئے ایک آسان راستہ فراہم کیا گیا۔

اور یہی وجہ ہے کہ آج وطن عزیز نہایت نازک دور سے گزر رہا ہے۔ اسی سلسلہ میں مشرف کے دورِ حکومت کے بعد آنے والی حکومتوں نے دہشت گردی اور بدامنی کی اس لعنت سے چھٹکارا حاصل کرنے کی کوششیں کیں مگر کچھ حاصل نہ ہوا۔ 2013کے الیکشن کے نتیجہ میں قائم ہونے والی حکومت نے بھی اسی سلسلہ میں کچھ اقدامات کئے اور ان اقدامات کو جاری رکھنے کے عزم کو دہرایا جو کہ ابھی تک جاری ہے اور قوم کا ہر ہر فرد ان اقدامات کی کامیابی کے لئے دُعا گو ہے۔

اسی دوران طاہر القادری صاحب کو بھی ملک کی سیاسی صورتحال پر ہوش آیا اور ملک کی موجودہ صورتحال کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنا نظامِ حکومت نافذ کرنے کے ارادے کا اظہار کیا۔ اس نظام کے تحت قادری صاحب ملک میں جنوبی کوریا ، چین، جاپان اور امریکہ وغیرہ کے نظام حکومت کو فالو کرتے ہوئے پینتیس صوبے بنانے کے خواہاں ہیں اور تمام ڈویژن کو صوبوں کا درجہ دے کر ایک نیا نظام حکومت متعارف کروانے جا رہے ہیں۔

قادری صاحب کے اس بیان کے بعد ایک بنیادی سوال اٹھتا ہے کہ قادری صاحب آپ ایک مذہبی جماعت سے تعلق رکھتے ہیں اور آپ کو اسلامی نظام حکومت کو رول ماڈل بنانا چاہئے نہ کہ غیر اسلامی طرزِ حکومت کو۔دوسری جانب اگر دیکھا جائے ایک طرف تو قادری صاحب استحکام پاکستان کے خواہاں ہیں جبکہ دوسری جانب مستحکم حکومت کے خلاف پراپیگنڈہ بھی کر رہے ہیں جس سے قادری صاحب کے قول وفعل میں تضاد واضح ہو چکا ہے آج سارا پاکستان قادری صاحب سے سوال گوہ ہے ۔

قادری صاحب یہ کیسی محبتِ وطن ہے کہ جو وطن سے باہر رہ کر جتلائی جا رہی ہے یہ بیچاری عوام کا خیال آپ کو اُس وقت کیوں نہیں آیا جب یہاں پر بمباری میں مدارس کی بچیاں درندوں کی طرح کاٹ پھینکی جا رہی تھیں؟
قادری صاحب اُس وقت آپ کی حب وطنی کہاں تھیں جب پاکستان کو اغیار کی جنگ میں دھکیل کر پاکستان کے عوام کے مستقبل کا سودا کیا جا رہا تھا؟ ان تمام تر معاملات میں آپ کی خاموش کسی غداری سے کم نہیں اور اب بڑھاپے میں آپ کو ملک و قوم کا خیال آگیا۔

یہ وہ بنیادی سوالات ہیں جن کا اصولی جواب نہ تو قادری صاحب خود دے سکے ہیں اور نہ ہی دے سکیں گے کیونکہ قادری صاحب کا ماضی اس بات کا شاہد ہے کہ انہوں نے ہمیشہ اللہ اور اُس کے رسولﷺ کو نہ صرف بیچا بلکہ اسی دین کی آڑ میں اپنے ذاتی مفادات کے حصول کو یقینی بنایا۔ اور یہی وجہ ہے کہ آج کا پڑھا لکھا انسان قادری صاحب کی انہیں معاملات کے پیشِ نظر اُن سے پوری طرح متنفر ہو چکا ہے اور اُن کی عوام میں پذیرائی میں ایک اہم رکاوٹ کی حیثیت بنے ہوئے ہیں۔

لہٰذا آپ مہربانی فرما کر اس قوم کر رحم کرتے ہوئے قومی معاملات میں اپنا غیر ذمہ دارانہ کردار ادا نہ کریں کیونکہ اس وقت یہ ملک و ملت اس وقت کسی قسم کی غداری کے متحمل نہیں ہو سکتے اور اگر پھر بھی ذہن سے فتور نہ نکلے تو براہ کرم پہلے اپنے جماعتی معاملات کو ٹھیک سے چلائیں اُس کے بعد قومی معاملات پر متوجہ ہوں کیونکہ اب شاید آپ عوام کی نظر میں مکمل طور پر عیاں ہو چکے ہیں اور آپ کا دوغلا کردار ہی عوام میں آپ کی پذیرائی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :