انصاف کا ایک اور خون

اتوار 11 مئی 2014

Munawar Ali Shahid

منور علی شاہد

آج میں پاکستان کے موجودہ حالات پربے چین اور فکرمند ہوں کہ پاکستان میں کیا ہو رہا ہے اور کیا ہونے والا ہے لیکن ایک سیاسی تجزیہ نگار اور قلم کار ہونے کی حثیت سے اس بات پر ضمیر خوش اور مطمئن ہے کہ میں نے کبھی بھی افتخار چوہدری کی حمائت کرنے کی حماقت نہیں کی اور نہ کبھی اس بارے سوچا بھی کہ وہ پاکستان کا نجات دہندہ ہو سکتا ہے،اسی طرح عمران خان کے بارے میں بھی کبھی کسی غلط فہمی کا شکار نہیں ہوا۔

اور نہ اس سے امید اور توقع رکھی کہ وہ پاکستان کے رستے زخموں پر کوئی مرہم رکھ کران کا علاج کرسکتا ہے۔البتہ پاکستان کے غیر تعلیم یافتہ اور مسائل کی چکی میں پسے بدحال،برے حال لوگوں سے ہمدری ہے کہ ایک بار پھر ان کی امیدوں پر انہی دونوں نے پانی پھیرنا ہے۔پاکستان شائد ان ممالک میں سر فہرست ہوگا جس میں سیاستدانوں کے اعمالوں کا خمیازہ عوام کو بھگتنا پڑتا ہے ۔

(جاری ہے)

پولیو کے قطرے پلانے پر حکومتوں کی ناکامی کا صلہ پاکستانیوں کے بیرون ممالک سفر پر پابندی کی صورت میں ملا ہے ۔عمران خان اور دیگر سیاستدانوں اس صورت حال پر جس سرد مہری کا مظاہرہ کیا ہے وہ ہمارے ملک میں ہی ممکن تھا۔ پاکستان کو ہر میدان میں پیچھے لے جانے میں سب مل کر دھکے لگارہے ہیں لیکن اس کی اصلاح ،بہتری اور ترقی میں کوئی دوسرے کاساتھ دینے پر تیار نہیں۔

11 مئی کو ایک پھر عمران خان میدان میں نکلے ہیں۔حالات و واقعات ایک اور اسلامی اتحاد کے بننے کا پتہ دیتے ہیں اور سوال پیدا ہورہاہے کہ آیا دوسری بار پھر عمران خان اور طاہرلقادری کا وار خالی جائے گا یا کہ اس بار بلی تھیلے سے باہر آہی جائے گی۔ہر دور میں کوئی نہ کوئی عالمی بدنامی کا ٹیکہ پاکستان کو لگ رہا ہے ۔پاکستان کے تابوت میں کیلیں ٹھونکنیں کا سلسلہ اس وقت جاری ہوا تھا جب قرارداد مقاصد منظور ہوئی تھی اور یہ ان لوگوں کا سیاہ کارنامہ تھا جو بانی پاکستان کی زندگی میں ان سے بار بار سیاسی شکست کھاتے رہے تھے لیکن ان کی موت کے بعد کامیاب ہو گئے یہ قرار داد مقاصد،حقیقت میں انہی سیاہ مقاصد کے حصول کے لئے تھی جو آج کل حاصل کئے جارہے ہیں اور یہ سب کچھ بانی پاکستان کے تصور پاکستان کے منافی تھا اور ہے ۔

ملکی سلامتی اور بقاء کے تابوت میں سب سے خطرناک کیل افتخار چوہدری نے ٹھونکی ہے۔انصاف ہی وہ راستہ اور دروازہ ہے جہاں سے امن وسکون،شانتی،وفاداری،ترقی و خوشحالی گزر کر لوگوں کی زندگیاں بدلتی ہیں لیکن اگر یہی انصاف کا راستہ اور دروازہ بند ہو جائے تو پھر اندھیرہ ہی اندھیرہ مقدر بن جاتا ہے اور لوگ بھول بھلیوں میں گم ہو کر آپس میں ٹکریں کھا کھا کر بے حال ہو جاتے ہیں۔

جب اس کی بحالی کی تحریک چل رہی تھی تو تب بھی میں آج ہی کے دن کے تصور سے پریشان تھا کہ کیسی قوم ہے جو ہر بار غلط انتخاب کرتی ہے۔
بانی پاکستان نے اپنی تقریر میں جو پہلی دستور ساز اسمبلی کے پہلے اجلاس میں کی تھی اس میں دیگر سماجی برائیوں کے ساتھ ساتھ اقراء پروری سے بچنے کا انتباہ بھی کیا تھا۔کیونکہ اس بیماری کے بعد پھر کسی بیرونی دشمن کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔

لیکن اس سابق چیف جسٹس نے اپنی بحالی کے بعد اسی خطرناک بیماری کا ٹیکہ وکیلوں اور ججوں کو لگادیا۔اس کے منفی اثرات کئی سالوں سے قوم کے سامنے ہیں لیکن تازہ ترین واقعہ ملتان میں راشد رحمان ایڈوکیٹ کا انکے آفس میں بہیمانہ قتل ہے۔ہومن رائٹس کمیشن برائے انسانی حقوق پاکستان کی جاری کردہ پریس ریلز کے مطابق راشد رحمان ایڈوکیٹ کو جج کے سامنے مارنے کی دھمکی دی گئی تھی کہ اگلی پیشی تک تم زندہ نہیں رہوگے اور ان لوگوں نے کر دکھایا۔

اس جج نے کیوں نہ ان لوگوں کے خلاف کاروائی کی اور ان کو نہ پکڑوایا۔یہ اسی اقراء پروری کا شاخسانہ ہے جس کی بنیاد اوپر سے رکھی گئی تھی۔اور اب وکیل اسی نظرئے کی بنیاد پر نہ صرف ججوں کو مارتے پھرتے ہیں بلکہ صحافیوں سمیت پولیس والوں کو بھی نہیں چھوڑتے، خود جج بھی ایسی مقدمات میں جو مذہبی بنیاد پر ہوں ان میں ان کی ہمدردیاں انتہاپسندوں کی طرف ہوتی ہے۔

اور بہت سے فیصلوں میں انہوں نے کھل کر اپنے ذاتی نکتہ نظر کو بھی بیان کیا ہے جو ان کے منصب کے منافی ہے ۔انصاف خود کرنے کی یہ روش ملک وقوم کو دنیا سے الگ تھلگ کرنے کا باعث بن رہی ہے جس طرح ایک ریاست کا کوئی عقیدہ نہیں ہوتا،ویسے ہی ایک جج جو منسف ہوتا ہے اس کا اپنا عقیدہ بھی اپنی ذات تک کا ہوتا ہے اس پر دل ودماغ کا کوئی حق نہیں ہوتا۔تاریخ اسلامی یہی کہتی ہے۔

لیکن اب ہر جج مسلمان زیادہ ہے اور منصف ہے ہی نہیں تو پھر انصاف کا ترازو کیسے برابر رہ سکتا ہے۔سابق چیف جسٹس صاحب اپنے دور میں ایسے ہی ججوں اور وکیلوں کی آبپاری کر گئے ہیں جو اب آنے والے وقتوں میں مزید بدنامی اور مسائل کا سبب بن سکتے ہیں۔راشد رحمان ایڈوکیٹ کی جان بچائی جا سکتی تھی اگر جج صاحب صرف منصف ہی ہوتے۔مرحوم راشد رحمان سے میرا بہت اچھا تعلق تھا۔

وہ بہت نفیس اور پرخلوص انسان اور غریبوں کو ہمدرد تھا۔انسانی ہمدردی اس کا وصف تھا۔ہنس مکھ اور ملنسار وکیل تھا۔وہ تمام ایسے قوانین جو خود پاکستان کی بدنامی کا با عث بن رہے ہیں کے خلاف اپنی عدالتوں میں دلیل کے ساتھ بات کرتے تھے لیکن مخالف فریق جوبندوق پر یقین رکھتا تھا ، نے گولی کے کے ساتھ ان کی ناحق جان لے کر خود قرآنی تعلیم اور ملکی قانون کی خلاف ورزی کی۔اور المیہ یہ کہ اب ان قاتلوں کے خلاف کوئی کاروائی بھی نہیں ہو گی ۔یہ صورت حال کسی بھی طور پر مسقبل کے حوالے سے خوش آئیند نہیں۔پاکستان کی عدلیہ کو فکر کے ساتھ اس تمام صورت حال کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :