جمہوری معاشرے کے جمہور

اتوار 11 مئی 2014

Muhammad Saqlain Raza

محمد ثقلین رضا

اسے بدقسمتی ہی قرار دیاجائیگا کہ ہم پاکستانی سیاست سے نفرت بھی کرتے ہیں اور پھر ”چسکے “ لے لے کر سیاست اور اس سے متعلقہ خبریں پڑھتے ہیں‘ تبصرہ کرتے ہیں اوریقین کریں کہ اس لمحے پتہ ہی نہیں چلتا کہ یہ صاحب جو تبصرہ کررہے ہیں کیا یہ مملکت خدا دا د پاکستان کے وزیراعظم تو نہیں؟اگر وضع قطع سے وزیراعظم نہیں لگ رہے تو کم ازکم وزیر ہی ہونگے ؟غور سے دیکھنے پر وزرا جیسی کوئی ”حرکت “نظر نہ آئے تو پھر خیال گزرتا ہے کہ شاید مشیرہونگے لیکن وہ جوکہتے ہیں کہ ”بغل میں چھری منہ میں رام رام“ لیکن سیاست کے حوالے سے یہ فارمولہ تبدیل ہوجاتاہے ‘ یاران وطن نے بغل میں شباب اور منہ میں شراب کا لاحقہ لگادیا ہے ‘ بہرحال شکل سے مشیر بھی نہ لگیں تو پھر کھوج لگانے کی ضرورت بڑھ جاتی ہے پتہ چلتاہے کہ بلندوبانگ دعوے اورتبصرہ کرنے والے یہ صاحب بالکل ہی سامنے تربوز کی ریڑھی لگاتے ہیں۔

(جاری ہے)


یہ لطیفہ نہیں بلکہ حقیقت ہے اور کم ازکم ہمیں تو اس بات پر فخر ہے کہ ہرپاکستانی کے اندر ایک اچھا ”سیاستدان“ چھپا ہوا ہے‘ اب بھلا کوئی یہ سوال کرلے کہ ”جب سیاست میں اچھے سیاستدان موجود نہیں تو پھر باہر کی دنیا کی بات ہی کیوں کرتے ہیں“سیدھا سادھا جواب ہے کہ ” جس قسم کے سیاستدان بیچاری بی سیاست کو میسر ہیں ویسا تو ہرگلی کے تھڑے پربیٹھا نوجوان ‘ ہاتھ میں عجیب وغریب انداز میں سگریٹ پکڑکر چرس کے سوٹے لگانے والا شخص یا پھر دن بھر منہ ”رنگین وسنگین “ گالیاں نکال کر خود بھی اوردوسروں کو بھی فیض یاب کرنے والا ریڑھی والا‘ پتہ نہیں کیوں لگتا یہی ہے کہ سبھی ایک جیسے رویوں کے مالک ہوتے ہیں۔

یہ ہم نہیں کہتے بلکہ حقائق کی دنیا یہی بتاتی ہے ‘یوں بھی نفسیات دانوں کاقول ہے کہ کسی بھی انسان کی جانچ کرنی ہو تو اس کو غصے کی حالت میں دیکھ لو‘ اگر اس کی حقیقت جاننی ہوتو اس کے ”کھلی ڈلی “ گپ شپ شروع کردو ‘تھوڑی دیر پہلے بہت ہی معزز نظرآنیوالا شخص منٹوں میں ہی ”اصلیت “ پراترآتا ہے۔ واقفان حال کہتے ہیں کہ سیاستدان بھی انسان ہی ہوتے ہیں ہمارے جیسے‘ گوشت پوست کے انسان ‘دل بھی عام انسانوں جیسا‘ اگر گلی محلے کا لفٹروقسم کا نوجوان اگر دل پشوری کرلے تو کوئی بات نہیں اگر کوئی بیچار اسیاستدان ایسی کوئی حرکت کرلے تو بدنام ۔

مگر سابقہ ٹریک ریکارڈ بتاتا ہے کہ اس معاملے میں معدود چند سیاستدانوں کے علاوہ باقی ”نیک نام “ ہی رہے ۔
صاحبو! ہوسکتاہے کہ واقفان حال( جنہیں عرف عام میں ”خبری“ یا ”مخبر“ کہاجاسکتاہے ) بھی اسی رنگ میں رنگے ہوئے ہوں۔ اگر تو ایسا ہی ہے توپھر بھی گلہ سیاستدانوں سے کیوں کر ہوسکتاہے ۔ ہم یہ بھی نہیں کہتے کہ سیاست بی کے چاہنے والے سبھی لوگ ایک جیسے ہوتے ہیں‘ ارے کہاں ؟؟ بھلا ہماری جرات ؟؟ یوں بھی سیاستدان چاہیں تو زمین کو آسمان اور آسمان کو زمین بناڈالیں۔

اگر یقین نہ آئے تو سابقہ دور میں بعض امور پرتنقید کرنے والے‘ احتجاجاً کیمپ لگانے والے آج انہی امور کی شدت کے باوجود نہ تو احتجاج کرتے ہیں اورنہ ہی تنقید ‘ گویا جو کام دوسرے کریں وہ غلط اورجو خود سے سرزد ہوجائے یا جان بوجھ کر انجام دیاجائے وہ صحیح‘ یعنی دوعملی کاقصہ سمجھئے یا اپنی نالائقی کا فسانہ ۔
بہرحال اپنے وطن کی ”سیاست “ کاحال پوچھنے والوں کو محض اتنا کہہ کر ہی خاموش کردیاجاتاہے ” جیسے گھری ہو طوائف تماشبینوں میں“ اس پر بیچاری سیاست بی بڑی آئیں بائیں شائیں کرتی دکھائی دیتی ہے کہ برے اچھے کام کریں سیاستدان اور بدنام ہوتی ہے بیچاری سیاست‘ ہمیں سیاست بی سے بڑی ہی ہمدردی ہے لیکن کیاکریں کہ کرتوتوں کے ضمن میں سارا جگ جانتا ہے کہ گناہگار سیاستدان ہی ہیں لیکن دراصل محبت بھری تعلق کی بناپر ہی سیاست کو براگردانا جاتاہے‘ سیاست بی کہتی ہے کہ اگر کوئی پوری سٹیل ملز کو ڈکارنے پرتلا ہوا ہو‘ کوئی رینٹل پاور کے نام پر ہاتھ پاؤں سمیت پورے کا پورا ہی ”بہتا گنگا میں “نہاتا پایاجائے‘؟ کوئی ریلوے ٹریک بیچ کھائے یا پورے کا پورامحکمہ کھاجائے ‘ کوئی قرض اتارنے کے نام پر جمع ہونیوالی”جمع پونجی “ ہڑپ کرجائے یاپھر ٹیکسی سکیموں کی آڑ میں قومی سرمائے کو ”اباجی کی ہٹی “ سمجھ کر دونوں ہاتھوں سے لٹاتاپھرے‘ اس میں میرا کیا قصور ؟؟ میں تو اپنے سبھی چاہنے والوں کو ”اعلیٰ ظرفی “ سکھاتی ہوں اوروہ چل پڑتے ہیں دوسری جانب ‘شاید انہوں نے اعلیٰ ظرفی ”لوٹاکریسی “ کو ہی سمجھ رکھا ہے لہٰذا ان سے گلہ شکوہ کیا ۔

میں انہیں محبت کا درس دیتی ہوں‘ ہوش میں رہنے کا درس دیتی ہوں اور یہ چل پڑتے ہیں ”رنگین وسنگین“ قسم کی راہوں پر ۔ بھلا میرا کیا جرم؟؟
بات تو سیاست بی کی بھی ٹھیک ہے لیکن کیاکریں کہ سیاست بی کا دیا ہوا سبق کچھ اس رنگین انداز میں ہوتا ہے کہ بیچارا سیاستدان گھلتا ہی چلاجاتاہے۔ اب دیکھئے کہ سیاست بی کی رنگینیوں کا احوال ‘صرف سیاستدان ہی نہیں ہرریڑھی والا‘ رکشہ مالک‘ دکاندار‘ دودھ فروش سبھی اس کے متوالے دکھائی دیتے ہیں اورہمار ادعویٰ ہے کہ بے شک یہ منہ سے سیاست سے نفرت کااظہار کرتے ہوں لیکن ان کے دل میں سیاست بی سے اتنی محبت موجود ہے کہ یہ سکینڈوں میں ہی اس کے گرویدہوجاتے ہیں۔


دیکھئے اپنے وطن کے جمہوروں کا حال‘ دراصل جمہوریت اصطلاحاً عوام کی حکومت‘ عوام کے ذریعے اور عوام پر ہی ہے ایسے میں جمہورعوام کو ہی سمجھاجاتا ہے لیکن جمہوری معاشروں کے جمہور اپنی جگہ لیکن ہمارے ایسے جمہوروں کی کمی نہیں جو”عام آدمی “ بننے سے پہلے ہی ”سیاستدان“ بن گئے ‘ بلکہ ہماراخیال تو یہ ہے کہ شاید گذشتہ نصف سے زائد صدی کے دوران ”عام آدمی “بننے سے پہلے ہی سیاستدان بننے کا رواج پڑا ہے پھر دیکھتے دیکھتے ہی ”عام آدمی “ بنے بغیر سیاستدان بننے لگ گئے۔

گلہ کس سے کریں؟ عوام سے کہ جو اپنی صفوں میں آنیوالوں ”خاص “ لوگوں کو ”عام آدمی“ ہی سمجھ کر منتخب کرتے ہیں یاپھر ”عام “ نظرآنیوالے ”خاص لوگوں “ سے شکوہ کیاجائے ۔ہمارا خیال یہ ہے کہ گلہ کسی سے بھی نہیں دراصل سسٹم ہی ایسا بنادیاگیا ہے کہ دونوں ہی کسی بھی جرم میں برابر کے شریک ہیں لیکن الزام ایک دوسرے کو ہی دیتے ہیں؟؟ سوچئے گا ضرور

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :