گوادر پورٹ …معاون ممالک کم …مخالف زیادہ

جمعرات 15 مئی 2014

Zubair Ahmad Zaheer

زبیر احمد ظہیر

گوادر پورٹ …پاکستان کے صوبے بلوچستان کی ساحلی پٹی پر واقع ہے ۔اس پورٹ کا تعمیراتی کام بڑی سبک رفتار ی سے جاری ہے ۔اس کے کثیر المقاصد ہمہ جہت فوائد کے باعث مخالفین کی تعداد حمایت کرنے والوں سے کئی گنا بڑ ھ گئی ہے ۔گوادر پورٹ کی تعمیر میں ماٰلی ،فنی اورتکنیکی معاونت چین فراہم کررہا ہے جس کی وجہ سے اس پورٹ کے مخالفین میں امریکا،بھارت ،افغانستان ،بعض خلیجی ریاستیں اور ایک ہمارا پڑوسی ملک شامل ہیں ۔

آخر کیا وجہ ہے کہ دنیا کے بڑے ممالک کے پیٹ میں ایک چھوٹے سے پورٹ سے مروڑ اٹھنے لگی ہے ۔ابکائی آتی ہے ،متلی ہونے کو ہے اورسارا کھایا پیاباہر آنے کے درپیہے ۔
دنیا میں اس وقت ممالک کے مابین نئی تجارتی منڈیوں ،سمندری ،زمینی فاصلوں کی کمی ،سستی تجارت پر سرد جنگ زوروں پر ہے ۔

(جاری ہے)

دنیا کے کاروبار پر چین کی مصنوعات کی اجارہ داری قائم ہے ۔

چین دنیا بھر کے مقابلے میں سستے خام مال کی وجہ سے مصنوعات کی پیدوار کا بڑ امرکز بن چکا ہے ۔اس امر کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے دنیا کی پچاس بڑی اور مصروف ترین بندر گاہوں میں سے 12 چین کی حدود میں ہیں اور دنیا کی سب سے مصروف ترین بندرگاہ…چین کا شنگھائی پورٹ ہے ۔چین کییہ تمام 12 بندرگاہیں مشرقی چین میں واقع ہیں ۔جہاں سے عالمی بحری تجارت اور بالخصوص تیل کی ترسیل کے روٹ تک رسائی کے لیے ہزاروں میل کا فاصلہ بحری جہازوں کو ماپنا ہوتا ہے ۔

چین اس فاصلے کو کم کرکے اپنے مزیدپیداواری اخراجات گھٹانا چاہتاہے ۔چین کے مغربی علاقوں میں کوئی سمندر نہیں ۔اور گوادر پورٹ چین کے مغربی علاقوں تک رسائی کا واحد راستہ ہے ۔شنگھائی سے تیل کی ترسیل کے روٹ تک کا فاصلہ 16ہزار کلومیٹر ہے ۔جبکہ کاشغر سنکیانگ سے گوادر تک کا یہ فاصلہ تین ہزار کلو میٹر ہے ریل کی سیدھی مسافت پر یہ فاصلہ 5ہزار کلو میٹر تک ہوگا ۔

شنگھائی سمیت دیگر 12 چینی بندرگاہوں کے مقابلے میں کاشغرتا گوادر روٹ سے 16ہزار کلومیٹرکا فاصلہ کم ہو کر محض 3ہزار تا 5ہزار رہ جائے گا ۔چین ،پاکستان اس سہولت سے فائدہ اٹھانے کے لیے کاشغر تا گوادر ایک اقتصادی راہداری بنانے کے منصوبے پر عمل پیرا ہیں اس مقصد کے لیے چین نے پاکستان کو شاہراہ قراقرم کو گودار تک پھیلانے کے لیے مالی معاونت بھی شر وع کردی ہے ۔

کاشغر تاگوادر یہ راہداری شاہراہ قراقرم گلگت ،سوات ،ابیٹ آباد،ڈیرہ اسماعیل خان ،انڈس ہائے وے ،مکران کوسٹل ہائے وے کے ذریعے گوادر سے جڑ جائے گی۔
چین اپنے تیل کی مجموعی ضرورت کا 60فیصد خلیجی ممالک اور ایران سے حاصل کرتا ہے ۔اس لیے چین کو کم سے کم سمندری اورکم سے کم زمینی فاصلے کی ضرورت ہے ۔گوادر پورٹ چین کی اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے نہایت اہم روٹ ہے ۔

اس لیے چین گوادر میں دل کھول کر سرمایہ کاری کررہا ہے ۔چین کے خلیجی ریاستوں ،امریکی بحری بیڑے کے نزدیک سے نزدیک آنے کی سوچ سے بھی کئی ممالک خصوصا امریکا ،بھارت کے پیٹ میں مروڑ اٹھتی ہے ۔گودار بندر گاہ کے فعال ہوجانے سے دبئی پورٹ اور ایران کی بندر عباس کی پہلے جیسے اہمیت نہیں رہے گی اس لیے ایران اور بعض خلیجی ممالک کی ریاستوں کو بھی تشویش لاحق ہے ۔

تشویش کی دوسری بڑی وجہ گوادر پورٹ کے توسط سے پاکستان کی رسائی وسط ایشیائی ریاستوں تک ہوجائے گی ۔ان میں افغانستان ،ترکمانستان ،تاجکستان ،کرغیزستان ،قازقستان ،ازبکستان شامل ہیں ان ریاستوں کی مجموعی آبادی نوکروڑ75لاکھ29ہزار نفوس سے متجاوز ہے ۔اور کاروباری لحاظ سے یہ بہت بڑی اور نئی منڈی ہے ۔اس نئی منڈی تک رسائی کے لیے بھارت کے منہ میں پانی آگیا ہے اور اس نے ایران کی چاہ بہار بندر گاہ پر سرمایہ کاری پرتوجہ مرکوز کر لی ہے ۔

چاہ بہار گوادر سے 72کلو میٹر دور ایرانی شہری زارنجی سے متصل ہے جس کی سرحدیں افغان صوبے نمروز سے جا ملتی ہیں۔ چار بہار سے افغانستان اور وسط ایشیائی ریاستوں کا کوریڈور (تجارتی راستہ )بنانے میں بھارت سرگرم ہے ۔اس نئی بندرگاہ پر بھارت نے 1999ء سے نظریں گاڑھ رکھی ہیں ۔گوادر سے وسط ایشیائی ریاستوں دریائے آمو کا فاصلہ 14 سو کلو میٹر ہے جبکہ ایرانی چاہ بہار سے فاصلہ 22سو کلومیٹر ہے۔

یو ں فاصلہ زیادہ ہونے کی وجہ سے بھار ت کا یہ منصوبہ کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوسکتا ۔تجارت میں کم اخراجات اور کم فاصلے کو ترجیح دی جاتی ہے ۔چین نے چاہ بہار کی تعمیر کے لیے بھارت کے مقابلے میں بڑی پیشکش کرکے ایران کو مخمصے میں ڈال دیا ہے جس کی وجہ سے بھارت کا یہ منصوبہ بھی ناکام ہونے کے قریب ہے ۔
گوادر میں مستقبل کے کثیر المقاصد اور ہمہ جہت منصوبوں ،تیل کی تجارتی گزرگاہ (آبنائے ہرمز )کی قربت ،چین کے عمل دخل ،اور وسط ایشیائی ریاستوں تک رسائی کے معاملے نے اس نئی بندر گاہ کے مخالفین کی نیندیں حرام کر دی ہیں۔

افغانستان میں خطرناک جنگ کے باعث بلوچستان میں بارہ ممالک کی خفیہ ایجنسیوں نے اپنا جال پھیلا رکھا ہے ۔مگر گوادر منصوبے نے پانچ ممالک کی خفیہ ایجنسیوں کو باقاعدہ گٹھ جوڑ پر مجبور کردیا ہے ۔میڈیا رپورٹوں کے مطابق اس گٹھ جوڑ کی میزبانی کے فرائض انڈیا کی خفیہ ایجنسی ”را “نے اپنے ہیڈکواٹر نئی دہلی میں انجام دیے ہیں ۔امریکا کی سی آئی اے ،افغان ”خاد“کی جدید شکل این پی ایس ،انڈیا کی ”را“اور اسرائیل کی موساد اور ایک پڑوسی ملک کی انٹیلی جنس ایجنسیوں نے جن امور پر اشتراک عمل کا عہدوپیمان کیا ہے ان میں دیگرامور کے علاوہ بطور خاص گوادر منصوبے کو ناکام کرنا بھی شامل ہے ۔

اسرائیل کی موساد تکنیکی اور مالی معاونت کی ذمہ دار ہے ۔پاکستان کی خفیہ ایجنسیاں اور بالخصوص کاونٹر انٹیلی جنس( جوابی جاسوسی )کے ذمہ دارے ادارے ان سازشوں سے مکمل باخبر ہیں ۔ اوائل اپریل میں قلات، بلوچستان کے پہاڑی سلسلوں میں ایک خفیہ آپریشن کے دوران ”را“ کا ایک بڑ انیٹ ورک پکڑا گیا ہے۔ اس آپریشن میں 40غیر ملکی اور علیحدیگی پسند تخریب کار مارے گئے ۔

جنہوں نے پہاڑوں کی غار وں میں جدید مواصلاتی آلات فٹ کررکھے تھے ۔یہ آلات افغانستان اوربھارت سے رابطے میں تھے ۔قلات آپریشن میں علیحدیگی پسندوں کے قبضے سے گوادر منصوبے سے متعلق شواہدبھی ملے ہیں۔ ۔امریکی ایماء پرامریکا اور خلیجی ممالک میں پناہ گزین بلوچ علیحدیگی پسندوں نے گوادر پورٹ کی مخالفت میں آسمان سر پر اٹھالیا ہے ۔امریکا میں موجوامریکن فرینڈز آف بلوچستان نامی ایک نام نہاد تنظیم کے بارے میں اطلاعات ہیں کہ اس نے عمان کے سلطان قابوس کو خط لکھا ہے جس میں گوادر کو واپس لینے کی التجا ء کئی گئی ہے ۔

بھارت اور امریکا اس منصوبے پر کافی عرصے سے کام کررہے ہیں ۔1999میں بھی امریکا کی ایک سازش میں آکر عمان کے سلطان قابوس نے پاکستان سے گوادرواپس خریدنے کی بات کی تھی جسے پاکستان کی حکومت نے پزیرائی نہیں دی ۔اس سازش کا پس منظر یہ ہے کہ گوادر 1958 ء سے قبل عمان کا حصہ تھا ۔پہلی بار عمان کے سلطان نے خان آف قلات کی کسی خاتون کو جہیز میں دیا تھا ۔

جس کی دفاعی اہمیت کو دیکھ کر پاکستان نے باقاعدہ طور پر1958 میں عمان سے خرید لیا ۔اس پس منظر سے سازش نے جنم لیا مگر یہ سازش بھی ناکام ہوگئی ۔سلطان قابوس سے پاکستان کے خوشگوار تعلقات ہیں ۔1999کے بعد سلطان قابوس نے خریدداری کی دوبارہ بات نہیں کی ۔
گوادروپورٹ کا فیز 1 جلدہی قابل استعمال ہوجائے گا۔اور فری پورٹ بن جانے کے بعد اس کی اہمیت کو چار چاند لگ جائیں گے ۔

چین موجودہ دور کا اقتصادی سپر پاور ہے ۔اور مستقبل میں اس کا اقتصادی حجم مزید بڑھ جائے گا۔گوادر پورٹ فعال ہوجانے سے 2لاکھ افراد کو روزگار کے مواقع میسرا ٓئیں گے ۔گوادر پورٹ کے منصوبوں نے کوزے میں دریا سمو دیا ہے ۔کاروبار میں سپر اسٹور کے نظریے کے تحت ایک چھت تلے تمام بحری کاروباری فضائی ،زمینی رابطہ سڑکوں اور ریل پٹریوں کی سہولتیں دنیا کو میسرآئیں گی ۔پاکستان کے اس عظیم الشان منصوبے سے امریکا ،بھارت ،افغانستان اور پڑوسی ممالک کے پیٹ میں مروڑ اٹھنا کم ہے ۔مکمل بدہضمی کا خطرہ زیادہ ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :