اک مسیحا

ہفتہ 17 مئی 2014

Hussain Jan

حُسین جان


11سال کی عمر میں معذور ماں کی خدمت نے جسے پہلی دفعہ انسانسیت کی خدمت کادرس دیا،یہ عمر بچوں کے کھیلنے کودنے کی ہوتی ہے مگر اُن بچوں کی جو دُنیا میں کوئی خاص کام کرنے نہیں آئے ہوتے لیکن جن کے سپرد انسانیت کی فلاح کابیڑہ ہو وہ اس عمر میں ہی اپنے مقصد کو پانے میں لگ جاتے ہیں۔ بیمار ماں کی دیکھ بھال نے اُس کے اندر ایک ایسا جذبہ پیدا کیا جس کا ثمر آج تک پاکستانی قوم کھا رہی ہے۔

ماں کی وفات کے بعد ہم نے دیکھا ہے بہت سے بچے اپنا آپ نہیں سمبھال پاتے اور دُنیا کی سختیوں میں کھو جاتے ہیں لیکن اس بچے نے ایک عہد کر رکھا تھا کہ جس طرح اُس نے اپنی ماں کی خدمت کی ہے اُسی طرح انسانیت کی خدمت بھی کرئے گا۔ پاکستان میں تو یہ حال ہے جن کے پاس وسائل کا پہاڑ موجود ہے اور وہ حکومت بھی چلا رہے ہیں مگر آج تک ایک ہسپتال ایسا نہیں بنا پائے جس میں خود اپنا ہی علاج کروا سکیں۔

(جاری ہے)

لہذا کسی کی ٹانگ میں درد ہو ، کسی کے معدے میں جلن ہو، کسی کے پتے کا آپریشن ہونا ہو، کسی کو زکام نے آلیا ہو توفورا لندن یا امریکہ کا جہاز پکڑ لیا جاتا ہے کہ انہیں پتا ہے کہ ہم نے تو اس ملک میں کوئی ہسپتال ایسا بنایا ہی نہیں جہاں علاج کروا سکیں لہذا باہر جانا ہی بہتر ہو گا۔ لیکن ایدھی صاحب نے سوچ رکھا تھا کہ انہوں نے پاکستان کے غریب عوام کے لیے کچھ کرنا ہے۔

تقسیم کے بعد اپنا سب کچھ چھوڑ کر پاکستان ہجرت کرنے واے ایدھی صاحب نے پہلے پہل پیدل ہی لوگوں کی خدمت کرنا شروع کی ۔ کچھ عرصہ کپڑئے کے کام سے بھی منسلک رہے۔ پھر کچھ لوگوں کی مدد سے کراچی میں غریبوں کے لیے فری میڈیکل ڈسپینسری کا آغاز کیا۔ ہمارے ہاں بہت سے دانشور مشہور ہیں جو مغرب کے بڑئے لوگوں کے قصے کہانیاں اپنے اپنے کالموں میں افسانوی انداز میں لکھتے ہیں مگر کبھی اُن لفافہ بازوں کو اس مسحا پر لکھنے کی توفیق نہیں ہوئی کیونکہ ان کو پتا ہے کہ اس شخض پر لکھنے سے ان کو کون سا لفافہ مل جانا ہے۔

بہت تھوڑے وسائل کے ساتھ ایدھی فاونڈیشن کا آغاز کیا گیا شروع شروع میں بہت سے مسائل نے اپنی گرفت میں لینے کی کوشش کی لیکن یہ مرد آہن اپنی جگہ سے نا ہلا۔ پاکستان میں تو رواج ہے جس کے ہاتھ میں ڈنڈا ہوتا ہے اُسے مرد مومن مرد حق کے نام سے پکارا جاتا ہے لیکن جو انسانوں کی فلاح کی کوشش کرتا ہے اُس کے کردار کو سر بازار پامال کیا جاتا ہے۔لیکن ایدھی صاحب اپنے جنون کے پکے تھے وہ اپنے مشن میں لگے رہے اس میں بھی کوئی شک نہیں کے پاکستان کے عوام نے دل کھول کر ان کی اس نیک کام میں مدد کی۔

کیونکہ لوگوں کو پتا تھا کہ ان کا پیسہ کسی کے جیب میں نہیں جا رہا بلکہ فلاحی کاموں میں خرچ ہو گا۔ کیونکہ سب جانتے ہیں جب کبھی بھی پاکستان پر کوئی آسمانی افت آئی ہمارے حکمرانوں نے اپنے اپنے نام کے خیراتی اکاونٹ کھول لیے اور پھر تاجروں سے فلاحی کاموں کے نام پر بھتہ لیا جاتا اور آج تک کسی کو پتا نہیں چلا کہ اُن اکاونٹس کا پیسہ کہاں گیا کس کی جیب میں گیا کس کے محل کی بنیادوں میں پڑا۔

لیکن ایدھی فاونڈیشن کو دیا گیا تما م پیسہ لوگوں کی فلاح میں خرچ کیا گیا۔
دُنیا کی سب سے بڑی فری ایمبولینس سروس پاکستان کے لیے کسی عزاز سے کم نہیں کیونکہ ویسے تو ہم ہر برئے کام میں سب سے آگے ہوتے ہیں۔ ملاوٹ ہو ،رشوت ستانی ہو، غنڈا گردی ہو،جاہلیت ہو،برئی صحت ہو ہم سب سے آگے ہیں مگری اچھے کاموں میں ہمار ا نام کافی پچھے راہ جاتا ہے۔

انڈین گجرات کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں پیدا ہونے والے انسان نے انسانیت کا حق ادا کر دیا اورپوری دُنیا میں پاکستان کی پہچان بنا۔ ایدھی صاحب نے اپنی پوری زندگی پاکستانیوں کی لیے وقف کر دی ،پانچ ہزار سے شروع ہونے والی تحریک آج ہزاروں لوگوں کی مدد کر رہی ہے۔ وہ مائیں جو اپنے بچوں کو جنم دینے کے بعد کوڑئے پر پھینک جاتی ہیں اور جن کی دیکھ بھال کی زمہ داری حکومت پر عائد ہوتی ہے مگر یہ زمہ داری بھی ایدھی فاؤندیشن ادا کرتی ہے۔

ایدھی صاحب نے ہزاروں یتیم بچیوں کی شادیاں کرائیں جوآج اپنے گھروں میں خوش و خرم زندگی گزار رہی ہیں۔ پاکستان میں سرکاری ایمبولینس کا سلسلہ 50سال بعد شروع کیا گیا جب کہ اس سے پہلے یہ فریضہ بھی ایدھی ہی سر انجام دے رہی تھی۔
اگر ایدھی صاحب کو دیے گے اعزازات کی تفصیل لکھنے بیٹھیں تو اُس کے لیے کئی صفحات کی ضرورت ہو گی۔ دنیا کا شائد ہی کوئی فلاحی اعزاز ہو گا جو ایدھی صاحب کو نہیں ملا۔

پچھلے کچھ سالوں سے وہ بیماری سے لڑ رہے ہیں۔ گردے فیل ہوجانے کے باوجود بھی وہ اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ جب ہسپتال میں داخل ہوتے ہیں تو اُن کو یہی فکر ستائے جاتی ہے کہ انسانوں کی خدمت جاری رکھنے کا عمل کسی صورت رکھنا نہیں چاہیے۔ ہرئے رنگ کا چغہ پاؤں میں سستی سی سلپر پہنے اس شخض نے اپنی زندگی کا ہر لمحہ پاکستانیوں کی خدمت میں گزارا۔

مغربی ممالک کی مثالیں دینے والے اکثر دانشور ایدھی صاحب کی کاوشوں کو بھول جاتے ہیں۔ آگے نکلنے کی دوڑ میں بھائی بھائی کا گلا کاٹ رہا ہے۔ کوئی کسی کی مدد کرنے کو تیار نہیں کہا جاتا ہے کہ اپنی پوری نہیں پڑتی کسی کی کیا مدد کریں ایسی صورتحال میں ان جیسے لوگوں کا ہونا باعث مسرت ہے جو بغیر کسی لالچ کے اپنی زندگی کو لوگوں پر خرج کردیتے ہیں۔

یہاں تو یہ عالم ہے کہ کوئی سیاستدان جب کسی غریب کی مدد کرتا ہے تو کئی کئی دن تک میڈیا پر چھایا رہتا ہے کہ فلاں سیاستدان نے غریب کے گھر جا کر اُس کی دادرسی کی حالنکہ یہ میڈیا کا کمال ہوتا ہے کہ کسی غریب کی خبر چلا دی تو ایوان اقتدار میں دوڑیں لگ گئیں۔
اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ ایدھی صاحب جیسے بہت سے لوگ پاکستانیوں کی خدمت کر رہے ہیں لیکن افسوس کی بات ہے ہماری حکومتوں کو کبھی یہ خیال نہیں آیا کہ لوگ کسی کسمپسری کی زندگی گزار رہے ہیں۔

دوردراز کے علاقوں میں بہت سی تنظیمیں سکول چلا رہی ہیں کہیں ہسپتال چلا رہی ہیں تو کہیں لوگوں کو روزگار کمانے کے ہنر سکھاے جاتے ہیں جب کہ حکومت کو سوائے اشہار بازی کے کوئی کام نہیں بڑئے بڑئے پوسٹر کام کے آغاز میں ہی لگا دیے جاتے ہیں کام بھلے پورا نا ہو شور پورے ملک میں سنائی دیتا ہے۔ کہتے ہیں انسان وہ ہوتا ہے جو دوسروں کی تکلیف کو محسوس کرئے کہ اپنی تکلیف تو جانور بھی محسوس کرتے ہیں۔

کروڑوں کی تعداد میں غربت سے نیچھے زندگی گزارنے والے پاکستان کے عوام اپنے حق کے انتظار کر رہے ہیں مگر سنوائی کہیں نہیں ہو رہی۔ یہاں تو یہ عالم ہے کہ بھوک پیاس سے مرنے والوں کی عیادت کو جانے والے حکمرانوں کے لیے صحراؤں میں بھی شاہی دستر خوان سجا دیے جاتے ہیں۔ اور بھوکے ننگے لوگوں کی قسمت میں قحت سے مرنا ہی لکھا ہوتا ہے۔
پاکستانیوں کے لیے ایسے لوگ جو فلاہی کاموں میں دل و جان سے حصہ لیتے ہیں کسی نعمت سے کم نہیں ہماری دعا ہے اللہ ایسے لوگوں کے مال و جان میں اصافہ کرئے اور ان کو ہمیشہ تندرستی والی زندگی عطا کرئے کہ ایسے لوگ ہی انسانیت کی پہچان ہوتے ہیں اپنا پیٹ بھرنے والوں کی تو پوری دُنیا میں کثرت ہے دوسروں کا پیٹ بھرنا کسی کسی کا کام ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :