میں تیری مانوں نماز پڑھ لوں

اتوار 11 مئی 2014

Yede Beza K Qalam Se

ید بیضاء کے قلم سے

حج کے دوران حجر اسود تک پہنچنا تو اپنے بس کی بات نہیں تھی اور جن جن حضرات نے یہ شوق پال رکھا ہے وہ ابھی سے بل فائیٹنگ سیکھ لیں۔
بیس دن کی مسلسل محنت کے بعد"طریق طریق" کا گردان کرتے ہم اسی حالت میں باہر نکلتے جیسے لیبر روم سے کچھ ڈیلیور کر کے آ رہے ہوں
بڑی مشکل سے ایک دن ملتزم تک پہنچ ہی گئے۔۔وہاں بھی ٹی ٹونٹی جار ی تھی اور سارے ہی شاید آفریدی بنے ہوئے تھے۔

ہم بھی کسی نہ کسی طرح چمٹ ہی گئے۔ ہمارے ساتھ ایک اور صاحب تھے جو چمٹے ہوئے تھے۔۔شکل سے پاکستانی نظر آ رہے تھے۔ لیکن اسی حالت میں حضرت نے جب "ہیییلو " کہا۔۔۔۔۔۔۔۔ تو ہمارے کنسنٹریشن کی تو واٹ لگ گئی۔ اب کیا مانگتے؟؟؟
یعنی اس حالت میں موبائل
لیکن ابھی عشق کے امتحان تو باقی تھے۔

(جاری ہے)

ان کو کچھ سنائی نہیں دے رہا تھا تو سپیکر بھی آن کر دیا
ادھر سے بیٹے نے کہا
اباجی۔

۔۔۔دادا نوں پھر دورا پے گیا ای۔۔ڈاکٹر کیندا اے بھرتی کرا لو ہسپتال وچ
اوے۔۔کہوتے۔۔۔لاحول ولا۔ ۔اوے میں ملتزم تے کھڑا ہاں۔۔۔کنی واری دسیا سی۔۔ڈاکٹر نوں چھڈ۔۔۔داتا صاحب دے دربار لے جا۔۔ہنوڑ بند کر۔۔۔میں ملتزم تے کھڑا ہاں
سبحان اللہ۔ ۔موقع نہیں تھا ورنہ دل تو کیا کہ حضرت کے ہاتھ چوم لوں۔۔۔ملتزم پہ اللہ کا دامن تھام کے داتا صاحب؟؟؟؟؟
پہلے پتہ چلتا تو ہماری بھی ٹکٹ کی بچت ہو جاتی
یہ اپنے ہاں کا ہومیوپیتھک اسلام ابوجہل دیکھ لیتا تو کب کا کلمہ پڑھ لیتا بلکہ شاید ظل سبحانی ٹائپ کوئی چیز ہوتا اور دو چار کی آنکھیں نکال یا سر اتار کر تقوی کے نام پر جوتا سلائی کا کام کرتا
دین کا دین چودھراہٹ کی چودھراہٹ
اور وہ تو عرب بھی تھا۔

۔۔دو چار ہاتھ کاٹ کے اور کچھ گردنیں اڑا کے نقد دین ہاتھ پر جما دیتا۔۔۔باقی دین تو ویسے ہی مسلمانوں میں خلافت کے بعد سے ادھار کھاتے میں چل رہا ہے۔۔۔بس کچھ کوڑے رہ گئے ہیں۔۔۔یا پھر وہ بیج مارے ہوئے افغانستان میں خلافت اسلامی کے نئے ظہور کے لیے کچھ مجاہدانہ تخم پاشی رہ گئی تھی
پہلے تو مولوی بیچارے کو مفت روٹی کا طعنہ ملتا تھا لیکن اب تو دین خاصی ترقی کر چکا ہے۔

۔ٹی وی سکرین پر مداری ٹائپ عالم دینداری کے نام پر خوب کمائیاں کر رہے ہیں۔۔ یہ ویسے بڑی نازک صورت حال ہے۔۔۔۔اوپر سے استخارہ کی مارکیٹ اتنی چڑھ چکی ہے کہ عنقریب اسٹاک ایکسچینج میں استخارہ شئیرز ملیں گے
اور سونے پر سہاگہ یہ
(اہل زبان نہیں ہوں وگرنہ جڑ دیتا کہ سونے جڑا ہیرا یہ )
پہلے مردے صرف سنتے تھے۔ اب بولنے بھی لگے ہیں۔
یہ مردے سنتے ہیں یا نہیں سنتے پر ایک عد د مناظرہ دیکھنے کا اتفاق ہوا
جو سنانے پر بضد تھے انہوں فرمایا سنتے ہیں۔

۔میں کہہ رہا ہوں کہ سنتے ہیں۔۔
جو نہ سنانے والی پارٹی تھی اس نے جواب دینے کے بجائے سوال داغ دیا۔۔۔اچھا اگر سنتے ہیں تو بولتے کیوں نہیں ہیں؟
لو جی۔۔اب کیا کریں۔۔جواب آنا تھا سوال آ گیا
یہ کاپی پیسٹ دانشور ایسے ہی ہوتے ہیں۔ جو چینل کا مالک منہ میں ڈلواتا ہے وہی بولتا ہے۔ اور جب جواب کی جگہ سوال آتا ہے تو نہ کمنٹ کر سکتا ہے اوراور نہ اقرار و انکار کی ہمت باقی رہتی ہے۔

۔۔بیچارے فرشتے
اب کیا کریں۔۔مجمے میں بیٹھے ایک فرشتے نے لقمہ دیا۔۔۔۔یہ دھاندلی کر رہے ہیں۔۔۔۔۔لو جی بات بن گئی۔۔۔پینتیس پنکچر۔۔چھتیس پنکچر۔۔۔جنگلا سروس۔۔۔پھیکی ٹیکسی۔۔۔۔تم غدار۔۔۔تم غدار
ہڑ بڑی مچ گئی۔۔۔اسی ہڑ بڑی میں ایک اور صاحب نمودار ہوئے جن کو کشف و الہام کی بیماری لاحق تھی۔ سپریم کورٹ کے باہر لگے مجسمہ انصاف کے ترازو کی طرح ان کے ہاتھ میں بھی ایک ترازو تھا۔

جس کے ایک پلڑے سے پاکستان لٹک رہا تھا اور دوسرے پلڑے سے کینیڈا۔۔۔مجسمہ انصاف والے ترازو میں تو پتہ نہیں چلتا کہ کون سا پلڑا بھاری ہے لیکن یہاں ملکہ الزبتھ، ممنون حسین سے کافی بھاری تھیں۔
انہوں نے اپنی سلیمانی ٹوپی سیدہی کی۔۔اور للکار کر کہا۔۔مبارک ہو۔۔مبارک ہو۔۔مردے سنتے ہیں۔۔۔ہم نے خواب میں بشارت پائی ہے۔۔۔اور مردے کی قبر پر کھڑے ہو کر باقاعدہ مردے کو کلمہ پڑھا بھی دیا۔

۔۔
دین تو اکبری ہو گیا ساتھیو۔۔۔۔۔۔۔اب سیاست رہ گئی ہے
اور سیاست میں نہ مجھے جنگلا سروس سے ہمدردی ہے اور نہ انکم سپورٹ کارڈ سے۔۔۔باقی یہ چھوٹے چھوٹے پیادے تو بساط پر گرتے رہتے ہیں۔۔کوئی گورنری پر گرا۔۔کسی کا وزارتوں پر ایمان خطا ہوا۔۔اور کوئی ویسے ہی ہوا کا رخ دیکھ کر آمین بالجہر پکار رہا ہے
لیکن یہ انقلاب بپا کرنے کے زمانے لدھ گئے۔

۔۔یہ انقلاب اتنی بھی سستی چیز نہیں ہے کہ جہانگیر ترین کے ہیلی کاپٹر سے بپا ہو گا۔۔یا کسی نورانی کنٹینر سے۔۔۔
جو فرشتے ان صاحبان کو سلاجیت کہلا رہے ہیں۔۔۔ان کو نوید ہو کہ ایسی " کراس بریڈنگ" سے نہ گھوڑا برآمد ہوتا ہے اور نہ ہی گدھا ہاتھ لگتا ہے۔۔۔۔بس ایک خچر ٹائپ چیز نکلے گی۔ جو سرخی پوڈر تھوپ کے سر شام چوراہوں پر قوم کے بچوں کو گندے اشارے کرے گی
اور یادش بخیر۔

۔۔۔یہ کسی ٹی وی چینل کے مفتی اعظم کم انویسٹگیٹو جرنلیسٹ کی داسی ہے اور نہ ہی کسی لال ٹوپی والے مجاہد کی داشتہ
یہ عوام کے ووٹ سے بپا ہو گا
اور عوام ملتزم سے لٹک کر بھی داتا صاحب کو پکارتی ہے
اللہ کی لاٹھی بے آواز ہے۔۔۔لیکن پنڈی میں پڑی ڈیڑھ فٹ کی چھڑی میں بوٹوں کی دھمک بھی شامل ہوتی ہے۔
عزیز قارئین
اسلام علیکم
پاکستان پائندہ باد

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :