آزار قیدی۔۔۔!

اتوار 11 مئی 2014

Syed Shahid Abbas

سید شاہد عباس

ایک زمانہ تھا جب کالم یا آرٹیکلز مسائل کی نشاندہی اور ان کے حل میں اہم کردار ادا کرتے تھے۔ اور لوگ کالم نویسوں کو اپنے مسائل سے بذریعہ خط آگاہ کرتے تھے۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ لوگوں کے مسائل کی نشاندہی کالمز کے ذریعے ہونا کم ہو گئی۔ کیوں کے سیاست کی راہداریوں میں لکھنے والوں کو زیادہ دلچسپی نظر آنے لگی۔ کوئی سیاسی ایشو ہو اس کو تھوڑا سا مرچ مصالحہ لگا لیں تو آپ ایک اچھا کالم لکھ سکتے ہیں جو اخبارات میں بآسانی شائع بھی ہو جاتا ہے۔

اس صورت حال سے عام آدمی کے مسائل پر لوگوں نے لکھنا کافی حد تک کم کر دیا ہے۔
میرے ایک عزیز نے مجھے بے نقط کی سنائیں اور ساتھ ہی یہ طعنہ بھی دے دیا کہ تم نوجوان پتا نہیں کیوں عوامی مسائل پر نہیں لکھتے۔ اور مجھے حقیقت میں اپنی غلطی کا احساس بھی ہوا۔

(جاری ہے)

کیوں کہ جس مسلے کی انہوں نے نشاندہی کی اس کا علم مجھے کافی عرصے سے تھا اور میں لوگوں کی مشکلات سے بھی آگاہ تھا اس کے باوجود میں اس پر کچھ نہ لکھ سکا۔

مجھے اس بات کا علم نہیں کہ میرے الفاظ حکام بالا تک پہنچیں گے یا نہیں لیکن کم از کم میرا دل مطمئن ہو جائے گا کہ میں نے ایک اہم مسلے کے حل میں اپنا حصہ بقدرے جُسہ ضرور ڈالا۔
اڈیالہ جیل کا قیام 1986 میں عمل میں لایا گیا۔ اس کی دیواریں بہت سے اہم لوگوں کے شب و روز کی امین ہیں یہاں کبھی سابقہ صدر صاحب آئے تو کبھی سابقہ وزیر اعظم، کبھی کوئی بیوروکریٹ یہاں کا مکین ہوا تو کوئی مافیہ کا سرغنہ۔

جڑواں شہروں کی حساسیت کے پیش نظراڈیالہ جیل کو بھی حساس جیل کا درجہ دیا جاتا ہے۔ اس جیل کے اندر تو گنجائش سے زیادہ قیدی موجود ہیں ہی لیکن پچھلے کچھ عرصے میں ان کی تعداد 70 سے 80ہزار تک جا پہنچی ہے۔ اب آپ اس سوچ میں ہوں گے کہ یہ ریکارڈ کیسے قائم ہوا۔ شاید ہی پوری دنیا میں کوئی ایسی جیل ہو جس کے قیدیوں کی تعداد اتنی ہو۔
اس جیل کے اندر تو شاید اس کی گنجائش سے دو گنا ہی زیادہ قیدی موجود ہوں یعنی چار سے پانچ ہزار لیکن پچھلے کچھ عرصے میں اس جیل کے اطراف کی آبادیوں کے 70 سے80 ہزار لوگوں کو بھی غیر اعلانیہ قیدی کا درجہ دے دیا گیا ہے۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ سنٹرل جیل اڈیالہ پر نصب موبائل سگنلز جیمرز کی وجہ سے ار د گرد کے کم و بیش 15سے 20دیہات کا رابطہ باقی دنیا سے کٹ سا گیا ہے۔ جیمرز لگانے کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ سیکیورٹی رسک ہے تو کوئی ہمارے کرتادھرتا مہان لوگوں سے پوچھے کہ سیکیورٹی رسک ہے تو جیمرز کا دائرہ اختیار جیل کی حدود کے اندر کیوں نہیں رکھتے ارد گرد کے لوگوں نے ایسا کیا جرم کر دیا کہ انہیں چلتا پھرتا قیدی بنا دیا گیا ہے۔


پاکستانی قوم کو ہمیشہ سے کوئی بھی سہولت اس انداز سے مہیا کی جاتی ہے کہ اسے اس کی "لت " پڑ جائے۔ جب موبائل نہیں تھا تب بھی رابطوں کا نظام کسی نہ کسی طرح چل رہا تھا۔ لیکن جیسے ہی موبائل فون آیا پاکستانی قوم کو غیر ملکی کمپنیز نے پیکجز کے ایک ایسے جال میں پھنسا دیا جس سے اب نکلنا تقریباً نا ممکن ہے۔ آپ گھر سے چند قدم بھی دور جائیں تو ٹھک سے گھر سے کسی نہ کسی کا فون آتا ہے۔

آپ نے گھر کے ساتھ جڑے دوسرے گھر میں پیغام بھیجنا ہو تو ایک آواز دینے کے بجائے فون کرنے کو ترجیح دی جاتی ہے۔ اس ٹیکنالوجی کو ہماری قوم میں ایسے داخل کر دیا گیا جیسے رگوں میں خون ۔یہ یقینا تھا تو غلط لیکن اب یہ موجودہ وقت کی اہم ضرورت بن چکی ہے۔
کسی کو آنے میں ذرا سی دیر ہو جائے۔ تو فوراً رابطہ کیا جاتا ہے اور رابطہ ہونے کے بعد وہ صاحب رات گئے بھی پہنچیں تو گھر والوں کو رابطہ ایک اطمینان دے دیتا ہے ۔

کسی کو اچانک بیماری کی وجہ سے ایمرجنسی میں ہسپتال منتقل کرنا ہو تو فورا1122ملایا جاتا ہے۔ کاروباری حضرات گھر بیٹھے آرڈرز نوٹ کروا دیتے ہیں اور مال پہنچ جاتا ہے۔ دیار غیر میں موجود پاکستانیوں سے ان کے اہل خانہ اس ٹیکنالوجی کے ہی ذریعے رابطے میں رہتے ہیں۔
اب آپ اندازہ لگا لیں کہ جب قوم کو ایک چیز کی عادت ڈال کے ان سے وہ سہولت چھین لی جائے تو ان کی کیا حالت ہوگی۔

یقین کریں اڈیالہ جیل کے اطراف میں بسنے والے ارباب اختیار کو بے بھاؤ کی سناتے نظر آتے ہیں جو بیان کرنے کے قابل نہیں۔ کسی کو ہسپتال منتقل کرنا ہو تو جان کے لالے پڑ جاتے ہیں کہ موبائل سروس تو ہے نہیں گاڑی والے سے کیسے رابطہ کیا جائے۔ کسی کو کوئی اطلاع فوری طور پر دینی ہو تو لا محالہ کسی اونچی پہاڑی یا چھت کی طرف دھیان جاتا ہے۔ کیوں کہ عام حالات میں تو سگنلز نہیں آتے۔


یہ ایسی کیفیت ہے کہ اڈیالہ جیل کے ارد گرد بسنے والے لوگ بھی خود کو ایک قیدی تصور کرنے لگے ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ 4ہزار یا اس سے کچھ کم یازیادہ قیدی تو جیل کے اندر سلاخوں کے پیچھے ہیں۔ جب کہ 70سے 80ہزار کے قریب لوگ بظاہر تو آزادی کی زندگی گزار رہے ہیں لیکن یہ تمام لوگ چلتے پھرتے قیدی بن چکے ہیں کیوں کہ ان کا رابطہ تقریباً بیرونی دنیا سے کٹا ہوا ہے۔


میری ارباب اختیار سے اتنی سی گذارش ہے کہ خدارا لوگوں سے ایک اہم سہولت نہ چھینیں اگر واقعی سیکیورٹی رسک ہے تو ان آلات کا دائرہ اختیار جیل کی حدود کے اندر کریں ۔کیوں کہ ان حالات کا مقصد تو جیل کی حفاظت ہونا چاہیے نہ کہ باقی لوگوں کے لیے عذاب۔ سیکیورٹی کو بہتر بنانے کے لیے سیکیورٹی فورسز کو جدید خطور پر استوار کریں۔ موبائل سنگلز کو روک دینے سے آپ صرف اور صرف لوگوں کی پریشانی میں اضافہ کر رہے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :