زہر

منگل 13 مئی 2014

Sabookh Syed

سبوخ سید

میں تو اس وقت جیو نیوز کے لیے مفت کام کرنا بھی اپنے لیے سعادت سمجھتا ہوں ۔ میرا نسب نامہ محفوظ ہے الحمد اللہ ،،،، بے
غیرت ہونے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ مشکل وقت میں چھوڑ جائے ۔ ہمیں تو اپنی ایک ہی ادا پر ناز ہے کہ ہمیں وفا کرنے آتی ہے ۔
ہو سکتا ہے کہ کل جیو والے ہمیں تین طلاقوں کا کاغذ پکڑا دیں لیکن شاید انہیں بھی نہیں معلوم ہو گا کہ ہم جیو میں نوکری نہیں کر تے ۔

میں نے 2010 کا پورا سال استعفیٰ اپنے جیب میں رکھے رکھا ۔ یار ہمیں خوب جانتے ہیں ۔ نوکری کا خوف انہیں ہونا چاہیے جو نوکری کرنے کے لیے پیدا ہوئے ہیں ہم تو مست ملنگ فقیر ہیں ۔
جیو پر خود جیو میں بھی بہت تنقید ہو تی رہتی ہے ۔ لوگ جیو میں بڑی آزادی کے ساتھ اپنے خیالات کا اظہار کر تے ہیں ۔

(جاری ہے)

اور جیو کا اصل حسن یہی ہے کہ یہاں تنقید کو صرف برادشت ہی نہیں بلکہ قبول بھی کیا جاتا ہے ۔

جیو کی ترقی کا راز بھی اسی میں مضمر ہے ۔ کچھ لوگ زیادہ پیسے بنانے کے چکروں میں جیو چھوڑ کر چلے گئے تھے لیکن انہیں وہاں وہ ماحول نہیں ملا تو پھر کہیں ٹھہر بھی نہیں سکے ۔ ایک ہزار اختلاف کے باوجود بھی شاید آپ کو جیو جیسا ماحول کہیں صحافتی ادارے میں کم ہی ملے ۔
میں اس ریاست پر ،فوج پر ،عدلیہ پر ،حکومت پر ،پولیس پر تعلیم اور صحت سمیت تمام اداروں پر جھوٹے الزام لگانے والوں پر لعنت بھیجتا ہوں لیکن اگر یہ ادارے مجھ سے ٹیکس لینے کے باوجود مجھے جان ومال و املاک کا تحفظ ،،،، تعلیم ،صحت ،روزگار ،روٹی کپڑا اور مکان ،بجلی ،پینے کا صاف پانی نہیں دے سکتے تو آپ مجھے بتائیں کہ مجھے کیا کرنا چاہیے ۔

۔ ۔ ۔ پنجابی میں کہتے ہیں کہ ”سچ آکھاں تے بھانبڑ مچدا“
باقی رہا یہ کہنا کہ جیو غدار ہے یا حامد میر کی مخالفت ،،،، میں حامد میر صاحب کو گذشتہ دس برسوں سے جانتا ہوں اور میں رات کے اس پہر اللہ کی ذات کو گواہ بنا کر یہ شہادت حق دیتا ہوں کہ وہ پاکستان سے محبت سیاچن کی برف پوش پہاڑیوں پر کھڑے سپاہی کی طرح کر تے ہیں ۔ میں ان کے ذاتی خیالات جانتا ہوں ۔

قصور صرف اتنا ہے کہ وہ پاکستان میں قانون کی حکمرانی چاہتے ہیں اور جو طبقے قانون کی حکمرانی کے مخالف ہیں ،وہ ان کے دشمن بن گئے ۔ مجھے ایک بات کا جواب دے دیں ،کیا حامد میر صاحب کے الزام لگانے سے پاکستان بد نام ہوا ہے یا کرپشن ،لسانیت ،صوبائیت ،فرقہ واریت، قانون کی حکمرانی کے نہ ہونے سے ؟؟؟؟
آخر کیا وجہ ہے کہ تقریبا ایک ماہ گذرنے کے باجود بھی میر صاحب کا الزام اپنی جگہ کھڑا ہے ۔


آپ نے اسے ابھی تک پکڑا کیوں نہیں ؟؟؟؟
بتاتے کیوں نہیں کہ کس نے مارا تھا ؟؟؟
آپ اسے سزا کیوں نہیں دیتے ؟؟؟
حامد میر صاحب نے الزام نہیں لگایا بھائی
انہوں نے کہا ہے کہ
اگر میں قتل کر دیا گیا تو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
غور کرو زرا
قتل ،،،جس کا معنیٰ ہوتا کہ مر جانا
قتل ۔ ۔ ۔ جس کا معنیٰ ہوتا ہے قبر کی پاتال میں گم ہو جانا
قتل ۔

۔ ۔ جس کا معنیٰ ہوتا ہے بیوی کو بیوہ کر دینا
قتل ۔ ۔ ۔ جس کا معنیٰ ہوتا ہے بچوں کو یتیم کر دینا
قتل ۔ ۔ ۔ جس کا معنیٰ ہوتا ہے بھائیوں کے سر سے سایے کا اٹھ جانا
یہ الزام نہیں تھا
بیان نزعی تھا ۔ ۔ ۔ ۔
اس کی پوری تحقیق ہونی چاہیے تھی ۔
لیکن پورے ملک میں چھوٹے قد کے جتنے بونے تھے ،ایڑھی والے جوتے پہن کر سڑکوں پر اچھلنا شروع ہو گئے ۔

عرصے بعد دیکھا کہ غداری کے سرٹیفکیت اور تکفیر کے فتوے بانٹنے والے ایک جگہ ہو گئے ۔
کیا اس سے پاکستان بدنام نہیں ہوا کہ جن جماعتوں کو ایک فوجی آمر کے دور میں ”کالعدم “ قرار دیا گیا تھا (میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ ان جماعتوں کو بننے نہیں دینا چاہیے تھا ،لیکن اگر بن گئی تھیں تو پھر کالعدم کرنے کے بجائے ان کاے کردار کو مثبت رخ دینا ضروری تھا )وہ فوج اور آئی ایس آئی کے حق میں ننھی منی مظاہریاں کرکے فوج اور آئی ایس آئی کو عالمی سطح پر بدنام کرنے کا سبب بن رہی ہیں ۔

؟؟؟
دوسرا اگر یہ جماعتیں اتنی محب وطن ہیں تو ان کو کالعدم کیوں قرار دیا ہوا ہے ؟؟؟
تیسرا ان محب وطن جماعتوں پر پابندی لگانے والا پھر غدار ہو گا اور اسی کا راستہ ہموار کر نے کے لیے سارا کھیل کھیلا گیا ہے کیا ؟؟؟
حامد میر کے خون میں پتا نہیں کیا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
میں نے کئی چہروں پر ملا ہو دیکھا ۔ وہ خوف کے مارے بار بار ٹشو سے اپنے چہرے صاف کر تے اور ٹشو کو دیکھ کر مطمئن ہو جاتے ۔

لیکن خوفزدہ اہل پاکستان ان چہروں میں اپنے قاتل ڈھونڈ رہے ہیں ۔ اپنے مستقبل کے قاتل ،،، اپنے فاقوں کے قاتل ،،،،، اپنے بچوں کے قاتل ،،،،،،
حامد میر کے خون نے ایک لکیر کھینچ دی ۔ لکیر کے ایک طرف غدار کا الزام لگانے والے ہیں اور دوسری جانب اس الزام کا دفاع کرنے والے ۔
ہر شریف آدمی اپنا دفاع کرتا ہے ۔
کبھی چپ رہ کر ،
کبھی زہر پی کر اور کبھی سولی پر چڑھ کر ۔


مریم کے دامن پر الزام لگا تو پالنے والا چیخ اٹھا تھا
عائشہ کے دامن پر داغ لگانے کی کوشش کی گئی تو عرش پہ زلزلہ آ گیا تھا ۔
دفاع کیا جاتا ہے ،دفاع کا حق نہیں مانگا جاتا ۔
اپنی جانوں پر کھیل کر دفاع
جیسے سپاہی مورچے پر کھڑا ہو کر دفاع کر تا ہے ۔
تم شور مچا کر سسکیوں کو دبا سکتے ہو لیکن ضروری نہیں صبح جلدی اٹھنے کی عادت سے مشرق سے نکلتا ہوا سچائی کا سورج بھی دیکھ سکو ۔


تم اپنی انگشت اپنی آنکھ کے سامنے رکھ کر آنکھ کی پتلی کو سورج کی روشنی سے چھپا سکتے ہو لیکن سورج کو اپنی انگلی سے نہیں چھپا سکتے ۔
کاش کسی روز تمھارے گھر کے آنگن میں حیا کا سورج طلوع ہو ۔
ایک بات کر نا بھول گیا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
جاتے ہوئے تاریخ کے روشن دان سے زرا جھانک کر دیکھنا،،،، (ویسے بھی تمھیں تانکنے جھانکنے کی عادت ہے )۔

۔ ۔ تمھیں وہ سارے ملیں گے جن کا ذکر تم اپنے بچوں کے سامنے کر تے ہوئے اپنے انسان ہونے پر فخر کر تے ہو۔ لیکن اس دور کے انسانوں نے انہیں غدار کہہ کر قبر کی پاتال میں گم کر دیا تھا ۔
تاریخ بتاتی ہے کہ اس طرح کے تابوت ہمیشہ بنائے گئے لیکن بنانے والوں کی اولادوں نے اپنے ان بزرگوں پر لعنت بھیج کر تابوت والے کی قبر پر رحمة اللہ علیہ کی تختی لگائی اور انہیں اپنا ہیرو قرار دیا ۔


آپ کو تابوت بنانے والے ،دفنانے والے اور قبرستانوں کو آباد کرنے والے گلی گلی ملیں گے لیکن جینے کا سبق دینے والے ،جینے کا حوصلہ پیدا کر نے والے ۔ ۔ ۔ جیو اور جینے دو کا نعرہ لگانے والے نہیں ملیں گے ۔ آج گالی دے دو ،کل گالی نہ بنے تو تب کہنا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
جن پتھروں کو ہم نے عطا کی تھیں دھڑکنیں
جب بولنے لگے تو ہم ہی پر برس پڑے

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :