پرنور محفلیں

ہفتہ 17 مئی 2014

Molana Shafi Chitrali

مولانا شفیع چترالی

دینی مدارس کا تعلیمی سال اختتامی مراحل میں ہے۔ اس مناسبت سے مختلف مدارس و جامعات میں سالانہ جلسوں، ختم بخاری شریف اور دیگر تقریبات کا انعقاد ہوتا ہے۔ اگرچہ ان تقریبات میں مختلف تکلفات کے در آنے کی وجہ سے بہت سے اہل نظر اور اکابر علماء اب با قاعدہ اہتمام سے تقریب منعقد کرنے سے گریز کرنے کو ترجیح دینے لگے ہیں تاہم آٹھ آٹھ اور دس دس سال مدرسے میں تعلیمی ریاضت کے بعد فراغت حاصل کرنے والے طلبہ اور ان کے اعزہ کے جذبات و احساسات کسی نہ کسی طرح تقریب کی شکل اختیار کر ہی لیتے ہیں۔

جو ادارے اہتمام اور تزک و احتشام کے ساتھ سالانہ جلسے منعقد کرتے ہیں، ان کے سامنے بھی اعلیٰ مقاصد ہوتے ہیں اور جو حضرات اخفاء اور گریز کے طرز عمل پر عمل کرتے ہیں، وہ تو ظاہر ہے کہ استغناء و توکل کا عمدہ نمونہ پیش کرتے ہیں۔

(جاری ہے)


صحابہ کرام کی سیرت میں ہمیں دونوں طرح کے نمونے ملتے ہیں۔ حدیث میں آتا ہے، ایک مرتبہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رات کے وقت مسجد نبوی میں تشریف لائے، دیکھا تو صحابہ کرام عبادت میں مصروف تھے۔

ایک جانب حضرت ابو بکر کھڑے نہایت خشوع و خضوع مگر مکمل خاموشی سے نماز پڑھ رہے تھے تو دوسری جانب حضرت عمر فاروق  نسبتاً اونچی آواز میں تلاوت فرمارہے تھے۔ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دونوں حضرات سے اس کی وجہ پوچھی، حضرت ابوبکر نے جواب دیا، ”اسمعت من ناجیت“ میں نے جس ذات کے ساتھ سرگوشی کی ہے، اس کو اپنی بات سنادی ہے۔

پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عمر  سے مخاطب ہوئے تو انہوں نے جواب دیا، ” میں اس کے ذریعے غفلت میں سونے والوں کو جگاتا، شیطان کو بھگاتا اور رحمن کو خوش کرتا ہوں“۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم دونوں کے جواب سے خوش ہوئے اور حضرت ابوبکر سے فرمایا، آپ تھوڑی سی اونچی آوازمیں پڑھا کریں اور حضرت عمر سے فرمایا، آپ اپنی آواز تھوڑی سی پست رکھا کریں۔

اس حدیث کی روشنی میں دینی مدارس کی تقریبات کے حوالے سے مذکورہ بالا دونوں طرح کے طرز عمل اپنی جگہ درست ہیں تاہم یہاں یہ بتانے کی شاید ضرورت نہ ہو کہ اعتدال کا راستہ بہر حال افراط و تفریط کے درمیان ہی ہوتا ہے۔
مادر علمی جامعة العلوم الاسلامیہ بنوری ٹاون میں گزشتہ چند سالوں سے ختم بخاری کی تقریب کی تاریخ کا پیشگی اعلان نہیں کیا جاتا، تقریب سے ایک گھنٹہ قبل متعلقہ حضرات کو مطلع کیا جاتا ہے، اس کے باوجود بخاری شریف کی آخری حدیث کے درس اور دعا میں شرکت کے لیے ہزاروں لوگ بھاگے بھاگے آتے ہیں۔

جمعرات کو راقم جامعہ پہنچا تو جامعہ کی وسیع مسجد، صحن، برآمدوں اور متصل سڑکوں پر تل دھرنے کی جگہ نہیں تھی۔ آخر کوئی تو بات ہے جو لوگ اس قدردیوانہ وار ٹوٹ ٹوٹ کر آتے ہیں۔ بقول شیخ سعدی#
ہر کجا چشمہ ٴبود شیریں
مردم و مرغ و مور می آیند
جہاں روح کی سیرابی کا چشمہ شیریں ہو وہاں انسان ہی نہیں چرند پرند اور حشرات بھی امڈ آتے ہیں۔


استاذ محترم علامہ ڈاکٹر عبدالرزاق اسکندر مدظلہم نے اپنے روایتی عالمانہ و ناصحانہ انداز میں بخاری شریف کی آخری حدیث کا درس دیا اور طلبہ و طالبات کو انتہائی قیمتی نصیحتیں فرمائیں۔ انہوں نے بزرگوں کے اس قول کا حوالہ دیا کہ علم و ادب میں مشغولیت میں جو لذت ہے، اگر بادشاہوں کو معلوم ہو تو وہ اس کو حاصل کرنے کے لیے علماء پر فوج کشی کردیں۔

جامعہ کی یہ سادہ مگر انتہائی پر وقارتقریب حضرت ڈاکٹر صاحب کی رقت انگیز دعا سے اختتام پذیر ہوئی۔ مدارس کے دشمنوں کو خبر ہو کہ اس سال صرف جامعہ بنوری ٹاون سے ساڑھے چھ سو کے قریب طلبہ اور سو کے قریب طالبات نے فراغت حاصل کی ہے!
اسی طرح چند روز قبل جامعہ دارلعلوم کراچی میں تکمیل حفظ کی سالانہ تقریب میں محترم فاروق قریشی اور بھائی خالد عمران کے ہمراہ شرکت کی سعادت حاصل ہوئی۔

عصر اور مغرب کے درمیان کے مختصر وقت میں دارالعلوم کراچی کے دار القرآن کے منتظمین قاری عبد الرحمن انصاری و دیگر کی کاوشوں سے ایک انتہائی خوبصورت محفل جمی جس میں حضرات شیخین مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی اور شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہما کے جامع اور پر اثر بیانات بھی ہوئے اور طلبہ کی جانب سے تلاوت اور نعت و نظم خوانی کا پروگرام بھی ہوا۔

دارالعلوم کراچی میں ختم بخاری شریف کی تقریب ان شاء اللہ تعالیٰ اتوار کو ہورہی ہے ۔
گزشتہ اتوار کو ملک کے معروف دینی ادارے جامعة الرشید سے مختلف شعبوں میں فارغ التحصیل ہونے والے طلبہ کے اعزاز میں تقریب تقسیم اسناد و دستار بندی برائے سال 2013/14ء کا انعقاد کیا گیا جس میں مختلف شعبوں سے فارغ التحصیل 284 طلبہ کوسرٹیفکیٹ، تعریفی اسناد اور شیلڈز دی گئیں۔

تقریب میں ملک بھر سے جید علماء کرام، صحافی، تاجر، وکلا، ڈاکٹرز اور ماہرین تعلیم سمیت مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے ہزاروں افراد نے شرکت کی۔ جامعة الرشید اور اس کے ذیلی اداروں کے تعارف اور خدمات پر کئی دلآویز ڈاکومنٹریاں بھی دکھائی گئیں۔ رات ایک بجے تک جاری اس پر نور بروگرام میں تمام مقررین نے فکر انگیز باتیں کیں تاہم مولانا فضل الرحیم اشرفی نائب مہتمم جامعہ اشرفیہ ، مولانا امداد اللہ ناظم جامعہ علوم الاسلامیہ بنوری ٹاؤن، جنرل (ر) حمید گل، سابق سیکرٹری الیکشن کمیشن کنور دلشاد، وائس چانسلر وفاقی اردو یونیورسٹی ڈاکٹر ظفر اقبال ، چیئرمین نظریہ پاکستان کونسل و چیف ایڈیٹر ”پاکستان آبزرور“پروفیسر زاہد ملک ، معروف تاجر زبیر موتی والا، معروف سائنسدان پروفیسر ڈاکٹر انعام الرحمن ،رکن شریعہ اپلیٹ بنچ سپریم پروفیسر ڈاکٹر محمد الغزالی کورٹ، سابق سفارت کارایاز وزیر ،ڈائریکٹر فاسٹ پروفیسر ڈاکٹر زبیر احمد شیخ ،وائس چانسلر بے نظیر بھٹو یونیورسٹی دیر پروفیسر ڈاکٹر خان بہادر مروت کی باتیں شرکاء نے نہایت دل چسپی کے ساتھ سنیں۔

جنرل حمید گل کی تقریر نے تو گویا میلہ لوٹ لیا۔
یہ تقریب ہر سال جس سلیقے اور حسن انتظام کے ساتھ منعقد ہوتی ہے، وہ بیان کرنے سے نہیں بلکہ دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ یہ جامعة الرشید کے اکابر اور منتظمین کے اخلاص کا کمال ہے کہ زندگی کے تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والے بہت سے نمایاں افراد باقاعدہ خواہش اور فرمائش کرکے اس تقریب میں شامل ہوتے ہیں اور تقریب میں شریک ہر شخص ایک خاص طرح کی روحانیت و مقصدیت محسوس کرتا ہے۔

بردارم مولانا سید عدنان کاکاخیل کی سحرانگیز نقابت پروگرام کے حسن کو چار چاند لگادیتی ہے۔ اس پروگرام کی خاص بات یہ ہوتی ہے کہ اس کے اسٹیج پر آکر بڑے بڑے جرنیل، جج حضرات، ماہرین تعلیم، وکلاء وصحافی، تاجر رہنما اور دیگرشعبوں سے وابستہ نامور افراد تقریبا انہی خیالات وجذبات کا اظہار کرتے ہیں جو علماء و اہل مدارس امت مسلمہ تک پہنچانا چاہتے ہیں۔ آج کے اس دور میں جب کہ دینی مدارس کے خلاف پروپیگنڈے کا بازار گرام ہے، اس بات کی شدید ضرورت ہے کہ عوام و خواص کو دینی مدارس کی شاندار تعلیمی خدمات سے روشناس کرایا جائے۔ اس کے لیے جامعة الرشید کے طرز کے پروگراموں کا انعقاد وقت کاتقاضا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :