جس کو اپناؤ اس سے نبھاؤ

پیر 19 مئی 2014

Zahid Raza Khan

زاہد رضا خان

جانوروں میں سے کتے کی یہ خاصیت ہوتی ہے کہ وہ اپنے مالک کا وفا دار ہوتا ہے۔جہاں جہاں اس کا مالک جاتا ہے وہ اس کے پیچھے پیچھے بھاگتا جاتا ہے ۔وہ اپنے آقا کو ایسا پہچانتا ہے کہ اس کا ساتھ نہیں چھوڑتا۔اس کا مالک اسے مارے پیٹے اس کو کھانے کو صحیح طرح نہ دے لیکن وہ اپنے مالک کا وفا دار رہتا ہے۔اس کو اپنے مالک سے کیا لالچ ہوتی ہے ۔وہ کسی دوسرے سے بھی تو دوستی کر سکتا ہے۔

وہ بھی اس کو دو وقت کی روٹی دے دیا کرے گا۔مگر جس کی اس نے غلامی کی اس کا ساتھ پورا پورا دیا۔کوئی نیا شخص اس کے گھر میں گھر کے مالک کی اجازت کے بغیر نہیں داخل ہو سکتا۔رات کو تو خاص طور پر یہ جانور اپنے آقا کے گھر کی حفاظت کرتا ہے۔کتوں میں لوٹا بننے کی خصلت نہیں ہوتی ۔وہ جس کو اپناتے ہیں اس سے بھر پور نبھاتے ہیں۔

(جاری ہے)

مگر یہ حضرت انسان جب سیاست میں آتا ہے تو کسی جماعت سے متاثر ہو کر اسے اپناتا ہے۔

عمو ماً یہ اپنا ذاتی مفاد دیکھتا ہے کہ مجھے اس پارٹی میں شامل ہونے سے کتنا فائدہ ہوگا۔اگر یہ پارٹی الیکشن جیت کر اقتدار میں آتی ہے تو اس پارٹی سے خوب فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔اس لئے یہ سیاسی لوگ اسی پارٹی میں زیادہ جاتے ہیں جو الیکشن جیتتی ہو۔پاکستان میں دو پارٹیاں ہیں جو الیکشن جیتنا جانتی ہیں اسی لئے یہی دونوں پارٹیاں حکومت میں باری باری آتی ہیں۔

اب تو انکی دوسری نسل بھی تیار ہو چکی ہے جو اقتدار میں اپنے خاندان کا نام روشن رکھنا چاہتی ہے۔یہ بھٹو اور شریف خاندان لگتا ہے اقتدار سے اس وقت تک چمٹے رہیں گے جب تک ملک مزید ٹکڑوں میں نہیں بٹ جاتا۔ان دونوں پارٹیوں کو اللہ نے جب تک اقتدار دئے رکھنا ہے کوئی ان کا بال بیکا نہیں کر سکتا۔بظاہر تو یہ نظر آتا ہے کہ جب تک امریکہ کی حمائت ان لوگوں کو حاصل ہے یہ اقتدار میں رہیں گے ۔

لیکن امریکہ میں بھی تو حکومتیں تبدیل ہوتی رہتی ہیں لیکن یہاں تو یہی دونوں حکومت میں آتے ہیں۔جبکہ انکے بڑے بڑے سیاست دان لوٹے بھی بنتے رہتے ہیں پھر بھی جب الیکشن ہوتے ہیں جیت ان دونوں پارٹیوں کی قسمت میں ہی لکھی ہوتی ہے۔لوگ ان کو لاتے ہیں پھر برا بھلا کہتے ہیں پھر دوسرے کو لے آتے ہیں۔پاکستان اسی چکر میں دو ٹکڑے ہو گیا لیکن ملک کے دونوں حصوں میں دو ہی پارٹیوں کی حکومت رہی۔

بنگلہ دیش میں شیخ مجیب کی بیٹی کی اور دوسری پارٹی خالدہ ضیاء کی اقتدار میں چل رہی ہے۔اور پاکستان میں PMLN اورppp کی جو اب مسلم لیگ ن سے چھوٹی پارٹی بن گئی ہے اس لئے اس کو چھوٹے انگریزی حروف سے لکھا گیاہے۔بات کہاں سے کہاں پہنچ گئی ،بات ہو رہی تھی وفا داری کی کہ جس طرح جانور اپنے مالک کا وفادار ہوتا ہے اس طرح یہ سیاست دان جو پارٹی اپناتے ہیں اس سے وفاداری کیوں نہیں نبھاتے۔

جب جانور کو اتنی عقل ہے تو یہ حضرت انسان کیوں اتنا کم عقل ہے۔اگر لوگ سیاسی پارٹیوں کے منشور اور پروگرام کو پسند کر کے سیاسی پارٹیوں کو اپناتے ہوں تو شخصی اختلاف کی وجہ سے پارٹیاں نہ بدلیں لیکن یہاں شخصیت پرستی زیادہ ہے اس لئے شخصیت یا کسی شخصیت کے پورے خاندان کو پسند کیا جاتا ہے نہ کہ منشور کو یا اس پارٹی کے عملی کردار کو۔جب تک ہمارے یہاں شخصیت پرستی رہے گی اس وقت تک ایک پارٹی یا خاندان کی حکومت چلے گی۔

ملک کا نظام بھی ان پارٹیوں کے اپنے طریقوں کے مطابق چلتا رہے گا ۔کچھ دینی جماعتوں کے دباؤ کی وجہ سے ملک کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان رکھا گیا ورنہ یہ لوگ اس کو سیکولر اسٹیٹ بنانے پر تیار ہیں۔مسلم لیگ تو نظریہ پاکستان کی خالق کہلاتی ہے اس لئے یہ پارٹی سیکولر ازم کا نعرہ نہیں لگاتی لیکن اس میں موجود کئی لیڈران سیکولر سوچ رکھتے ہیں ۔

اسی لئے اس پارٹی کے دو ٹکڑے ہو چکے ہیں اور ق لیگ الگ ہی سوچ رکھتی ہے۔ان کو کسی نظریہ سے کوئی غرض نہیں۔یہ آرمی کو زیادہ پسند کرتی ہے۔اور یہ پارٹی جرنیلوں کے زیر سایہ زندہ رہ سکتی ہے۔مشرف کی ان لوگوں نے پوری حمائت کی اور آج بھی یہ مشرف کو پسند کرتے ہیں۔یہ سارے لوگ نواز حکومت کے خاتمے کے بعد لوٹے بنے اور آرمی کے جرنیل کی لاٹھی کے نیچے پناہ لی۔

فوجی حکومت ختم ہونے کے بعدیہ الیکشن میں بری طرح ناکام ہوئے۔اب یہ لوگ کسی اور ڈکٹیٹر کے انتظار میں ہیں۔یہ فوج کی حمائت کرنے پر عمران خان کے ساتھ گٹھ جوڑ کی تیاریوں میں لگے ہوئے ہیں۔عمران خان کی پارٹی میں بھی ن لیگ اور پی پی پی سے نکلے لوگ بھرے پڑے ہیں جو حالات کا جائزہ لیتے رہتے ہیں آئندہ الیکشن میں جس پارٹی کے جیتنے کے زیادہ امکانات ہونگے یہ سارے اس پارٹی میں شامل ہو جائیں گے۔

جب تک پاکستان کے سیاسی لوگ کسی خاص نظریہ اور پروگرام پر نہیں ڈٹیں گے اور شخصیت پرستی نہیں چھوڑیں گے۔یہ لوٹا کریسی کا خاتمہ نہ ہوسکے گا۔جماعت اسلامی پاکستان کی واحد جماعت ہے جس کے اندر یہ خرابیاں نہیں ہیں۔نہ یہاں کسی خاندان کا تسلط ہے۔نہ اس پارٹی سے نکلنے والے لوگ کسی دوسری پارٹی میں کوئی نمایاں کردار ادا کر سکے ہیں۔بلکہ جس نے یہ حرکت کی اس نے منہ کی کھائی۔

پاکستان میں اگر کوئی نئی حکومت آئی تو وہ اسی جماعت کی ہو سکتی ہے۔یہ اسلامی نظریہ کے مطابق حکومت بنانے میں جب بھی کامیاب ہوئے ملک میں ایک مضبوط اور مستحکم تبدیلی آئے گی جو پائدار بھی ہوگی۔اس جماعت کے موجودہ امیر غریب گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں اور سینئر منسٹر بن جانے کے بعد بھی ان میں کسی قسم کا غرور پیدا نہیں ہوا۔نہائت سادہ زندگی گزارنے والے درویش صفت انسان اپنی مثال آپ ہیں۔

ان جیسے غریب پرور جب اقتدار میں آئیں گے تب انشا اللہ ملک میں ضرور انقلاب آئے گا۔کامیاب وہی لوگ ہوتے ہیں جو جس کو اپناتے ہیں اس سے نبھاتے بھی ہیں۔اور جب اسلامی نظریہ کو اپنا کر کسی جماعت کا ساتھ دینا ہے تو پھر اس سے نہیں اس کے نظر یہ سے پیار کرنا ہے۔اور اس نظریہ پر اپنی جان بھی قربان کرنے کے لئے تیار رہنا ہے۔لیکن یہ بھی معلوم ہونا چاہئے کہ اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعداس راستے پر چلنے کے بعد ہر طرح کی قربانی دینے کے لئے تیار رہنے کی ضرورت ہے۔

کاش پاکستان کے عوام اس بات کے لئے تیار ہو جائیں کہ ہم لائیں گے اس ملک میں اسلام کا دستور۔اور ہم سب جانتے ہیں کہ اسلام کے دستور سے ہو جائیں گے سب غم دور۔اور سب باتیں بھول کر اس بات کا تہیہ کر لیں کہ ہم اسلامی جمہوریہ پاکستان کو صحیح معنوں میں اسلامی جمہوری بنا کر چھوڑیں گے۔اللہ ہم کو اس بات پر ڈٹ جانے کی ہمت اور حوصلہ عطا فرمائے۔(آمین)یہ کام دینی جماعتیں اور خصوصاً جماعت اسلامی کے ہاتھوں اللہ کی مدد سے ہوگا۔

یہ کام ہوکر رہنا ہے یہ اللہ کا وعدہ ہے کہ اسلام غالب ہو کر رہے گا۔کب ہوگا جب اللہ کا حکم ہو گا ہمارا آپ کا کام کوشش کرنا ہے اور باطل کے مقابلے میں ڈٹے رہنا ہے۔اس سے زیادہ ہمارا اور کوئی کام نہیں۔
راقم تبلیغی جماعت کے ایک پروگرام میں بیٹھا تھا۔جو صاحب گفتگو کر رہے تھے انھوں نے ایک واقعہ سنایا کہ تبلیغی جماعت کے کچھ لوگ اسرائیل اور فلسطین کے سرحدی علاقے میں تبلیغ کر رہے تھے کہ کسی یہودی نے ان لوگوں سے ایک سوال کیا کہ آپ لوگوں کے یہاں مسلمان فجر اور جمعہ کی نماز میں کتنی تعداد میں آتے ہیں یعنی فجر کی نماز میں کتنے لوگ ہوتے ہیں اور جمعہ کی نماز میں کتنے ہوتے ہیں۔

ان لوگوں نے جواب دیا فجر کی نماز میں جمعہ کی نماز کے مقابلے میں کافی کم لوگ ہوتے ہیں۔اس پر اس شخص نے کہا کہ ہم نے اپنی کتاب میں پڑھا ہے کہ جب مسلمان فجر اور جمعہ کی نماز میں یکساں تعداد میں آنے لگیں گے تب مسلمان دوسری قوموں پر غالب آجائیں گے۔تو یہ ہے اصل معاملہ دین اسلام کے غالب نہ آنے کا۔جس وقت مسلمان نمازوں کی اہمیت کو سمجھ جائیں گے اور نماز صحیح معنوں میں قائم ہو جائے گی تب دین اسلام کو غالب ہونے سے کوئی نہ روک سکے گا۔

ہم درست اعمال کرنے لگیں اللہ ہمیں نیک اور صالح حکمران عطا کر دے گا۔اس پوری تحریر کا لا حاصل بھی یہی ہے کہ جس کو اپناؤ اس سے نبھاؤ یعنی اس کے صحیح وفا دار بن کر رہو تب معاشرہ درست جانب بڑھے گا۔مختلف جانوروں میں مختلف خصوصیات ہوتی ہیں جیسے بلی کی یہ خصوصیت ہے کہ وہ اپنے مالک سے زیادہ اس گھر کو پہچانتی ہے جہاں سے اس کو کھانے پینے کو ملتا ہے۔

اس کو جتنا مرضی دور چھوڑ آئیں وہ اپنے گھر کو واپس آجاتی ہے۔اس کو اپنے آقا کا گھر زیادہ پسند ہوتا ہے۔لیکن انسان جانوروں کی بعض غلط باتوں کو اپنا لیتا ہے مگر ان کی جو اچھی باتیں ہیں ان پر غور بھی نہیں کرتا۔کھڑے ہو کر کھانا کھائے گا۔کھڑے ہوکر پیشاب کرے گا مگر پیشاب پخانہ کرکے اس کو بلی کی طرح مٹی کے نیچے نہیں دبائے گا۔آج دنیا کے انسان صحیح انسان بن جائیں اور اللہ اور اس کے آخری پیغمبر ﷺ پر سچے دل سے ایمان لے آئیں تو ساری انسانیت فلاح پا جائے۔اللہ ہم سب کو دین اسلام کی سمجھ عطا فر مادے

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :