اپنی عزت اور گھر بچائیں!

بدھ 21 مئی 2014

Muhammad Irfan Nadeem

محمد عرفان ندیم

اس ڈرامائی کہانی کے چا ر فیز ہیں اور ہر فیز پہلے سے ذیادہ خوفناک اور لرزہ خیزہے ۔
وہ تینوں دوست تھے اور دوستی کی بنیاد نصیر تھا ۔نصیر شہر کے مرکزی بازار میں لیس کا کا م کرتا تھا اور اس نے ”لیس سنٹر“کے نام سے ایک چھوٹی سی دکان بنا ئی ہو ئی تھی ۔ایک دن ایک لڑکی اس کی دکان پر لیس لینے آئی ،لڑکی اکیلی تھی ،نصیر نے اسے لیس دکھانی شروع کی ،لڑکی نے ”یہ نہیں وہ دکھا وٴاوریہ ساتھ والا کلر “کہہ کر کا فی وقت لگا دیا ۔

نصیر نے بھی روایتی دکانداری شرع کی اور بڑی عزت و احترام کے ساتھ ”باجی یہ کلر ذیادہ اچھا ہے اور باجی اس کپڑے کے ساتھ یہ کلر ذیادہ میچ کرے گا “ان روایتی جملوں کے ساتھ اس کا استقبال کیا ۔دکان میں کو ئی تیسرا گاہک نہیں تھا چناچہ بات آگے بڑھتی رہی ،باتوں باتوں میں دونوں نے ایک دوسرے کا نام ،ایڈریس پوچھا ،موبائل نمبر کا تبادلہ ہوا اور لڑکی نے بل کی ادائیگی کے لیئے پیسے سامنے رکھ دیئے ۔

(جاری ہے)

نصیر نے شیطانی مسکراہٹ چہرے پہ سجائی ”اب میں آپ سے بل لیتا ہوا اچھا لگتا ہوں “دونوں طرف سے مسکراہٹوں کا تبادلہ ہو ااور لڑکی دکان سے رخصت ہو گئی ۔یہ کہانی کا پہلا فیز تھا ۔
کہانی کا دوسرا فیز پہلے سے ذیادہ دلچسپ ہے ۔نصیر نے ایک ہفتے تک انتظار کیا لیکن لڑکی کی طرف سے کو ئی کال یا میسج موصول نہ ہوا ،ایک ہفتے بعد اس نے موبائل پکڑا ،لڑکی کا نمبر ڈائل کیا اور او کے کا بٹن دبا دیا ۔

لڑکی گھر والوں کے ساتھ بیٹھی تھی اس نے نصیر کا نمبر دیکھا تو مو بائل آف کر دیا ۔لڑکی کا تعلق شریف گھرانے سے تھا اور انہیں پو رے محلے میں عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا ۔تقریبا رات بارہ بجے نصیر نے پھر کال کی لڑکی کے گھر والے سونے کے لیئے اپنے کمروں میں جا چکے تھے ،اس نے کال رسیو کی ،ہیلو ہائے کے بعد کا ل کرنے کی وجہ پوچھی اور ”تھینک یو بھائی “کہہ کر فون بند کر دیا ۔

اب دونوں” بہن بھائیوں “کی روزانہ فون پر بات ہو نے لگی ،آج آپ نے کون ساڈریس پہنا ہے ،آج آپ نے کیا کھایا اور آج آپ نے کون سی مو وی دیکھی “ یہ وہ جملے تھے جو روزانہ فون پر دہرائے جاتے ،اگر لڑکی کبھی گھبرا جاتی تو نصیر اسے تسلی دیتا ”دیکھو جب ہمارا بہن بھائی کا رشتہ ہے تو پھر بات کرنے میں کیا حرج ہے “اور لڑکی بڑی معصومیت سے اس پر اعتبار کر لیتی ۔

ایک دن نصیر نے اس سے عجیب سوال کر ڈالا ”آپ فیس بک یو ز کر تی ہیں “لڑکی کا جواب ہاں میں تھا ۔گھر والوں کے سامنے فون پر بات کرنا مشکل تھا لہٰذا فیس بک نے اس مسئلے کو حل کر دیا تھا ،اب امتحانات کی تیاری کے نام پر روزانہ فیس بک پر چیٹ ہو تی ۔نصیر نے جب دیکھا کہ شکار جا ل میں پھنس چکا ہے اور اب صرف رسی کھینچنے کی ضرورت ہے تو ایک دن اس نے لڑکی سے عجیب فرمائش کر ڈالی ”فیس بک پر اپنی کو ئی تصویر ہی سینڈ کر دو “لڑکی کسی قدر پریشان ہو ئی لیکن نصیر نے یہ کہہ کر ”آپ اپنے بھائی پر یقین نہیں کرو گی “اسے مطمئن کر دیا ۔

انعم سلیم کی تصویر نصیر کے پاس پہنچ چکی تھی اور شکار شکاری کے شکنجے میں پھنس چکا تھا ۔اس کے بعد کہانی اپنے تیسرے فیز میں داخل ہو تی ہے ۔
نصیر اپنی دکان پر بیٹھا تھا ،ایک دن اس کے دوست حسین اور فیضان جو بازار سے جوتا خریدنے آئی تھے اس کی دکان پر آ پہنچے ،تینوں دوست خوش گپیوں میں مشغول تھے اتنے میں ایک نو جوان خاتون دکا ن میں داخل ہو ئی ،نصیر نے اسے لیس دکھا ئی ،خاتون نے اسے پیسے دیئے اور لیس لے کر چلی گئی ،جیسے ہی خاتون دکا ن سے باہر نکلی فیضان نے تبصرہ کیا ”کیا حسن تھا یار “حسین نے معنیٰ خیز مسکراہٹ چہرے پہ سجائی اور نصیر کی طرف دیکھ کر بولا”یار ابھی تک تم نے کو ئی شکار نہیں پھنسایا “نصیر نے ہاں میں گردن ہلا ئی اور انعم سے اپنی دوستی ،گپ شپ اور اپنے موبائل سے اس کی تصویر تک دکھا دی ،بات آگے بڑھی حسین اور فیضان نے انعم سے ملنے کا مطالبہ کر دیا ۔

نصیر نے انعم کو فون کیا اور اور اسے صرف پانچ منٹ کے لیئے ملنے پر راضی کر لیا ۔اگلے دن نصیر اپنے دوستوں کے ساتھ انعم کے کالج کے باہر پہنچ گیا ،انعم کالج آئی ،نصیر آگے بڑھ گیا ،حسین اور فیضان دور کھڑے دونو ں کی وڈیو بنانے لگے ،انعم کو شک ہوا لیکن نصیر نے اسے مطمئن کر دیا ۔ملا قات ختم ہو ئی ،انعم کالج چلی گئی ،نصیر واپس دوستوں کے پاس آیا ،تینوں دوستوں نے اپنی کامیابی پر ایک دوسرے کے ہاتھ پر ہاتھ مارا اورخوشی سے اچھلتے کو دتے ہو ئے واپس آ گئے ۔

اگلے دن فیضان نے انعم کو فون کیا ”کل ہم نے تمہاری وڈیو بنا لی تھی اگر چاہتی ہو کہ یہ وڈیو عام نہ ہو تو کل فلا ں جگہ ہمیں ملنے کے لیئے آ جاوٴ “یہ بلیک میلنگ کا پہلا مرحلہ تھا ۔اس بلیک میلنگ کے بعد انعم کے پاس صرف دو آپشن تھے ایک ،وہ اپنی عزت کا سوداکرنے کی بجائے زہر کھا کر موت کو گلے لگا لے لیکن شاید یہ اتنا آسان نہیں تھا، دو ،وہ ان شیطانوں سے ملنے کے لیئے چلی جا ئے اور وہاں جا کر ان کے پاوٴں میں گر جائے کہ خدا کے لیئے میری عزت کو یوں سر بازار نیلام نہ کرو ،چناچہ اس نے دوسرے آپشن کے لیئے خود کو تیار کر لیا ۔

اس کا خیال تھا کہ وہ ان شیطانوں سے اپنی عزت کی بھیک مانگنے میں کامیاب ہو جا ئے گی ۔اگلے دن وہ مطلوبہ جگہ پر پہنچ گئی ،تینوں شیطان گاڑی میں آئے ،اسے راستے سے ”پک “ کیا اور انجانی منزل کی جا نب روانہ ہو گئے ۔اب اس کے بعد وہ سب کچھ ہوا جس کو سوچتے ہوئے ہمارے دماغ کی شریانیں پھٹ جاتی ہیں ۔اب اس کے بعد بلیک میلنگ کا جو سلسلہ شروع ہوا اس سے انعم کو اندازہ ہو گیا تھا کہ اب اسے اپنے گناہ کو چھپانے کے لیئے اس شیطانی گرو ہ کا حصہ بننا پڑا گا اور اب مجھے اسی ذلت و رسوائی کی دلدل میں زندگی گزارنی پڑتے گی۔

اب انعم اپنے ”بھائی “نصیر کے پھیلا ئے ہو ئے جال کی وجہ سے اس شیطانی گروہ کا حصہ بن چکی تھی اور اب اس کے یہ تینوں دوست روزانہ اسے کالج چھوڑنے اور لینے جا تے تھے ۔یہ کہانی کا تیسرا فیز تھا ۔اب ہم کہانی کے چوتھے اور آخری فیز کی طرف آتے ہیں ۔
ایک دن جب وہ تینوں دوست انعم کو لینے کے لیئے کالج گئے تو انعم اپنی سہیلی کے ساتھ گاڑی تک آئی ،حسین نے سہیلی کے ساتھ ”فری “ ہو نے کی کوشش کی سہیلی نے اسے منہ پر سنا دیں ۔

حسین کو غصہ آ گیا اور اس نے فیصلہ کر لیا کہ ایک نہ ایک دن وہ اس لڑکی کو بھی اپنے گروہ میں شامل کر ے گا۔نصیر اور فیضان نے اس کی ہاں میں ہاں ملا دی اور اس کے بعد منصوبے کی پلا ننگ شروع ہو ئی ۔دو دن بعد سیکنڈ ایئر کا آخری پیپر تھا ،انعم اپنی اسی سہیلی کے ساتھ پیپر دے کر باہر نکلی تو اس نے سہیلی کو آفر کی ”میرا منگیتر مجھے لینے کے لیئے آ رہا ہے ،اگر تم چاہو تو ساتھ چلو ہم تمہیں تمارے گھر ڈراپ کر دیں گے “سہیلی نے بڑی معصومیت سے ہاں کر دی ۔

گا ڑی آئی فیضان ڈرائیونگ کر رہا تھا نصیر اس کے ساتھ بیٹھا تھا ،حسین ،انعم اور اس کی سہیلی پیچھے بیٹھ گئے ،گاڑی چلی اور ایک انجانی منزل کی جا نب روانہ ہو گئی ۔پھر اس کے بعد گاڑی میں انعم کی سہیلی کے ساتھ وہ سب کچھ ہوا جو آپ نے اخبارات میں پڑھا اور ٹی وی کی اسکرینوں پر دیکھا ۔اس ساری کہانی میں کس نے کیا کردار ادا کیا ،ایک شریف گھرانے کی لڑکی کس طرح بلیک میل ہو ئی اور اس نے کس طرح اپنی سہیلی کو اس جا ل میں پھنسایایہ سوچنا آپ کا کام ہے ۔ اور اس کہانی کو پڑھنے کے بعدبھی اگر ہم سوشل میڈیا اور موبائل فون کے بے جا استعمال کے حق میں ہیں تو پھر یا د رکھیں برا وقت کسی کو بتا کر نہیں آ تا ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :