انڈین الیکشن اور میڈیائی فرشتے

بدھ 21 مئی 2014

Hussain Jan

حُسین جان

آج کل ہمارے ملک کا ایک میڈیا گروپ پاک فوج کے افسران کو فرشتے کہ کر تنقید کا نشانہ بنا رہا ہے فوج کے لیے فرشتے کی تنقیدی اختراع مناسب نہیں ایک ایسے ادارے کو بدنام کرنا جس کی بدولت ملک و قوم کی بقا ہو اور پوری دُنیابھی جسے طاقت کا ممبومانتی ہو۔ یہ کیسے لوگ ہے جو ڈھٹائی پر اُتر آئے ہیں اپنی غلطی کو سدھارنے کی بجائے تنقید کے نئے نئے راستے نکال رہے ہیں ،کچھ نام نہاد دانشور خود کو ارسطو ثابت کرنے کے لیے نئی نئی حجتیں دریافت کرنے میں لگے ہوئے ہیں ملک میں انتشار پھیلا کر پتا نہیں یہ کس کا بھلا کرنے جا رہے ہیں۔

کسی کی انفرادی غلطی کو ادارتی غلطی نہیں مانا جاتا ۔ ایک صاحب جو ساری زندگی خود کو اینٹی فحاشی کے چیمپین مانتے ہیں اور غالباً عدالت میں فحاشی کے خلاف ایک عدد درخواست بھی دے رکھی ہے مگر خود اُسی گروپ سے وابستہ ہیں جو ملک میں سب سے زیادہ فحاشی پھیلانے کا موجب ہے،یہ کھلا تضاد نہیں۔

(جاری ہے)


انڈیا کے عام انتخابات کے نتائج امن کی آشا کے منہ پر طمانچہ ہے ۔

ہم بچپن سے سنتے چلے آرہے ہیں کہ امن کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ انڈیا کی حکومتیں ہیں جبکہ عوام امن اور پاکستان سے دوستی چاہتے ہیں ،اگر انڈین عوام امن ہی چاہتے تو مسلمانوں کے قاتل کوووٹ کیوں دیتے ، پاکستان میں اگر کوئی مذہبی جمات سیاست کرئے تو پورا ملک ہاتھ دھو کر اُس کے پیچھے پرجاتا ہے مگر انڈیا میں قوم پرست اور مذہبی انتہاپسند سیاسی جماعت مختلف ناموں سے کام کرتی رہی اور آخر ایک دفعہ بھر اقتدار حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی،لیکن کسی لبرل نے چوں تک نہ کی۔

آج کسی لبرل دوست کا فیس بک پر پوسٹ تھا کہ اب انڈیا میں بھی اقلیتوں کے ساتھ وہی کچھ ہو گا جو پاکستان میں ہوتا ہے ۔ اقلیتوں پر حملہ کرنے والے پاکستان نہیں بلکہ خارجی طالبان ہیں ۔ دوسرا پاکستان میں کبھی کبھار کوئی واقع ہو بھی جاتا ہے لیکن بہت کم ۔ اپنے ہی ملک کے خلاف پروپگنڈہ کرنے والے یہ لعنتی لوگ کس کے ایجنڈے پر عمل کر رہے ہیں اس کی بھی تحقیقات ہونی چاہیے۔


ہمارے اکثر میڈیائی فرشتے خود کو پاکستان کے مسائل کا حل سمجھتے ہیں اور اُس کی اکثر مثالیں بھی دیتے رہتے ہیں۔ ایک کالم نگار صاحب جو اکثر اپنے کالموں میں اپنے کسی غیرملکی بھائی کی فون کال کا ذکر کرنا نہیں بھولتے کیونکہ اُن کے یہ بھائی صاحب پوری دُنیا کو چھوڑ کر صرف انہی سے پاکستان کے مسائل کا حل پوچھتے ہیں،کہ بھائی پاکستان کے حالات کب ٹھیک ہوں گے پاکستان کب ترقی کرئے گا۔

یہی وہ لوگ ہیں جو عالمی سطح پر پاکستا ن کی بدنامی کا باعث بنے ہوئے ہیں جو انڈیا میں ہوئی کسی جنسی زیادتی کا زکر نہیں کرتے پر پاکستان میں کسی انفرادی انسان کی کی ہوئی غلطی کو بھی پوری قوم کے سر تھوپ دیتے ہیں۔
نریندر مودی کی جیت کو انڈیا کی جیت کہا جا رہا ہے لیکن اس کے مختلف پہلووں پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر نریندر مودی نے پاکستان کے ساتھ تعلقات کو بگاڑنے کی کوشش کی تو خطے میں امن و امان کی صورتحال نہایت خراب ہو جائے گی۔

ہمارے پی ایم صاحب نے مودی کو مبارک باد دی لیکن اُس نے پاکستان کے ساتھ اچھے تعلقات کی طرف کوئی اشارہ نہیں دیا۔ ایک قصہ یاد آرہا ہے کہ ایک صاحب نے اپنے کسی دوست کو کہا کے تم چور ہو ،دوست نے آگے سے یہ کہنے کی بجائے کہ میں چور نہیں اُلٹا کہا کہ تم مجھ سے بھی بڑئے چور ہو یعنی چور دونوں ہی ہیں ایک چھوٹا اور ایک بڑا۔ اسی طرح ہمارے میڈیائی فرشتے اکثر کہتے پائے جاتے ہیں کہ پاکستان میں اقلیتوں کے ساتھ ناروا سلوک کیا جاتا ہے اور انہیں تیسری قسم کے لوگوں میں شامل کیا جاتا ہے۔

اس میں کوئی سچائی نہیں میں سمجھتا ہو اگر پوری دُنیا میں کہیں اقلیت محفوظ ہے تو وہ پاکستان میں۔ ہاں کچھ شرپسند عناصر کبھی کبھی لوگوں کی مصومیت سے فائدہ اُٹھا لیتے ہیں۔ لیکن حکومت کی طرف سے فوری ردعمل کا اظہار بھی کیا جاتا ہے، ہم مسلمان ہونے کی حثیت سے اپنے اقلیتی بھائیوں کا تحفظ اپنا فرض سمجھتے ہیں۔
انڈیا کی تاریخ میں پہلی دفعہ مسلمانوں کے نہایت کم سیٹیں ملی ہیں اور یہ باقاعدہ پلانینگ کہ تحت کیا گیا ہے کہ مسلمانوں کو سیاسی عمل سے دور رکھا جائے تاکہ خود پر ہونے وٴالے مظالم پر عالمی سطح پر احتجاج نا کرسکیں۔

انڈیا میں ایک پاکستانی طالب علم پر تشدد پر کوئی کاروائی نہیں کی گی۔ کشمیر ی عوام پر روز ظلم کی داستیں رقم کی جاتی ہیں جو ہمارے میڈیائی سکالر و لبرل دانشوروں کو نظر نہیں آتی،اپنے آفس میں بیٹھ کرپسندیدہ جنگجو کا زکر کرنا اور یہ کہنا کے میں بار بار اس فلم کو دیکھتا ہوں کیونکہکا سکرپٹ بہت اچھا تھا۔ تو بھائی آپ اپنا سکرپٹ بھی اچھا کرو،اُن لوگوں نے تو اپنی قوم کے لیے سب کچھ کیا آپ لوگ تو اپنے دشمن کو عالمی سطح پر مظلوم ثابت کرنے میں لگے رہتے ہو۔

اپنی فوج کو بدنام کرتے ہوئے بڑا فخرمحسوس کرتے ہوآپ لوگ یہ کیوں بھول جاتے ہو کہ اگر پاکستان نا رہا تو کروڑوں لوگوں کا کیا بنے گا کیا ایک دفعہ پھر غلامی کی زندگی ہماری قوم کامقدربنے گی۔
انڈیا کے سیاست دانوں نے حالیہ انتخابات میں جس طرح پاکستان اور مسلم مخالف تقاریر کی ہیں وہ ریکارڈ پر موجود ہیں اور مزے کی بات کے عوام نے ووٹ بھی نفرت پھیلانے والوں کو دیے۔

مودی جسے امریکہ جیسے ملک نے ویزہ دینے سے انکار کر دیا تھاجو پوری دُنیا میں مسلمانوں کے قاتل کے نام سے مشہور ہے کیا اُس سے کسی اچھے کام کی اُمید کی جا سکتی ہے۔ سب لوگ جانتے ہیں کہ وہ ایک چائے والے کا بیٹا تھا۔ لیکن کبھی کسی نے یہ جاننے کی کوشش کی کے چائے والے کا بیٹا اور کم پڑھا لکھا انسان اتنا امیر کیسے ہو گیا۔ غریب کا بیٹاجمہوریت میں وزیر آعظم تو بن سکتا ہے مگر اتنا امیر بننا سمجھ سے بالا ترہے۔

اپنی انتخابی مہم کے لیے ہیلی کاپٹروں کا استعمال کرنا کہاں کی چائے گری ہے بئی۔ ہم دوستی کے قائل ہیں ہم بھی دوستی کرنا چاہتے ہیں مگر یہ کیا ہر دفعہ اُن کی طرف سے انکار کر دیا جائے انڈیا میں کوئی کتے کو بھی مار دے تو الزام وہ پاکستان پر لگا دیتے ہیں۔ کبھی پاکستان کو دہشت گردوں کی جنت کہا جاتا ہے یہ کیسی دوستی ہے کیا عالمی سیاست ایسی ہوتی ہے کہ آپ اپنے پڑوسی ملک پر اتنے گٹھیا الزامات لگائیں۔

اگر خطے میں امن و مان قائم رکھنا ہے تو مودی سرکار کو دوستی کا ہاتھ بڑھانا ہوگا۔ پاکستان کے ساتھ تمام ایشوز بشمول کشمیر حل کرنا ہوں گے۔ اسی سے ترقی مشروط ہے اور اسی سے عالمی سطح پر بقا ہے۔ اگر ملکوں کو جنگوں میں دھکیلا گیا تو کسی کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا، کروڑوں لوگ اپنی جان و مال سے جائیں گے۔
ہمارے حکمرانوں کو بھی چاہیے کہ وہ ابھی صرف مودی کے اقدامات پر نظر رکھیں کے وہ مستقبل کے لیے کیا فیصلے کرتا ہے ، جلد بازی میں اُتھایا ہوا کوئی بھی قدم ملک و قوم کے لیے رسوائی کا موجب بن سکتا ہے۔

دوستی ضرور ہونی چاہیے مگر برابری کی سطح پرتاکہ دونوں ملکوں کے عوام اپنی زندگیاں امن سے گزار سکیں، کیونکہ پہلے ہی مسائل نے غریب عوام کو اپنے سکنجے میں جکڑ رکھا ہے۔ جو بھی کام کیا جائے ملکی مفاد میں کیا جائے اور صرف کہنے کی حد تک نہ ہو بلکہ عملی طور پر بھی ملکی مفاد ہی مدنظر ہو۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :