لگے رہو منّا بھائی

ہفتہ 17 مئی 2014

Abdul Raheem Anjaan

عبدالرحیم انجان

عیوب سے پاک اور مکمل ذات صرف اور صرف اللہ سبحان و تعالیٰ کی ہے۔کوئی بھی انسان عیوب سے پاک نہیں ہو سکتا،عام انسانوں کی اچھائی و برائی کا میرے پاس ایک ہی پیمانہ ہے۔جس میں اچھائیاں زیادہ اور برائیاں کم ہیں،وہ اچھا ہے اور جس میں برائیاں زیادہ اور اچھائیاں کم ہیں ، وہ برا ہے۔ اِس اعتبار سے ذوالفقار علی بھٹو ( شہید) بھی میرے محبوب لیڈر رہے ہیں۔ ایک بار اقبال پارک لاہور میں اُن کا جلسہ تھا۔قائدِ عوام کو قریب سے دیکھنے اور اُن سے ہاتھ ملانے کی جنونی خواہش ،مجھے اپنے چند دوستوں کے ساتھ، جن میں روزنامہ نوائے وقت کے ، اس دور کے چیف نیوز ایڈیٹر سلطان عارف ( مرحوم ) بھی تھے، جن کی سفارش پر ہمیں شریف شہریوں کی قطار میں جگہ بھی مل گئی تھی۔لیکن بھٹو شہزادے کو بھی شاید یہ معلوم ہو گیا تھا کہ شریف شہریوں میں کچھ عام لوگ بھی گھس آئے ہیں،وہ قنات توڑ کر اسٹیج پر پہنچ گئے تھے۔

(جاری ہے)

یہ 1971/72 کا واقعہ ہے۔میں قبر پرست نہیں ہوں،بھٹو شہید کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی کچھ نامی گرامی لٹیروں کے چنگل میں پھنس چکی ہے۔لیکن اللہ سبحان و تعالیٰ اپنی مخلوق کے ساتھ بخل نہیں کرتے،اللہ نے بھٹو شہید کی کمی عمران خان سے پوری کر دی ہوئی ہے۔جن میں اچھائیاں زیادہ اور برائیاں کم ہیں۔سب سے اہم بات یہ کہ اس وقت سیاست کے میدان میں جو لیڈر ہیں، ان میں وہ سب سے اچھے اور قوم و ملت کے ہمدرد لیڈر ہیں اور جیسے کہ میں پہلے بھی کئی بار لکھ چکا ہوں۔ میری پارٹی میرا پاکستان اور پاکستان کے غریب لوگ ہیں اور جو پاکستان اور پاکستان کے غریب عوام کا ہمدرد ہے وہی میرا لیڈر ہے۔
عمران خان کا یہ جملہ کہ ”میں الیکشن تو قبول کرتا ہوں،لیکن دھاندلی کو قبول نہیں کرتا۔“ بڑا ہی سیدھا سادا اور عام فہم سا جملہ ہے۔ اقبال # یا غالب # کے کسی مشکل شعر کی طرح نہیں ہے کہ جسے سمجھنے کے لئے کسی سخن فہم استاد کی طرف رجوع کرنا پڑے، سمجھنا چاہئے تو اس جملے کو ایک بچہ بھی سمجھ سکتا ہے،عمران خان کے اس جملے کی تشریح کچھ اس طرح بنتی ہے کہ میں ملک کے حالات کے پیش نظر کوئی لمبا چوڑا پھڈا کھڑا کرکے ،نئے الیکشن کا مطالبہ کرنے کے بجائے، الیکشن تو قبول کر لیتا ہوں اور آپ کی حکومت کو بھی مان لیتا ہوں،لیکن دھاندلی کو قبول نہیں کروں گا۔جو لوگ دھاندلی کا سبب بنے ہیں ، جن لوگوں نے الیکشن کی شفافیت میں گند گھو لا ہے ، جن لوگوں نے ایک سے زیادہ انگوٹھے لگائے ہیں ، انہیں سزا ضرور ملنی چاہیے تا کہ جمہوریت کی بنیادیں مضبوط ہو سکیں اور عمران خان یہ مطالبہ روز ِ اول سے کر رہے ہیں اور اپنا مطالبہ پورا نہ ہونے کی صورت میں سڑکوں پر نکلنے کی دھمکیاں بھی مدت دراز سے دیتے چلے آ رہے ہیں۔ اُن کے ایسے کئی انٹر ویو موجود ہیں۔جن میں ٹی۔وی ٹالک شوز کے اینکر پرسنز نے ان سے پوچھا ہے کہ آپ سڑکوں پر کب نکلیں گے؟ لیکن جیسا کہ عمران خان کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ صاف ستھرے کھیل پر ایمان رکھنے ولے کھلاڑی ہیں،انہوں نے پاکستان کی کسی گندے اور متعفن جوہڑ جیسی سیاست میں بھی خود کو سب سے الگ تھلگ رکھا ہوا ہے۔ایک صاف ستھرے با اصول اور با ہمت سیاستدان کی طرح سب سے پہلے انہوں نے آئین ِ پاکستان کے سبھی تقاضوں کو پورا کیا ہے۔ عدلیہ اور الیکشن کمیشن یہاں تک کہ پارلیمنٹ میں بھی، الغرض عد ل و انصاف کے سبھی اداروں کے پاس گئے ہیں۔یہ لکھتے ہوئے شرم آتی ہے کہ عدل و انصاف کے محافظ سبھی اداروں اور ان میں بیٹھے ہوئے پتھر کے نا خداوٴں سے سر پھوڑنے کے بعد سڑکوں پر نکلے ہیں۔اب اُن پر یہ الزام کہ انہوں نے کسی کے اشارے پر اچانک ہی یہ رخ اختیار کر لیا ہے۔ایک انتہائی شرمناک اور لغو الزام ہے۔
الغرض اب اُن کے مخالفوں کے جتنے مُنہ ہیں ، اُس سے کہیں زیادہ بے سرو پا باتیں سننے کو مل رہی ہیں۔
خیر جیو گروپ کے اخبار جنگ کی بات تو سمجھ میں آتی ہے۔ شکیل الرحمن بے چارے سر بازار ننگا ہونے کے غصے میں جھنجلا گئے ہیں اور خود پر مبشر لقمان کی لگائی گئی انتہائی ملک دشمن اور گھناونی تہمتوں کا غصہ عمران خان پر نکال رہے ہیں۔ان کا کوئی جیالا قلمکار ”ٹی 20دھرنا “ کے عنوان سے لکھ کر عمران خان کی کردار کشی کرنے کی کوشش میں ایسی ’ڈھکی چھپی‘ معلومات ، ڈھکی چھپی اس لئے کہ کسی شہرت یافتہ شخصیت کے بارے میں جو معلومات ساری دنیا سے الگ تھلگ ہوں ، انہیں ’ ڈھکی چھپی ‘ معلومات ہی کہا جا سکتا ہے ، فراہم کر کے ننگا ہو رہا ہے۔”ٹی۔20دھرنا “ میں صرف ایک سچی بات لکھی گئی ہے اور وہ ہے جاوید میاں داد کی تیسری سنچری کا قصہ،جسے کرکٹ کے رموز سے نا آشنا لوگ عمران خان کے خلاف بہت اچھالتے ہیں۔لیکن جو کرکٹ کو سمجھتے ہیں، اُن کا کہنا ہے کہ عمران خان کا وہ اقدام ٹیم کی جیت کے لئے بہت ضروری تھا ، ورنہ میچ ڈرّا بھی ہو سکتا تھااور عمران خان نے ہمیشہ اپنے لئے کھیلنے کے مقابلے میں ، ٹیم کے لئے کھیلنے کو فوقیت دی ہے۔اس ایک واقعہ کے علاوہ باقی سب آئیں بائیں باتیں ہیں۔لیکن اب عمران خان کی کردار کشی کی مہم میں جنگ اخبار میں اسی معیار کے کالم شائع ہوا کریں گے۔جیسا کہ ایک دوسرے قلمکار نے’ ریلی‘ کو ریلا لکھ کر ، نہ صرف عمران خان کا مذاق اڑیا ہے، عمران خان کے لئے شاید پہلی بار پاکستان کی جو الیٹ کلاس موسم سے بچاوٴ کے لئے کالے چشمے پہنے اور ہاتھ میں پانی کی بوتلیں پکڑے ووٹ ڈالنے نکلی تھی،ان کا مذاق بھی اڑا یا ہے، مجھے ان سے یہ افسوس ضرور ہے کہ وہ ایک بڑے لکھنے والے ہیں،ساری دنیا الیکشن میں جس شرمناک دھاندلی کا رونا رو رہی ہے،اُس دھاندلی کا انہوں نے ذکر تک نہیں کیا،کسی اونچی قد و قامت کے ادیب کو دنیا کی ساری آسائشوں پر لعنت بھیجتے ہوئے ہمیشہ سچ لکھنا اور سچائی کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے ۔
کرو کج جبیں پہ سر کفن مرے قاتلوں کو گماں نہ ہو

کہ غرور عشق کا بانکپن پسِ مرگ ہم نے بھلادیا
جو رُکے تو کو ہ ِ گراں تھے ہم ،جو چلے تو جاں سے گزر گئے ۰ رہِ یار ہم نے قدم قدم تجھے یاد گار اللہ نے جنہیں قلم سے گلشن سجانے کی طاقت سے نوازا ہے۔اُن کے لئے اپنے پڑھنے اور پیار کرنے والوں کے لئے اپنی کوئی عزت مندانہ یاد چھوڑ جانا بھی ضروری ہوتا ہے۔
بہر کیف،’لگے رہو منا بھائی ‘ ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں۔
رہا جیو گروپ تو، ساحر# کی نظم ” کسی کو اداس دیکھ کر “ سے ایک شعر جیو گروپ کی نذر کرنے سے پہلے ، شعر کو اپنے مطلب کے سانچے میں ڈھالنے کے لئے ساحر# کی روح سے معذرت۔
چھپا چھپا کر اپنی خموشی میں اپنے جرائم

خود اپنے راز کی تشہیر بن گئے ہو تم
جیو گروپ کے لئے میرا دوستانہ مشورہ یہی ہے کہ اللہ کی لاٹھی سے ڈرو۔جب پڑتی ہے تو سمجھ ہی نہیں آتی کہ کس طرف سے آئی ہے۔
موجودہ حکومت نے بھی اپنی شرمناک دھاندلی پر شرمندہ ہونے کے بجائے اپنی ڈھٹائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی توپوں کا رخ عمران خان کی طرف کر دیا ہے اور جناب سعد رفیق،وفاقی وزیر ریلوے جناب پرویز رشید ، وفاقی وزیر ِ نشریات و اطلاعات ، جنہوں نے دلیل کے ساتھ بات کرنے والوں کے ساتھ کھڑا ہونے کا اعلان کرتے ہوئے غلیل والوں کو یہ پیغام دے کر کہ ہم دلیل کے ساتھ بات کرنے والوں کے ساتھ کھڑے ہیں، قوم کے ایک دفاعی ادارے کو بھی نہیں بخشا تھا، اور پنجاب کے وزیر قانون جناب ثنا اللہ ۔ تینوں میاں برادران کے وہ دفاعی مورچے ہیں جو ہوا کے کسی گرم جھونکے کو بھی میاں بردران کی طرف بڑھنے نہیں دیتے۔تینوں ہوا پر بھی اپنے مزاحیہ جملے پھینکنے لگتے ہیں۔جن کے لطیفوں کا تو کوئی شمار ہی نہیں ہے، لیکن ایک تازہ تریں لطیفہ بے محل نہیں ہو گا۔ قارئین کرام ! آپ ہی انصاف کریں کہ یہ لطیفہ نہیں تو اور کیا ہے کہ جناب سعد رفیق فرماتے ہیں۔” بہت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ پاکستانیو ں کی خوشحالی اور پاکستان کا استحکام چند لوگوں کو پسند نہیں ہے اور اُس ٹولے کی قیادت بد قسمتی سے نو آموز لیڈرجناب عمران خان کر رہے ہیں، اللہ پاکستانیوں کو اُن کے سونامی سے محفوظ رکھے ۔ “جناب سعد رفیق نے اس بات کی وضاحت نہیں کی کہ وہ کن پاکستانیوں کی خوشحالی کا ذکر کر رہے ہیں ، حکومت میں شریک پاکستانیوں کی خوشحالی ؟ یا عوام الناس کی خوشحالی ؟ اگر ان کا اشارہ عوام الناس کی خوشحالی کی طرف ہے تو پھر وہ نو آموز لیڈر عمران خان کے ایک ہی جلسے سے اتنے بوکھلا کیوں گئے ہیں ؟ عوام کو لیڈروں سے نہیں ، اپنی خوشحالی اور اپنے بچوں کی آسودگی سے پیار ہوتا ہے، آپ کے خوشحال عوام خود ہی عمران خان کے جلسوں میں شریک نہ ہو کر عمران خان کو رد کر دیں گے۔آپ عمران خان کے جلسوں کو اپنے لئے مسئلہ کیوں بنائے ہوئے ہیں ؟ اپنے خوشحال عوام الناس کوخان کے جلسوں میں شرکت کرنے سے روکنے کے لئے پولیس کو کیوں استعمال کر رہے ہیں ؟ آپ لوگوں کو تو اپنی پولیس کی کار گزاری اور عمران خان کی سونامی کے سامنے بند باندھنے والے دوسرے ذرائع پر اتنا اعتماد تھا کہ آپ کے ایک مشہور مسخرے نے شرط باندھ رکھی تھیں کہ تین چار بسوں کی سواریوں سے زیادہ لوگ نہیں پہنچیں گے۔اگر زیادہ لوگ پہنچ گئے تو میں سیاست چھوڑ دوں گا ۔ بعد کی صورت حال دیکھتے ہوئے مجھے ایک پرانا واقعہ یاد آ گیا ہے۔جو میرے بڑے بھائی عبدالقیوم فارانی (مرحوم ) کو اُن کے ایک بہت ہی قریبی دوست سید فخر الدین بلے ( مرحوم ) نے سنایا تھا۔جو پنجاب گورنمنٹ کی وزارت اطلاعات و نشریات میں تھے۔” جنرل محمد ایوب خان ( مرحوم ) کے اختتامی دور کے دن تھے،وہ پشاور گورنر ہاوٴس میں تھے اوردور سے کچھ لوگوں کے نعروں کی آوازیں آ رہی تھیں۔ایوب خان (مرحوم ) نے اپنے انفارمیشن منسٹر سے پوچھا ۔” یہ آوازیں کیسی آ رہی ہیں ؟“
انفارمیشن منسٹر نے جواب دیا۔” سر ! لوگ آپ کے آنے کی خوشی میں نعرے لگا رہے ہیں۔“ جس طرح ن لیگ کے شرط لگانے والے مسخرے کو یقین تھا کہ پولیس عوام کو قابو کر لے گی اور عمران خان کے جلسے میں پہنچنے نہیں دے گی ، بالکل ایسے ہی ایوب خان کے انفارمیشن منسٹر کو بھی یقین تھا کہ پولیس جنرل محمد ایوب خان کے خلاف نعرے لگانے والوں کو پشاور گورنر ہاوٴس کے قریب نہیں آنے دے گی۔لیکن عوام بپھر جائیں تو پھر انہیں کون روک سکتا ہے ؟تھوڑی ہی دیر کے بعد وہ آوازیں بہت قریب آ گئیں اور ایوب خان کو صاف سنائی دینے لگیں۔’ایوب خان ، مردہ باد‘ ’ ایوب خان ہائے ہائے ‘ جنرل ایوب خان نے غصیلی نظروں سے اپنے انفار میشن منسٹر ( جن کا نام اگر میں غلطی پر نہیں تو کریمانی تھا) کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔”کریمانی !کیا یہی وہ لوگ ہیں، جو میرے آنے کی خوشی میں نعرے لگا رہے تھے ؟“
کریمانی بے چارے سوائے شرمندہ ہونے کے اور کیا کر سکتے تھے؟ جنرل محمدایوب خان کے سامنے اقبال# کا یہ شعر تو پڑھ نہیں سکتے تھے۔
یہ دستور ِ زباں بندی ہے کیسا تیری محفل میں
یہاں تو بات کرنے کو ترستی ہے زباں میری
قارئین، آ مریت کا سب سے زیادہ نقصان یہی ہوتا ہے کہ آمر حقیقتِ حال سے بے خبر رہتا ہے اور آمریت کا بخار صرف فوجی حکمرانوں ہی کو نہیں، ہمارے ہاں تو سول حکمرانوں کو بھی بڑی ہائی ڈگری کا ہوتا ہے۔یہاں تک کہ ان کے ساتھی عوامی لیڈر ، اپنے حکمرانوں پر تنقید کرنے کے بجائے اُن کی بد فعلیوں کے دفاع ہی کو اپنا کام سمجھ لیتے ہیں۔ورنہ اس حقیقت سے کس کو انکار ہو سکتا ہے کہ مئی ۲۰۱۳ ء  کے الیکشن میں بلا کی رگنگ ہوئی ہے۔چیف الیکشن کمشنر اپنی کار گزاری پر انگلیاں اٹھتی دیکھ کر پہلے ہی مستعفی ہو چکے ہیں اور آج کی تازہ تریں خبر کے مطابق ایک صوبائی الیکشن کمشنر بھی مستعفی ہو گئے ہیں۔گویا عمران خان کے سبھی مطالبے سو فیصد درست ہیں۔جنہیں حکومت کے مسخرے اپنے مزاحیہ جملوں سے مسخ نہیں کر سکتے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :