اسلام اور جمہوریت

بدھ 21 مئی 2014

Molana Shafi Chitrali

مولانا شفیع چترالی

ہفتے کے روز ایک مقامی ہوٹل میں ”پاک انسٹیٹیوٹ فار پیس اسٹیڈیز“کے زیراہتمام ”آئین پاکستان اور جمہوریت… علمائے کرام اور مذہبی اسکالرز کی نظر میں“ کے عنوان سے ایک مکالمے کا اہتمام کیا گیا، جس میں مختلف مکاتب فکر کے علماء، پروفیسر صاحبان اور اور دیگر ارباب دانش کو گفتگو کے لیے مدعو کیا گیا۔ اس مکالمے کی پہلی نشست ڈائریکٹر PIPS محمد عامر رانا کی میزبانی اور چیئرمین روٴیت ہلال کمیٹی پروفیسر مفتی منیب الرحمن کی صدارت میں ہوئی، جس میں اس طالب علم کو بھی چند معروضات پیش کرنے کا موقع دیا گیا۔

ان معروضات کا خلاصہ پیش خدمت ہے۔
سب سے پہلی بات یہ ہے کہ مختلف فکری وعلمی موضوعات پر فکری مکالموں اور مباحثوں کا انعقاد وقت کی ضرورت ہے۔

(جاری ہے)

ہمارے ہاں اس طرح کے مکالمے اور مباحثے عام طور پر مغربی تھنک ٹینکس یا ان کے زیراثر مقامی ادارے منعقد کرتے ہیں جن کا اپنا ایک مخصوص ایجنڈا اور مخصوص مقاصد ہوتے ہیں۔ ہمیں اور بالخصوص دینی حلقوں کو دورحاضر کے سلگتے ہوئے مسائل اور عالمی سطح پر زیربحث موضوعات پر مکالموں کا انعقاد کرنا چاہیے اور اس سلسلے میں کسی احساس کمتری کا شکار نہیں رہنا چاہیے، کیونکہ اسلام دلیل وبرہان کا دین ہے اور اس میدان میں کسی بھی فورم پر کسی سے بھی بات کرنے میں ہمیں کوئی جھجک نہیں ہونی چاہیے۔


مغربی ادارے تحقیق ومکالمہ کے نام پر مخصوص طرز فکر کی تبلیغ کرتے ہیں، مثلاً آج کا زیربحث موضوع ہی اگر لیا جائے تو مغربی تھنک ٹینکس جب ”اسلام اور جمہوریت “پر بات کرتے ہیں تو جمہوریت کو ایک”مسلمہ“ کا درجہ دے کر اسلام کو جمہوریت کی”عدالت“ میں پیش کرکے اس کا محاسبہ شروع کردیا جاتا ہے۔ گویا جمہوریت ایک ابدی صداقت اور اسلام اس کی راہ میں ایک دقیانوسی رکاوٹ ہے۔

حالانکہ اگر دیکھا جائے تو معاملہ اس کے برعکس ہے۔ اسلام ایک مکمل نظام حیات ہے جو ایمانیات سے لے کر اخلاقیات تک اور سیاسیاست سے لے کر سماجیات تک زندگی کے تمام پہلووٴں کا احاطہ کرتا ہے جبکہ جمہوریت کو ہم زیادہ سے زیادہ ایک نظام حکومت کہہ سکتے ہیں، جس کی واحد خوبی یہ ہے کہ اس میں پرامن انتقال اقتدار کا سامان موجود ہے۔ اسی وجہ سے اسے دنیا میں پسند کیا جاتا ہے، ورنہ حقیقت حال یہ ہے کہ ”جمہوریت“بذات خود کوئی دلیل نہیں ہے۔

مثلاً ایک بات ایک آدمی کررہا ہے اور ایک بات دو آدمی کررہے ہیں تو محض اس بناء پر کہ یہ دوسری بات دو آدمیوں نے کی ہے، اسے درست کہنا عقلی ومنطقی طور پر بھی درست نہیں ہے، بلکہ اگر پوری قوم کسی معاملے میں ایک طرف ہو اور صرف ایک شخص دوسری طرف ہو تو بھی اس بات کا احتمال موجود ہوتا ہے کہ اسی ایک شخص کی بات درست ہو۔ تاریخ میں اس کی بڑی مثال سقراط کی ملتی ہے، جس کو محض اس لیے زہر کا پیالہ پینا پڑا تھا کہ ”جمہور“ کے مقابلے میں اس کی صحیح رائے غلط قرار دی گئی تھی۔

پھر جمہوریت خیر وشر کے معیارات کا تعین نہیں کرسکتی۔ یہ امر تسلیم شدہ ہے کسی بھی چیز کے اچھے یا برے ہونے کا فیصلہ محض عوام کی عددی اکثریت کی بنیاد پر نہیں کیا جاسکتا۔
جہاں تک اسلام اور جمہوریت میں ربط ونسبت کا سوال ہے تو یہ بات پیش نظر رہنی چاہیے کہ آج کل جمہوریت کا اطلاق مغرب کے مخصوص نظریات پر مبنی ایک سیاسی نظام پر ہوتا ہے جس کی اساس سیکولرازم، آسمانی تعلیمات کی نفی، انسانی خواہشات کی تکمیل اور محض مادی زندگی کی آسایشوں کی فراہمی پر ہے۔

ظاہر ہے کہ یہ نظام اسلام سے براہ راست متصادم ہے اور اس نظام کی اسلام میں پیوند کاری نہیں ہوسکتی،لیکن جمہوریت کو اگر اس کے حقیقی لفظی مفہوم میں لیا جائے تو کچھ ایسی چیزیں ہیں جو اسلام اور جمہوریت میں مشترک ہوسکتی ہیں، مثلاً جمہوریت اگر اجتماعی معاملات کو اجتماعی دانش کے ذریعے حل کرنے کا نام ہے تو ہم مسلمانوں کے لیے یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔

قرآن مجید نے آج سے چودہ سو سال پہلے وأمرھم شوریٰ بینہم کہہ کر یہ طے کردیا تھا کہ مسلمانوں کے باہمی معاملات باہمی مشاورت اور اجتماعی دانش سے ہی طے ہوں گے، مگر ایک ہوتی ہے اجتماعی دانش اور ایک ہے اجتماعی خواہش۔ اسلام اجتماعی دانش سے فیصلے کرنے کی حمایت کرتا ہے، جبکہ اجتماعی خواہش کی پیروی کرنے کو قرآن مجید میں گمراہی کا باعث قرار دیا گیا ہے۔

جمہوریت اگر ویلفیئر اسٹیٹ کا تصور پیش کرتی ہے تو اسلام نے یہ بھی چودہ سال پہلے عملی طور پر قائم کرکے دکھایا ہے۔ جمہوریت اگر حریت فکر اور آزادیٴ اظہار کا نام ہے تو یہ بھی اسلام کے لیے کوئی نئی بات نہیں ہے۔ اسلامی تاریخ میں یہ حیرت انگیز مثال ملتی ہے کہ ایک صحابیہ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے شوہر کے ساتھ نباہ کرنے کا فرمایا تو اس نے سوال کیا: ”یا رسول اللہ! یہ آپ کا حکم ہے یا مشورہ؟ اگر حکم ہے تو سر آنکھوں پر لیکن اگر مشورہ ہے تو میں اس شخص کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی۔

“حریت فکر اور آزادیٴ اظہار کی اس سے بڑی مثال اور کیا ہوسکتی ہے۔ امیرالموٴمنین حضرت عمر کو ایک عام شہری کی جانب سے منبر پر ٹوکنے کا واقعہ تو بہت ہی مشہور ہے۔ اسی طرح اگر جمہوریت خواتین، اقلیتوں اور کمزور طبقات کے حقوق کی بات کرتی ہے تو ہمارے پاس خطبہٴ حجة الوداع کی صورت میں انسانی حقوق کا بین الاقوامی چارٹر بھی پہلے سے موجود ہے۔


اگر جمہوریت کے مقاصد یہ ہیں جو اوپر بیان ہوئے ہیں تو اسلام کا ان مقاصد سے کوئی اختلاف نہیں ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اسلامی دنیا میں مجموعی طور پر جمہوری نظام کو قبول کیا گیا ہے۔ برصغیر پاک وہند میں گزشتہ تقریباً سو سال سے تمام مکاتب فکر جمہوری مشق کا حصہ ہیں۔ 1915ء میں تحریک ریشمی رومال کی ناکامی کے بعد 1919ء میں جمعیت علمائے ہند وجود میں آگئی، تب سے ہندوستان کے حریت کیش علماء کا طبقہ بھی جمہوری سیاست کا حصہ چلا آرہا ہے، البتہ آج سو سال کا عرصہ گزر جانے کے بعد یہ سوال ضرور اٹھایا جارہا ہے کہ اس جمہوری نظام نے ہمیں دیا کیا ہے؟ مجھ سے قبل اپنی گفتگو میں محترم مفتی منیب الرحمن صاحب نے تفصیلی دلائل دیے کہ موجودہ جمہوری نظام کے ذریعے اسلام کا نفاذ ممکن نہیں ہے۔

مجھے مفتی صاحب سے بالکل اتفاق ہے۔ میرے ذہن میں ایک سوال ہے، ممکن ہے کوئی صاحب علم اس کا جواب دے۔ ہمارے ہاں حکومت کا سربراہ ”وزیراعظم“ کہلاتا ہے یعنی ”سب سے بڑا وزیر۔“ سوال یہ ہے کہ پھر یہاں بادشاہ کون ہے؟ ویسے تو ہم نے آئین کی کتاب میں لکھ رکھا ہے کہ یہاں حاکمیت اعلیٰ اللہ تعالیٰ کو حاصل ہوگی،مگر اس توجیہ پر دل اس لیے نہیں بیٹھتا کہ سابق برطانوی نوآبادیات کا حصہ رہنے والے تمام ممالک میں حکومت کے سربراہ کو”وزیراعظم“ ہی کہا جاتا ہے جبکہ بادشاہ کی کرسی خالی رکھی جاتی ہے جو درحقیقت ”ملکہ برطانیہ“ کے لیے علامتی طور پر مخصوص ہے۔

یہ دراصل برطانوی جمہوری نظام کا ڈھانچہ ہے جو ”دولت مشترکہ“ کے تحت سابق برطانوی نوآبادیات میں تاحال برقرار رکھا گیا ہے۔ آپ حضرات کو یاد ہوگا کہ 1998ء میں جب ملکہ برطانیہ پاکستان آئی تھیں تو ہماری پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں بھی جلوہ گر ہوئی تھیں اور ہماری پارلیمنٹ کے اسپیکر نے ان سے عقیدت کا اظہار کچھ اس طرح کے الفاظ میں کیا تھا کہ ہم پہلے بھی سلطنت برطانیہ کے ماتحت رہے ہیں اور آج بھی اس کے غلام ہیں۔


عرض کرنے کامقصد یہ ہے کہ آزادی کو 67 سال کا عرصہ گزر جانے کے بعد بھی ہم درحقیقت اسی نظام کے تابع ہیں جو انگریز آقا ہمیں دے گئے تھے۔ اب جس طرح برطانیہ کے مخصوص موسمی وزمینی حالات کے تحت ترتیب دیے گئے وہاں کے زرعی اصول ہمارے حال کے مختلف حالات کے موافق نہیں ہوسکتے، اسی طرح برطانوی معاشرے کے لیے بنایا گیا سیاسی نظام بھی یہاں نہیں چل سکتا۔

برطانیہ میں ہر فرد ایک اکائی کی حیثیت رکھتا ہے اور ہمارے یہاں جاگیرداروں، زمین داروں اور سرمایہ داروں کے ہوئے ”ایک فرد، ایک ووٹ“کا تصور ہی مفقود ہے، لہٰذا میری طالب علمانہ رائے میں برطانوی طرز کا موجودہ جمہوری نظام نہ صرف پاکستان میں اسلام کی راہ میں رکاوٹ ہے، بلکہ اس نظام نے پاکستان کے غریب عوام کا استحصال ہی کیاہے۔ اسلام کا سیاسی نظام خلافت کہلاتا ہے، جو جغرافیائی پابندیوں سے ماورا ہے لیکن چونکہ آج دنیا میں جغرافیائی، نسلی اور قومی بنیادوں پر باقاعدہ ممالک وجود میں آچکے ہیں جن کی سرحدیں بین الاقوامی سطح پر تسلیم کی جاتی ہیں، اس لیے یہ سوال فطری طور پر اٹھتا ہے کہ پھر اسلامی ممالک میں کون سا سیاسی نظام بہتر ہوسکتا ہے۔

میری طالب علمانہ رائے میں موجودہ عالمی تناظر میں اسلامی ممالک کے لیے صدارتی نظام برطانوی پارلیمانی نظام کے مقابلے میں کئی اعتبارات سے بہتر ثابت ہوسکتا ہے بشرطیکہ اس میں کچھ حدود و قیود کا لحاظ رکھا جائے( اپنے اختتامی خطاب میں بحث کو سمیٹتے ہوئے مفتی منیب الرحمن صاحب نے راقم کی اس رائے سے اتفاق کا اظہار کیا۔)
اسلام اور جمہوریت کی بحث میں ایک نکتہ اور قابل غور ہے۔

آج مغربی میڈیا یہ تاثر دے رہا ہے کہ اسلامی معاشرہ جمہوری کلچر کو قبول نہیں کرتا۔ گویا اسلام کو جمہوریت سے کوئی مسئلہ ہے، جبکہ صورت حال یہ ہے کہ بہت سے اسلامی ممالک میں کسی نہ کسی صورت میں جمہوری مشق ایک عرصے سے جاری ہے، اسلامی جماعتیں جمہوری عمل میں حصہ لیتی ہیں، مگر دیکھنے میں یہ آرہا ہے کہ جہاں اسلامی جماعتیں جمہوریت کے لیے اقتدار میں آجاتی ہیں تو انہیں قبول نہیں کیا جاتا۔

الجزائر، تیونس،مصر، غزہ اور ترکی کی مثالیں سب کے سامنے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اسلام کو تو جمہوریت سے کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے، البتہ جمہوریت کو اسلام سے کوئی مسئلہ ضرورہے۔ اب ظاہر ہے کہ یہ اسلام اور اہل اسلام کا مسئلہ نہیں جمہوریت اور اس کے علم برداروں کا مسئلہ ہے، انہیں اپنا یہ مسئلہ خود حل کرنا چاہیے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :