پولیو کی کہانی !

منگل 13 مئی 2014

Muhammad Irfan Nadeem

محمد عرفان ندیم

یہ دو سال پہلے کا واقعہ ہے ۔ آصف علی زرداری پاکستان کے صدر تھے اور یوسف رضا گیلانی وزیر اعظم،صدر صاحب اپنی فوج ظفر موج سے ساتھ چین کے دورے پر روانہ ہو ئے ،چینی حکومت نے پاکستانی صدر کو فل پروٹوکول دیا ،انہیں چین کے اعلی سرکار ی اور غیر سرکاری اداروں کا وزٹ کروایا اور انہیں پاکستان کی مکمل حمایت کا یقین دلاتے رہے ۔صدر صاحب نے چین کی مختلف یونیورسٹیوں میں لیکچر دیا اور اعلی چینی حکام سے گفتگو کی ۔

اعلی قیادت سے ہٹ کروفود کی سطح پر بھی میٹنگز ہوئیں ،ایکسپورٹ امپورٹ کے معاہدے ہوئی ،باہمی تعان کی یادداشتوں پر دستخط ہوئے ،چین نے پاکستان کو ”بیسٹ فرینڈ“ڈکلیئر کیا اور جنوبی ایشیا میں امریکہ کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ پر تبادلہء خیال ہوا ۔

(جاری ہے)

آخر میں چینی انتظامیہ نے اپنے ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ کے ساتھ پا کستانی صدر کی ملاقات کا انتظام کیا ۔

صدر زرداری تشریف لائے ،ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ کا ایک آفیسر آگے بڑھا ،اس نے ایک لسٹ اٹھائی اور آصف علی زرداری کے سامنے رکھ دی ،آصف علی زرداری نے لسٹ پر نظر دوڑائی اوراس کے ساتھ ہی ان کا سر جھک گیا ،اس لسٹ میں ان چینی افراد کے نام درج تھے جو پاکستان سے آنے والے پولیو وائرس سے متاثر ہو ئے تھے اور آئندہ ہمیشہ کے لیئے معذور ہو گئے تھے ،صدر صاحب نے اپنی مخصوص مسکراہٹ چہرے پر سجائی اور اپنی شرمندگی کو چھپاتے ہو ئے بولے ”میں واپس جا کر اس بیماری کے خلاف جہاد کروں گا اور آئندہ پاکستان سے یہ وائرس کبھی چائنہ نہیں آئے گا “
یہ حقیقت ہے کہ پاکستان میں پولیو کے بارے میں مختلف نقطہٴ نظر کے لو گ موجود ہیں لیکن اس سے بھی بڑی حقیقت یہ ہے کہ پولیو واقعی ایک وائرس ہے جو انسانی جسم کو تباہ اور انسانی ساخت کو معذور کر کے رکھ دیتا ہے ،لہذٰاہمیں اب کھلے دل سے اس حقیقت کا اعتراف کر لینا چایئے۔

پولیو وائرس کی کہانی بڑی عجیب ہے یہ وائرس بچوں میں داخل ہو تا ہے اور انسانی آنتڑیوں میں ڈیرے جما لیتا ہے ،یہ وہاں رہ کر ایکٹو بھی ہو سکتا ہے اور بسا اوقات بغیر ایکٹو ہوئے وہاں اپنی جڑیں مضبو ط کرتا ہے ۔یہ ایک متعدی وائرس ہے ،یہ پاخانے کے راستے باہر نکلتا ہے اور دو طریقوں سے آگے پھیلتا ہے ،اگر فضلہ کھلی فضا میں ہو تو یہ پرندوں ،مکھیوں اور مچھروں کے زریعے آگے پھیلتا ہے ،مثلا کو ئی مکھی یا مچھر کسی فضلے پر آکر بیٹھے گی یہ وائرس اس کی ٹانگوں کے ساتھ چمٹ جائے گا ، وہ مکھی یا مچھر کسی پھل یا کھانے والی چیز پر بیٹھے گی یہ وائرس اس میں منتقل ہو جا ئے گا اور اس زریعے سے انسانی جسم میں داخل ہو جا ئے گا ،اس کے پھیلا وٴ کا دوسرا طریقہ یہ ہے یہ فضلے کے زریعے سیوریج سسٹم میں پہنچتا ہے ،وہ علاقے جہاں سیوریج کا سسٹم ٹھیک نہیں ہو تا وہاں یہ وائرس پانی کے ساتھ کھلی گلیوں میں آ جاتا ہے۔

فرض کریں بچے گلی میں کھیل رہے ہیں ،ان کی گیند سیوریج کے پانی میں چلی جاتی ہے ،بچہ بھاگتا ہوا جاتا ہے اور اس پانی میں ہاتھ ڈالتا ہے ،جیسے ہی بچہ پانی میں ہاتھ ڈالتا ہے پولیو کا وائرس اس کے ہاتھ کے ساتھ چمٹ جاتا ہے اور اس زریعے سے یہ وائرس آگے پھیل جا تا ہے ۔پھر جب یہ وائرس انسانی آنتڑیوں میں داخل ہو تا ہے تو تین سے چار ہفتوں کے اندر بچے پر اٹیک کرتا ہے ،اس کی علا مات یہ ہیں کہ پہلے پہل بچے کو بخار ہوتا ہے تین چار ہفتے کے بخار میں بچے کے پٹھے اکڑ جاتے ہیں ،جب بخار ختم ہو تا ہے تو اس کے ایک یا ڈیڑھ ہفتہ بعد ہاتھ ،پاوٴں یا جسم کا کو ئی اور عضو ضائع ہو جا تا ہے ۔

پولیو وائرس کے متحرک ہو نے کی عمر پانچ سال تک ہو تی ہے ،اگرچہ یہ اس کے بعد بھی متحرک ہو سکتا ہے لیکن ا س وقت تک بچے کی قوت مدافعت انتی تیز ہو چکی ہو تی ہے کہ بچہ پولیو وائرس سے محفوظ رہتا ہے ۔
اب ہم آتے ہیں ان تھیوریز کی طرف جو پولیو کے بارے میں ہمارے معاشرے میں پائی جاتی ہیں ،پولیو کے بارے میں ہمارے ہاں سب سے مقبول تھیوری یہ پائی جاتی ہے کہ” آخر مغرب ہمارے ساتھ ہی اتنا مہربان کیوں ہے وہ اپنے ملکوں میں بچوں کو یہ قطرے کیوں نہیں پلاتا “پہلی بات تو یہ ہے کہ ان لوگو نے اپنے ملکوں سے یہ وائرس بہت پہلے ختم کر دیا ہے حتیٰ کہ امریکہ میں یہ وائرس 1970میں ختم ہو گیا تھا اور اس کے بعد آج تک امریکہ میں پولیو کا کو ئی کیس سامنے نہیں آیا ،دو ،مغرب یہ قطرے صرف پاکستان میں نہیں بلکہ دنیا کے ان تمام ممالک میں پلا رہا ہے جہاں جہاں یہ وائرس پا یا جاتا ہے اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ ان لوگوں کو یہ خوف کھائے جا رہا ہے کہ ہم نے اتنی محنت ،اتنے عرصے اور اتنی مشکل سے یہ وائرس ختم کیا ہے اور اب دنیا کے صرف تین ملک ہیں جہاں یہ وائرس باقی ہے ان میں پاکستان ،افغانستان اور نائجیریا شامل ہیں انہیں اس بات خوف ہے کہ اگر یہ وائرس مکمل طور پر اس دنیا سے ختم نہ کیا گیا تو یہ دوبارہ ایکٹو ہوجائے گا ،یہ وائرس دوبارہ ان ملکوں میں آجائے گااور ان کی محنت رائیگاں جا ئے گی ،یہی وجہ ہے کہ حال ہی میں اقوام متحدہ نے پاکستانیوں کے بیرون ملک سفر کے لئے پولیو فری سرٹیفیکیٹ لا زمی قرار دیا ہے ۔

تین ِ،یہ بات غلط ہے کہ پولیو کے لئے سار افنڈ مغرب فراہم کرتا ہے ،جہاں تک اقوام متحدہ کے رفاہی اداروں کا تعلق ہے وہ اپنے رکن ممالک سے فنڈ اکٹھا کرتے ہیں اور اس فنڈ کو غریب اور پسماندہ ممالک میں خرچ کیا جاتا ہے ،یورپ کے بڑے بڑے سرمایہ دار بھی اپنی رقم کا مخصو ص حصہ پسماندہ ممالک کے لئے وقف کرتے ہیں اور شاید آپ یہ با ت سن کر حیران ہوں کہ پولیو کے حالیہ پروگرامزذیادہ تر عرب ممالک اور جاپان کے تعاون سے چل رہے ہیں ۔

حال ہی میں اسلامک ڈویلپمنٹ بینک نے 75ملین ڈالر اس پروگرام کے لئے مختص کیئے ہیں ۔اس کے علا وہ پولیو مہم سے آگہی اور اس کے خاتمے کے لیئے دو انٹرنیشنل اسلامک کانفرنسز بھی ہو چکی ہیں ،پہلی کانفرنس مارچ 2013میں مصر کے دارالحکومت قاہرہ میں اور دوسری اگست 2013میں مکہ مکرمہ میں ہوئی جس میں عالم اسلا م کی مشہور شخصیات نے شرکت کر کے اس کے بار ے میں آگہی حاصل کی اور پولیو کے خاتمے پر اتفاق کیا ،ان کانفرنسز میں پاکستان سے جن سرکردہ شخصیات نے شرکت کی ان میں شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی ،مولانا سمیع الحق ،مولانا مفتی غلا م الرحمان ،مفتی منیب الرحمان اور قاری حنیف جالندھری شامل تھے ۔

ایک اور تھیوری جو ہمارے ہاں پائی جا تی ہے وہ یہ کہ” بیماریاں تو بہت ہیں صرف پولیو پر ہی فوکس کیوں کیا جا تا ہے “ پہلی بات یہ کہ پولیو سے پہلے اس دنیا میں خطرنا ک بیماری چیچک تھی ،گھر گھر مہم کے بعد اس بیماری کا دنیا سے مکمل خاتمہ ہو چکا ہے اب اس کے بعد پو لیو ایسی بیماری ہے جو خطرناک بھی ہے اور ایک محدود خطے تک رہ گئی ہے اس لئے اب ذیادہ فوکس اسی پر ہے تا کہ اس بیماری کو بھی مکمل طور پر دنیا سے ختم کر دیا جائے اور بل گیٹس نے یہ اعلان بھی کر دیا ہے کہ پولیو کے خاتمے کے بعد وہ اس دنیا سے ملیریا کا خاتمہ کریں گے کیوں صرف افریقہ میں دس لا کھ لو گ سالانہ اس بیماری سے مر جاتے ہیں ۔

ایک اور تھیوری جو پولیو کے حوالے سے پیش کی جاتی ہے ”کہ اس کا م کے لئے خواتین کو چنا جا تا ہے اور اس کے ذریعے سے فحاشی پھیلا ئی جا تی ہے “پہلی بات یہ ہے کہ اس پولیو کے خاتمے کے لیئے سو فیصد بچوں تک رسائی ضروری ہو تی ہے اگر ایک بچہ بھی رہ جائے تو پولیو وائرس کا خاتمہ یقینی نہیں رہتا اب اگر یہ کام مردوں کے ذمے لگا یا جائے تو اس کے سو فیصد نتائج حاصل نہیں کیئے جا سکتے کیوں کہ خواتین تو گھروں میں جا کر بچوں کو قطرے پلا آتی ہیں لیکن مردوں کے لیئے ہر گھر میں جانا ممکن نہیں ،اور ویسے نوجوان مردوں کا گھر گھر جا کر بیل دینا ایک نامناسب عمل ہے اس لئے یہ کام خواتین کے ذمے لگایا جا تا ہے تا کہ اس کے سو فیصد نتائج حاصل کئے جا سکیں ،اگرچہ یہ بات بھی درست ہے کہ اس عمل میں شامل خواتین کا لباس غیر مناسب ہو تا ہے لیکن یہ ان کا ذاتی فعل ہے ادارے کی طرف سے انہیں آزادی ہو تی ہے کہ وہ باپردہ یا جس طرح کا لباس پہننا چاہیں وہ پہن سکتی ہیں ۔


یہ وہ چند تھیوریز ہیں جن کی وجہ سے پولیو مہم ایک متنازعہ مہم بن چکی ہے ورنہ یہ حقیقت ہے کہ پو لیو واقعی ایک متعدی وائرس ہے اور اگر ہم نے اب بھی سنجیدگی سے اس کے خاتمے کے لیئے کوششیں نہ کی تو ہم بین الاقوامی دنیا میں ایک اچھوت قوم بن کر رہ جائیں گے اور دنیا ”پاکستانی “ کا نام سن کر ہم سے دور بھا گے گی ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :