جمہوریت ناکام یا سیاستدان؟

پیر 19 مئی 2014

Dr Awais Farooqi

ڈاکٹر اویس فاروقی

ملکی حالات کے پیش نظر اس طرح کی قیاس آرئیاں سننے میں آرہی ہیں کہ جمہوریت ناکام ہو چکی ہے اور ایک ٹیکنوکریٹ حکومت جس کی مدت تین سال ہو کا قیام وقت کی ضرورت بن چکا ہے اس سیٹ اپ کی ضرورت ملکی حالات کے پیش نظر محسوس کی جارہی ہے کیونکہ اس وقت مہنگائی ،بد امنی، توانائی بحران، اور سیاسی نظام کی ناکامی سامنے کی باتیں بن چکی ہیں اس کے ساتھ ہی وزراء اور مشیروں کی فوج ظفر موج جن کی کارکردگی سفر بتائی جاتی ہے اور وہ قومی خزانے پر بوجھ ہیں سے بھی نجات مل جاے گی ، ملکی معاشی صورت حال حکومتی اعداد و شمار سے میل نہیں کھاتی حکومتی اعشارئے تو ملک میں دودھ اور شہد کی نہریں بہتی ہوئی دکھا رہے ہیں جبکہ عوام کی خستہ حالی روزانہ درجنوں کے حساب سے خود کشی کرنے والوں کی خبروں کی اشاعت کی صورت سامنے آ رہی ہے ان حالات میں ٹیکنو کریٹ حکومت کے قیام کی باتیں کوئی اچھنبہ نہیں بلکہ مسائل میں گھری عوام کی خواہش قرار دی جاسکتی ہے۔

(جاری ہے)


عوام کی حکومت عوام کے زریعے والا خواب تو شائد یہاں کھی پورا نہ ہو سکے کیونکہ یہاں آمرانہ طرز جمہوریت اور حکومت رائج رکھنے کے لئے جمہوریت کا صرف نام لیا جاتا ہے جبکہ اس کے فیوض و برکات سے عوام محروم ہی رہتی ہے ،تاریخ گواہ ہے کہ فوج اور افسر شاہی کوسیاست میں دخیل اور ملوث ہونے کے مواقع خود سیاست دانوں نے فراہم کیے۔ہمارے ہاں جمہوریت کبھی ناکامی سے دوچار نہیں ہوئی بلکہ یہ جمہوری حکمرانوں اور عوامی نمائندوں کی ناکامی ہے جنہوں نے فوجی یا دیگر کومداخلت کا جواز فراہم کیا۔


سیاستدان اپنے ذاتی اختلافات اور اقتدار کے حصول کی جنگ میں مصروف ہیں جبکہ عوام کی خستہ حالی کی جانب کسی کی نظر ہی نہیں جارہی ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ سیاستدان ماضی سے کچھ سبق سیکھتے مگر اس تمام صورتحال کے باوجود بد ترین جمہوریت بھی بجا طور پر آمریت سے بہتر ہے کا ورد جاری ہے۔ تقریبا دس سالہ آمریت کے بعد جمہوریت بحال ہوئی تو توقع کی جارہی تھی کہ ہمارے سیاستدان اور سیاسی جماعتیں تدبر اور برداشت کا مظاہرہ کرتے ہوئے سیاسی و جمہوری اداروں کی مظبوطی کو یقینی بنانے کے لیے کوشاں رہیں گی اور غیر سیا سی قوتوں کو اپنے اوپر ہاوی ہونے کے مواقع فراہم نہیں کیے جائیں گے۔

میثاق جمہوریت کی صورت میں کیا گیا معاہدہ سیاسی نظام کو مستحکم بنانے کے حوالے سے مشعل راہ تھا۔مگر موجودہ دور میں بھی مختلف سیا سی جماعتوں کے مابین اختلافات اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوششیں جاری رہیں۔ اس تمام صورتحال میں بھی یہ پہلوبے حد مثبت ہے کہ حکومت سے تمام تر اختلافات اور کڑی تنقید کے باوجود تقریبا تمام سیاسی جماعتیں اس حوالے سے متحد اور یکسوہیں کہ حکومت ہٹانے کے لئے کسی غیر جمہوری قوت کا ساتھ نہیں دیا جائے گا۔

لیکن دوسری جانب عوام کے مسائل کے حل کے لئے ساری سیاسی و مذہبی جماعتوں نے خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ یہی وجہ ہے موجودہ آمرانہ جمہوری نظام سے چھٹکارے کے لئے صدارتی نظام یا ٹیکنوکریٹ حکومت کے قیام کی قیاس آرائیاں زوروں پر ہیں بلکہ وسط مدتی انتخابات کا شوشہ بھی چھوڑا جا چکا ہے جس کے لئے نئے اتحاد بنتے بھی دکھائی دے رہے ہیں۔ دوسری جانب میڈیا اور اداروں کی لڑائی نے ملک کو ایک ہیجان میں مبتلا کر رکھا ہے اور حکومت اپنی زمہ داری پوری کرتے دکھائی نہیں دے رہی ان سارئے عوامل نے جمہوریت پر سے عوام کا ایمان متنزل کر کے رکھ دیا ہے عوام کو بھی یہ کہتے سنا جارہا ہے کہ ایسی جمہوریت کو کیا کرنا ہے جس میں صرف ایک طبقہ ،(حکمران اور ان کے حاشیہ نشین) ہی فائدہ اٹھاتے پائے جائیں جبکہ عوام خود کشیوں پر مجبور ہوجائے علاوہ ازیں امن و امان کی صورت حال کا بھی یہ عالم ہے کہ اپنے کام کاج پر جانے اور کسی کام کے سلسلہ میں گھر سے نکلنے والے افراد کو اس بات کا یقین نہیں ہوتا کہ وہ خیر یت سے واپس گھر پہنچ بھی پائیں گے یا نہیں جبکہ متشدد گروہوں اور گرپوں کی یلغار سے بھی عوام حرساں اور پریشان ہو کر کسی اور جانب دیکھ رہے ہیں۔


ترقی پذیر ملکوں میں عوام اگرچہ جمہوری بادشاہتوں کے خلاف سڑکوں پر آ رہے ہیں جنھوں نے بادشاہوں کی طرح سارے اختیارات اپنے ہاتھوں میں جمع کر لیے ہیں اور فیصلوں میں عوام کا کوئی دخل نہیں لیکن اگر اس صورت حال کا ذرا گہرائی سے جائزہ لیں تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ عوام کی نفرت کا اصل ہدف چند ہاتھوں میں قوت اور دولت کا مرتکز ہونا ہے۔

نام نہاد جمہوریت میں بھی عوام کا مینڈیٹ عوام کے مسائل کے حل سے مشروط ہوتا ہے اور اگر کوئی حکمران طبقہ عوام کے مسائل حل کرنے میں ناکام رہتا ہے تو اسے حکمرانی کا نہ کوئی حق ہوتا ہے نہ جواز۔ اس حوالے سے اگر ہم پاکستان کی جمہوری تاریخ پر نظر ڈالیں تو کوئی ایک بھی ایسی منتخب حکومت ہمیں نظر نہیں آتی جو عوامی مسائل کے حل کا دعویٰ کر سکے۔

اس پس منظر میں اگر ہم اس آمرانہ جمہوریت پر نظر ڈالیں تو محسوس ہوتا ہے جمہوریت صرف نند لوگوں کے ہاتھوں میں اقتدار کا نام ہے ۔پاکستان کا حکمران طبقہ تو اس حد پر کھڑا ہے جہاں کھلے عام ولی عہدوں کی فوج تیار کی جا رہی ہے اور عوام کی محنت کی کمائی کے اربوں روپوں کو ان کی تشہیر اور انھیں عوام میں مقبول بنانے کی کوششوں میں خرچ کیا جا رہا ہے۔ سیاسی جماعتوں کو سوچنا چاہے کہ وہ اگر عوام کے موڈ کا اندازہ نہ کر سکے تو قیاس آرائیوں کو حقیقت بنتے دیر نہیں لگتی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :