ہم سب" شہ دولے"

پیر 19 مئی 2014

Syed Shahid Abbas

سید شاہد عباس

گجرات میں اورنگزیب دور کے صوفی بزرگ " دولے شاہ" کا مزار ہے ۔ "دولے شاہ " کے حوالے سے بہت سی روایات مشہور ہیں۔ان کے مزار کی سب سے خاص بات یہاں کے فقیر ہیں جو عام مزارات سے بہت مختلف ہیں انہیں "دولے شاہ کے چوہے" کہا جاتا ہے اور موجودہ دور میں اس کو اور بھی مختصر کر کے" شاہ دولے" یا " شہ دولے " کر دیا گیا ہے ۔

اب انہیں صرف شہ دولے کہا جاتا ہے۔ آپ کو اکثر اوقات مصروف شاہراہوں ، چوراہوں اور بازاروں میں یہ شہ دولے نظر آتے ہیں۔ ان کے سر ان کے باقی قدو قامت کی نسبت بہت چھوٹے ہوتے ہیں اور یہ چھوٹے سر ان کی شناخت ہیں۔ بعض روایات کے مطابق ان کے سر پیدائشی چھوٹے ہوتے ہیں۔ لیکن کچھ روایات میں یہ بھی ملتا ہے کہ پیدائش کے بعد ان کے سر پر لوہے کا ایک خول چڑھا دیا جاتا ہے جس سے ان کے سر چھوٹے رہ جاتے ہیں اور سوچنے سمجھنے کی صلاحیت بھی رک جاتی ہے۔

(جاری ہے)

لیکن یہ بات موضوع بحث نہیں ہے۔
آپ کو ہمیشہ ان کے ساتھ ایک ادھیڑ عمر عورت یا مرد نظر آئے گا۔ کیوں کہ ان کے سر چھوٹے ہوتے ہیں اس لیے ان کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت بھی معدوم ہوجاتی ہے۔ ان کے ساتھ والا شخص جس سمت جاتا ہے یہ شہ دولے اس کے پیچھے پیچھے اسی سمت جاتے ہیں۔ وہ جہاں رکتا ہے یہ بھی وہیں رک جاتے ہیں۔ وہ جہاں ہاتھ پھیلاتا ہے یہ بھی وہیں ہاتھ پھیلا دیتے ہیں ۔

یوں کہنا بے جا نہ ہو گا کہ یہ اپنے ساتھی کے اشاروں پر چلتے ہیں۔ زیادہ تر یہ بولنے کی صلاحیت سے بھی محروم ہوتے ہیں۔ ان کے ترجمان کے فرائض ان کے ساتھ موجود مرد یا عورت سر انجام دیتے ہیں۔ آج کل ان سے صرف بھیک منگوائی جاتی ہے۔ اور ان کے ساتھ موجود مرد یا عورت آپ کو ہمیشہ ایک ہی بات کہیں گے کہ " یہ اللہ کے قریب ہیں ان کی بد دعا فوراً لگتی ہے" ۔

یہ لوگ دعا و بد دعا کے مفہوم سے ہی آشنا نہیں ہوتے لیکن پیسے نکلوانے کی خاطر ان کے ساتھ موجود"استاد" آپ کو یہ فقرے کہہ کر ڈراتے ضرور ہیں۔
گاڑی سگنل پر رکی تو ایک شخص گاڑی کی طرف آیااس کے ساتھ بھی ایک " شہ دولا " تھا۔ چھوٹا سر، سبز چغہ ، ننگے پاؤں ۔وہ اپنے ساتھ موجود مرد کا بازو پکڑے ہوئے تھا۔ اور اس کی ہر بات پر من و عن عمل کر رہا تھا۔

مجھے فوراً رات کو دیکھا گیا ٹاک شو یاد آ گیا۔ ذہن پر زور دیا تو مجھے اپنا آپ بھی شہ دولے جیسا لگنے لگا۔ انہی سوچوں میں غرقاں تھا کہ مجھے اپنے ارد گرد موجود ہر شخص شہ دولا لگنے لگا۔ مجھے حیرت کا شدید اچھنبھا لگا کہ ہم میں اور ان شہ دولوں میں آخر کیا فرق ہے؟
یہ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے محروم ہیں۔ ہم بھی تو انفرادی و اجتماعی سطح پر سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے محروم ہیں۔

ہم سوچ سمجھ کر ایک لیڈر تک چن نہیں سکتے ہیں ۔ جعلی ڈگری والوں کو ہم اسمبلیوں میں بٹھا دیتے ہیں تو پھر ہم میں اور شہ دولو ں میں کیا فرق رہ گیا؟ شہ دولے اپنے " استاد" کی ہر غلط و درست بات پر ان کے ساتھ چلتے ہیں ان میں اتنی طاقت بھی نہیں ہوتی کہ اپنے ساتھ موجود مرد یا عورت کی غلط بات کو غلط کہہ سکیں۔ ہم بھی تو اس معاملے میں شہ دولوں جیسے ہی ہیں۔

ہم ملک کے لوٹنے والوں کے لیے جان دینے کو تیار ہوتے ہیں۔ ان کی تصویروں کے جھنڈوں کو سر پر کفن کی مانند باندھنا فخر محسوس کرتے ہیں۔ ان کی غلط بات کو کوئی غلط کہے تو اس کے ساتھ مرنے مارنے پر تیار ہو جاتے ہیں۔ آنکھیں بند کر کے سوچا تو روزانہ ٹی وی ٹاک شوز میں مجھے ایسے شہ دولوں کی بھرمار نظر آئی جو اپنے "استاد" کی ہر اچھی بری بات کا دفاع کرتے نظر آتے ہیں۔

شہ دولوں میں بھی غلط کو غلط کہنے کی طاقت نہیں ۔تو یہ طاقت تو ہم میں بھی نہیں ۔لہذا ہم میں اور شہ دولوں میں کیا فرق رہ گیا؟
سوچوں کے دریچوں کو کچھ اور زحمت دی تو مجھے لگا کہ ہم تو اجتماعی طور پر بھی شہ دولوں جیسے ہی ہیں۔ ہم کوئی بھی فیصلہ کرنے میں خود مختار نہیں۔ جب بھی کسی کا دل چاہے ہماری سر زمین میں گھس کر جودل ہو کر کے چلا جاتا ہے اور ہم "شدید لفظی احتجاج" سے آگے نہیں بڑھ پاتے ۔

انکل سام ہمیں کہتا ہے یہ نہیں کرتا ہم شہ دولوں کی طرح حکم مان لیتے ہیں۔ "حکم" آتا ہے کہ "بھئی ہمارے بندے نے دو پاکستانیوں کو لاہور کی مصروف شاہراہ پر مار دیا ہے ، بچے سے غلطی ہو گئی اسے جانے دو"۔ ہم شہ دولوں کی طرح سر جھکا کر " حکم" کی بجا آوری کے لیے ہر حد سے گزر جاتے ہیں۔ پھر دوبارہ ذرا غصے سے حکم جاری ہوتا ہے"بھئی یہ کیا تم نے ہمارے ایک اور بندے کو پکڑ لیا کیا ہوا جو بے چارے کے پاس سے چند گولیاں برآمد ہو گئیں ، فوراً اسے چھوڑ دو" ۔

شہ دولے کی طرح انکار تو ہماری فطرت میں ہی نہیں۔ فوراً تعمیل ہو جاتی ہے۔" ارے سنو تمہاری ایک بیٹی ہماری قید میں ہے ہمارا جب دل چاہے گا اسے چھوڑیں گے۔ ورنہ زندان میں ہی اس کی سانسیں تمام ہوں گی ۔سنو تم اس قید پر زیادہ واویلا نہ کرنا"۔ ہم بھی تو شہ دولے ہی ہیں لہذا سر کو جھکانا ہمارا فرض ہے اس پر بھی سر جھکا لیتے ہیں۔ پھر ایک اور استاد صاحب آتے ہیں اور حکم آتا ہے کہ " ارے میاں شہ دولے، انکل سام کی تو مان لی اب ذرا چچا کی بھی مان لو اور ذرا یہ چند ڈالر پکڑو (چند ارب) اور کچھ بندے بالکل تیار رکھنا ہمیں شاید ضرورت پڑے"۔

شہ دولے کا کام تو سر جھکا کر حکم ماننا ہے سو ہم بھی یہی کرتے ہیں۔پھر انکل اور چچا کا ایک اجتماعی حکم آتا ہے کہ " تم یہ کیا کر رہے ہو؟ خبردار! جو تم نے ایران سے گیس منصوبے کو اپنے دور حکومت میں عملی جامہ پہنچانے کی کوشش کی "۔ اور شہ دولے خاموشی سادھ لیتے ہیں۔ کیوں کہ حکم سے انکار شہ دولے کی فطرت نہیں۔
ہم بطور قوم "شہ دولوں " کی قوم ہیں ۔

اور ہمارے "استاد " وہ ہیں جو یہاں نہ ہو کر بھی ہمارے استاد ہیں۔ ان کا ہر حکم ہم شاہی فرمان سمجھ کر ٹالنے کی جرات نہیں کر سکتے۔ شہ دولوں کی طرح ہمارے دماغ انفرادی و اجتماعی سطح پر چھوٹے رہ گئے ہیں۔ ہماری عمر تو نصف صدی سے "تجاوز" کر چکی ہے لیکن ہمارے سروں پر موجود ان دیکھے "آہنی خول" نے ہمیں سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے محروم کر دیا ہے۔ ہمارے نام نہاد استاد انگلی پکڑ کر جدھر ہمیں لے جائیں گے ہم چپ چاپ چلتے جائیں گے۔ " کیوں کہ انکار تو شہ دولوں کی فطرت میں ہی نہیں ہوتا"۔اور ہم سب شہ دولے ہی تو ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :