ہم کس گلی جارہے ہیں۔۔۔؟

اتوار 11 مئی 2014

Tafseer Hussain

تفسیر حسین

ایشوز بہت ہیں کوئی خارجہ پالیسی سے جڑا ہے تو کوئی داخلہ پالیسی سے جڑا ہے، کہیں دہشت گرد اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب ہوتے نظر آرہے ہیں تو کہیں انہیں دہشت گردوں کوشکست دینے یا ان سے مذاکرا ت کا سلسلہ آگے بڑھنے کی خبریں آئے روزاخبارات کی زینت بنتی ہیں۔اخبارات میں بڑھ چڑھ کر حکومت مخالف یا حکومت کی حمایت میں ، خارجہ و داخلی معاملات پر،میڈیا کے مسائل پراور کئی عصر حاضر کے مسائل یا وسائل پرکالم لکھے ملتے ہیں ۔

۔آج کالم لکھنے بیٹھا تو سوچا کہ انہیں موضوعات میں سے کسی موضوع پر اپنی سوچ کی عکاسی کروں مگر پھر سوچا کہ ہم کب تک حکومت، اسٹیبلشمنٹ،میڈیا، بیرونی قوتوں کے ناقص و عمدہ کاموں کا تذکرہ کرتے رہیں گے کیوں نہ آج عام آدمی کی بات کی جائے جس کے لیے ہمیشہ حکومت ، حکومتی ادارے ، اسٹیبلشمنٹ، میڈیاہی مسائل پیدا نہیں کرتے بلکہ وہ خود ہی اپنے ہی جیسے عام آدمی کے لیے مسائل کا سبب بن رہا ہے اور اسے احساس نہیں ہورہا کہ وہ اپنے لیے دنیا کے ساتھ ساتھ آخرت کے لیے بھی مسائل اکھٹے کررہا ہے۔

(جاری ہے)


ہم ( عام آدمی) ایسی حرکتیں کر بیٹھتے ہیں جنکا خالصتاً تعلق ہماری ذات سے ہوتا ہے جو ہماری نظر میں معمولی حرکت ہوتی ہے مگر کسی دوسرے کے لیے یہاں تک تکلیف کا باعث بن سکتی ہے کہ اسکی جان ہی چلی جائے مثلاً اکثر گھروں میں کپڑسکھانے کے لیے جب پھیلائے جاتے ہیں تو منڈیروں پر اینٹیں رکھ دی جاتی ہیں کہ کپڑے ہوا سے اُڑ نہ جائیں مگر جب کپڑے سوکھنے کے بعد اٹھائے جاتے ہیں تو اینٹیں منڈیروں پر ہی پڑی رہ جاتی ہیں ۔

۔اور کپڑے سمیٹنے والے کو یہ احساس ہی نہیں ہوتا کہ یہ اینٹیں ہوا کے زور سے یا کسی بچے کی شرارت کی وجہ سے گلی میں گرسکتی ہیں اور کسی گزرنے والے کو شدیدزخمی کرسکتی ہیں حتیٰ کہ کسی کی جان بھی لے سکتی ہیں اور ایسا ایک واقعہ میرے علم میں بھی ہے جب ایسی ہی اینٹ نے ایک گھر کے چشم وچراغ کی جوانی کو کفن کی سفید چادر میں لپیٹ دیا۔۔اس واقعے میں خالصتاً عام آدمی کی دوسروں کے لیے بے حسی چھپی ہے۔


عام آدمی کی بے حسی اس وقت نہ قابل یقین ہو جاتی ہے جب یہ اپنے ہی جیسے یا اپنے سے بھی کم حیثیت والے دوسرے عام آدمی کے جذبات کو اس طرح ٹھیس پہنچاتا ہے کہ دوسرے عام آدمی کا سارا خاندان ایک مرتبہ احساس ندامت سے ڈوب مرتا ہے اور دوبارہ زندگی میں واپس لوٹنے کے لیے اسے کئی روز لگ جاتے ہیں جی ہاں ہمیں احساس ہی نہیں ہوتا جب ہم کسی گھر میں یہ پیغام بھیجتے ہیں کہ آج ہم آپ کی بیٹی کو اپنے بیٹے کے لیے دیکھنے آنے والے ہیں تو لڑکی والوں کی ایک آس بندھ جاتی ہے اور وہ اپنی حیثیت سے بڑھ کر تیاری میں لگ جاتے ہیں اور لڑکی کے من کے اندر ایک امتحان شروع ہوجاتا ہے کہ وہ پسند کرلی جائے گی یا نہیں، اگروہ پسند آگئی تو ٹھیک اور اگر وہ پسند نہ آئے تو وہ اپنے آپ کو ایک بیکار چیز سمجھنے لگتی ہے، اسے یہ محسوس ہوتا ہے کہ وہ اپنے گھر والوں پر ایک بوجھ ہے اور گھر کے دوسرے افراد کا رویہ اسکے ساتھ انتہائی تحقیر آمیز ہوجاتاہے ۔

۔مگر جو اسے دیکھنے کے لیے آتے ہیں انہیں ان باتوں کا احساس تک نہیں ہوتا اور وہ کسی بھی ایک بات کو بہانا بنا کر لڑکی کو ناپسند یدہ قرار دے دیتے ہیں اور لڑکی اور اسکے گھروالوں کے لیے نئے امتحان اور کرب زدہ سوچ چھوڑ کر چلتے بنتے ہیں حالانکہ اگر غیر محسوس طریقے سے لڑکی کو دیکھنا چاہیں تو دیکھ سکتے ہیں مثلاً یہ نہ کہیں کہ ہم آپکی لڑکی کو اپنے لڑکے کے لیے دیکھنے آرہے ہیں بلکہ کسی بہانے سے لڑکی کے گھر جاسکتے ہیں وغیرہ وغیرہ مگر بات تو احساس کی ہے۔

۔۔
اسی طرح اگر آپ الیکٹرانک میڈیا کی طرف دیکھیں تو بعض اوقات ایسے اشتہارات دیکھائی دیتے ہیں جن میں رزق کا ضیاع دیکھایا جارہا ہے، نئی نسل آج کل میڈیا سے بہت کچھ سیکھ رہی ہے اگر یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہا تو ہوسکتا ہے کہ مستقبل میں انہیں احساس ہی نہ ہوکہ اشتہار والی حرکت اللہ تعالٰی کے عطا کیے ہوئے رزق کا ضیاع ہے۔۔۔الیکٹرانک میڈیا کی بات ہورہی ہے تو ایک اور بات
عرض کرتا چلوں کہ آجکل مختلف چینلز پر اداکار کمپیئرنگ کرتے نظر آرہے ہیں اور مختلف ڈراموں میں ماڈلز اداکاری کرتے دیکھائی دیتے ہیں تواس ضمن میں عرض یہ کرنا ہے کہ جو جسکا کام ہے اگر وہ ہی کرے تو اچھا ہے کیونکہ جب آپ کمپیئرنگ کاکام بھی اداکاروں کو سونپ دیں گے تو جوپیشہ ور کمپیئرز ہیں انکا استحصال ہوتا ہے مگر سوچے کون؟کیونکہ بات تو احساس کی ہے۔

۔۔
جب ہم لوگوں کے درمیان چلتے پھرتے ہیں تو اس بات کا احساس بڑھ جاتا ہے کہ بہت سے مسائل ہم خود اپنے لیے پیدا کررہے ہیں جن کا کسی دوسرے ملک، حکومت یا اسٹیبلشمنٹ سے تعلق نہیں مثلاً کسی حکومتی شخصیت نے یا کسی دوسرے ملک نے یہ نہیں کہا ہوگا کہ کراسنگ بریج (سڑک پار کرنے کے لیے تعمیر شدہ پُل)کے ہونے کے باوجود سڑک ، سڑک پر سے ہی کراس کرنی ہے چاہے ایکسیڈنٹ ہوجائے یاآپ کے سڑک کراس کرنے کی وجہ سے ٹریفک کا نظام درہم برہم ہوجائے۔

۔کسی اعلیٰ شخصیت نے یہ بھی عام آدمی کو نہیں کہا ہوگا کہ وضو کرنے کے بعد پانی کا نلکا بند نہیں کرنا اسے کھُلا چھوڑ دینا ہے(عموماً مشاہدے میں یہ حرکت آتی ہے) تاکہ پانی اچھی طرح ضائع ہوجائے اور پانی جو پہلے ہی ملنا مشکل ہوتا جارہا ہے وہ جلد ختم ہوجائے۔۔۔نہ ہی کسی بیرونی قوت نے عام آدمی کو یہ کہا ہوگا کہ کوئی برتن کھنگالتے ہوئے پانی یہ دیکھے بغیر کہ کسی کے اُوپر نہ گرجائے پھینک دینا ہے تاکہ کسی نزدیک سے گزرنے والے کے کپڑوں کا ستیا ناس ہوجائے اور وہ جسکے کپڑوں کا ستیا ناس ہوگیا ہے اسے یہ بھی کہنا ہے کہ ۔

۔دیکھ کے چلا کر۔۔۔۔نہ ہی کسی بڑے لیڈر نے عام آدمی سے درخواست کی ہوگی کہ ضعیف افراد، معذوروں کو لوکل گاڑی میں نہیں بیٹھانا کیونکہ وہ گاڑی پر سوار ہونے اور اترنے میں دیر لگائیں گے اور تمہارا وقت ضائع ہوگا وہ بیچارے گرمی میں سڑک کے کنارے انتظار کرتے رہیں پروا نہیں کرنی۔۔۔یہ بھی کسی حکمران نے عام آدمی کو نہیں کہا ہوگا ہے کہ دوسروں کی ماوٴں بہنوں کی عصمت دری کرو ، یہ بھی نہیں کہا ہوگا کہ کسی غریب راہگیر سے اسکے پاس موجود قیمتی چیزیں چھین لو اور یقینا یہ بھی نہ کہا ہوگا کہ کسی کا معصوم بچہ اغواء کرلو۔


یہ وہ تمام باتیں ہیں جو یقینا ہر ذی شعور انسان مشاہدہ کرتا ہے اور سوچتا ضرورہے کہ معاشرے میں بڑھتی اس بے حسی کو کیسے ختم کیا جاسکتا ہے عرض شدہ مشاہدات کے علاوہ نہ جانے اور کتنے ہی ایسے مسائل آپ کے علم میں ہونگے جو معاشرے میں بیگاڑ کاباعث بن رہے ہیں اور انکا تعلق کسی حکومتی پالیسی سے نہیں ہے، کسی بیرونی طاقت کا ان میں ہاتھ نہیں ہے بلکہ اسکا براہ راست تعلق عام آدمی کے احساس سے ہے۔ خدا خیر کرے ہم جس گلی جارہے ہیں اسکا ہمیں اندازہ تک نہیں کہ وہ اندھیر گلی ہے یا روشن گلی۔۔؟

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :