میڈیا!!پاکستان پر رحم کرو

پیر 19 مئی 2014

Khalid Irshad Soofi

خالد ارشاد صوفی

یہ سطور لکھتے ہوئے گہرے دکھ اور رنج نے مجھے اپنے حصار میں لے رکھا ہے۔ پاکستانی انٹرٹینمنٹ میڈیا گزشتہ بارہ سال سے ہم پاکستانیوں کے جذبات کو مجروح کرنے ، معاشرتی اقدار کو پامال کرنے، خرافات کو ثقافت کے طور پر پیش کرنے اور فحاشی و عریانی کو پھیلا کر اپنی ریٹنگ (مقبولیت) میں اضافہ کرنے کا جو مکروہ کردار ادا کر رہا ہے ،ہم پاکستانیوں کے آج اورآنے والے کل کو بھی تباہ کر دے گا۔

قیام پاکستان کو چھ دہائیاں گزرنے کے باوجود بدنصیبی سے ہم ایک ہجوم ہیں اور ہمیں قوم بننے میں شائد مزید صدیاں لگ جائیں گی۔ مجھے تو کبھی کبھی یوں محسوس ہوتا ہے کہ آج کی دنیا کے معاشرے تہذیب و تمدن ، اقدار، روایات ، بصیرت اور علم و فن کی جس سطح پر کھڑے ہیں ممکن ہے ہم قیامت تک اس سطح تک نہ پہنچ پائیں کہ بہتری کی امید اور توقع وہاں کی جاتی ہے جہاں اصلاح احوال کا اآغاز کر دیا گیا ہو۔

(جاری ہے)

خود کو روشن خیال ثابت کرنے والے آمر نے بھانت بھانت کے کاروبار سے وابستہ سرمایہ داروں کو معاشرے پر گہرے اثرات مرتب کرنے کی صلاحیت رکھنے والے الیکٹرانک میڈیا (ٹی وی چینلز) کے لائسنس بغیر کسی اہلیت، معیار اور ضابطے کے تھما دیے جس کے نتیجے میں بداخلاقی بلکہ بے غیرتی پر مبنی مواد ٹیلی ڈراموں اور پروگراموں کا موضوع بنناشروع ہو گیا۔

اپنے پیٹ کا جہنم بھرنے کی فکر میں غرق میڈیا مالکان نے دانستہ انسانی جبلت کے کمزور پہلوؤں جنس اور جرائم کی تسکین کا سامان فراہم کرنا شروع کیا ۔ اب صورتحال یوں ہے کہ کسی پاکستانی چینل پر چلنے والے ڈراموں کو آپ فیملی کے ساتھ بیٹھ کر نہیں دیکھ سکتے۔ انٹرٹینمنٹ میڈیا کی ہوس زرنے کمرشل فکشن کے سارے چلنے والے ڈائجسٹوں کی خواتین لکھاریوں کو راتوں رات ٹی وی ڈراما نگار بنا دیاہے ۔

ادب، تاریخ، تہذیب اور مذہب کی بنیادی تعلیم سے عاری ان خواتین نے اس اس موضوع پرایسے ایسے ڈرامے تحریر کیے یا ان سے تحریر کروائے گئے ہیں کہ ان کے موضوعات کے نام بھی ان سطور میں نہیں لکھے جا سکتے۔ ایک دور تھا کہ پاکستانی ٹیلی وژن پر محبت، ایثار، دوستی، جدو جہد اور رقابت جیسے موضوعات پر ڈرامے پیش کیے جاتے تھے جنہیں لکھنے والے پاکستان کے وہ ممتاز قلمکار تھے جو انسانی جبلت کی کمزوریوں اور معاشرتی اقدار کے استحکام کی اہمیت کا گہرا ادراک رکھتے تھے اور جن کی تحریروں کا مقصد لوگوں کو مفید اور معیاری تفریح کے ساتھ ایک بامقصد طرز زندگی اپنانے کی ترغیب دینا تھا۔

اس دور کے ڈرامے اچھائی اور برائی کی تمیز سکھاتے تھے اور زندگی کے سچے اور خوبصورت رنگوں کی عکاسی کرتے تھے۔ لیکن اب ان نجی ٹی وی چینلز پر پیش کیے جانے والے گلیمر اور جنسی جذبات کو ابھارنے کے لوازمات سے بھرپور ان ڈراموں کا موضوع ناجائز تعلقات اورناجائز اولاد ہیں۔
کاروباری رقابت اور معاشی ترقی کی ناجائز دوڑ کے شکار انٹرٹینمنٹ میڈیا نے پاکستانی ناظرین اور معاشرے کے ساتھ اپنے ظلم کو یہاں تک محدود نہیں رکھا بلکہ غیراخلاقی اور پاکستانی معاشرے کے لیے زہر قاتل مواد پر مبنی بھارتی اور ترکی ڈرامے پیش کیے جا رہے ہیں جو ہماری نئی نسل کوان ” اقدار“ سے روشناس کروا رہے ہیں جو ہمارے معاشرے کو تباہ و برباد کر رہی ہیں۔


اس کاروباری سبقت اور پیسے کی ہوس نے نصف صدی کی صحافتی تاریخ کے حامل ادارے کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے ۔ جیو ٹی وی کو اس نوعیت کے پروگراموں اور ڈراموں کو پیش کرنے میں “پہلے قدم اٹھانے کا” اعزاز حاصل ہے۔ جب ایک صحافتی ادارے کے ٹی وی چینل سے اس طرح کا مواد اور پروگرام نشر کئے جانے لگے تو پھر خالصتاً کاروباری نیت سے قائم ہونے والے ٹی وی چینل کیسے پیچھے رہ سکتے تھے۔


مارننگ شوز میں عجیب و غریب اور حد درجے کی بیہودگی پر مبنی پروگراموں کا آغاز شائستہ واحدی نے کیا اور ان کے مقابلے پر ایک سے بڑھ کر ایک “فنکارہ” نے اپنی مارننگ شوز میں وہ جوہر دکھائے کہ حساس پاکستانیوں کی روح گھائل ہو گئی۔ جیو کے مارننگ شو میں مقبولیت کی حریص اینکر شائستہ واحدی نے ایک بدنام زمانہ اداکارہ وینا ملک جو بھارت میں نہایت متنازعہ عریاں فوٹو شوٹ جس میں موصوفہ نے اپنے بازو پر پاکستان کے حساس ادارے کا نام تحریر کروایا اور ہاتھ میں ایک گرنیڈ (بم) اور برائے نام نیکر پہن رکھی تھی،کو اپنے پروگرام میں مدعو کیا۔

اس فوٹو شوٹ سے بھارت میں ہماری جو قومی توہین ہوئی اس کا ازالہ صدیوں میں بھی نہیں ہو سکے گا ۔ اس گھناؤنی حرکت کے علاوہ بھارت میں بیسیوں گل کھلانے کے بعد موصوفہ پاکستان میں اب خود کو ایک ”نیک اور پاکباز“ خاتون کے طور پر پیش کرنے کے لیے سرگرداں ہے ۔ کبھی مولانا طارق جمیل کے دست ہدایت پر بیعت کر رہی ہے اور کبھی عبدالستار ایدھی کی عیادت کو محض شہرت حاصل کرنے کے لیے کر رہی ہے ۔

اس ”باکمال اداکارہ“ کے اس ایجنڈے کو پروان چڑھانے کے لیے جیو ٹی وی کے پروگرام میں جو کچھ کیاگیا اس پر ہر پاکستانی کا دل زخمی ہوا ہے اور معاشرے میں غم کی لہر دوڑ گئی ،لیکن وہ جنہیں الله نے اس مملکت خداداد کے اعلیٰ مناصب پر فائزکیا ہے اتنے بڑے واقعے کے بعد بھی مجرمانہ غفلت کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ الله سے دعا ہے کہ حکمرانوں کو اس ملک اساسی نظریات ، معاشرتی اقدار اور اخلاقیات کو تباہی سے محفوظ رکھنے کے لئے شتر بے مہار میڈیا کو قواعد و ضوابط کی لگام ڈالنے کی توفیق دے۔


آئیے مل کر یہ دعا بھی کریں کہ اس ملک کے عام شہریوں کے معصوم ذہنوں کو غلط نظریات ، خرافات، بے راہ روی اور جذباتی مغالطوں میں مبتلا کر دینے والے خودساختہ دانشوروں، حادثاتی صحافیوں ، ہوسِ شہرت سے لبریز خاتون اینکروں اور اداکاروں سے محفوظ رکھے،آمین!
آخر میں پاکستانی میڈیا سے دست بدست درخواست ہے کہ پاکستان پر رحم کرو۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :