سب کی نگاہیں پیمرا پر۔ قسط نمبر3

جمعہ 9 مئی 2014

Abdul Raheem Anjaan

عبدالرحیم انجان

میں اکثر اپنے جذبات میں بہہ کر اپنے موضوع سے بھٹک جاتا ہوں،پچھلے کالم میں بھی میرے ساتھ یہی کچھ ہوا ہے۔ چند آئین شکن جرنیلوں کو جواز بنا افواج پاکستان کے بارے میں منافقانہ جذبات اورہندوستان کے لئے نرم گوشے رکھنے والے اپنے کچھ لیڈروں اور صحافیوں کے روّیے کا ذکر کرتے ہوئے ، میں اپنے موضوع سے بھٹک گیا تھا ، جب کہ میرا موضوع ” سب کی نگاہیں پیمرا پر “ تھا۔

اپنی اس غلطی کے لئے اپنے قارئین ِ کرام سے معذرت کرتے ہوئے میں سب سے پہلے اپنے موضوع کی طرف آتا ہوں۔
میں اکثر سوچتا ہوں اور کڑھتا رہتا ہوں کہ ہم بھی کیسے لوگ ہیں ؟باں سر پر رکھ کے روتے اور فریاد کرتے رہتے ہیں کہ ہماے ہاں کرپشن بہت ہے، اب جب کہ اللہ نے ہمیں ایک ایسا لیڈر دیا ہے۔جس کا دامن ہر قسم کی کرپشن سے پاک ہے۔

(جاری ہے)

عوام سے تو مجھے کوئی شکایت نہیں کہ بے چارے تعلیم سے محروم ہیں۔

کھوٹے کھرے کی تمیز نہیں کر سکتے۔سنہری جھوٹوں کے جال میں پھنس جاتے ہیں۔لیکن ہمارے صحافیوں نے بھی ہر مسئلے کو پیٹ کی آنکھ سے دیکھنا شروع کر دیا ہےَ
ہمارے بڑے بڑے صحافی جب بھی کسی مسئلے پر بات کرتے ہیں، تو اُن کی مصلحت پسندی آتش ِ زیر پا بن جاتی ہے۔ انصار عباسی صاحب ہم چند دوستوں کے پسندیدہ صحافی ہیں،ہم نے انہیں ہمیشہ ایک با اصول اور سچ کے ساتھ ہی نہیں، پاکستان اور اسلام کے ساتھ محبت کرنے والا صحافی پا یا ہے۔

بس اُن سے اس سارے معاملے میں ایک غلطی ہو ئی ہے ۔ حامد میر ان کے رفیقِ کار ہیں، جنہیں موت کی دہلیز پر ایڑیاں رگڑتے دیکھ کر انہوں نے جذباتی ہو کر ڈی۔جی، آئی۔ایس۔آئی سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کر دیا تھا۔ جذباتی ہونا کوئی بری با ت نہیں ہے۔یہ انسان کے جذبات ہی ہوتے ہیں جو اسے مقبول ِ عام یا نا مقبول بناتے ہیں،جن تحریروں میں جذبات کار فرما نہ ہوں وہ محض مصلحت پسندی اور جانبداری کا پلندہ بن کے رہ جاتی ہیں۔

اِس حوالے سے میں نے کئی بڑے بڑیبا صلاحیت ادیبوں اور نامور صحافیوں کو ملک کے حالات پر نظر رکھنے والے لوگوں کی نظروں کسی زلزلے کی زد میں آ کر گرنے والے کسی شیش محل کی طرح گرتے دیکھا ہے۔بہر کیف، اب انصار عباسی صاحب کو جب مختلف ٹالک شوز میں اپنے مطالبے کو جائز ثابت کرنے کے لئے بے سرو پا دلائل دیتے دیکھتا ہوں تو مجھے صرف افسوس ہی نہیں ہوتا بلکہ ایسے بھی لگتا ہے جیسے کوئی کسی مرے ہوئے جانور کو ذبیحہ کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔


جیو گروپ“ نے جو غیر پیشہ ورانہ بات کی ہے ، میں تو اسے غلطی ماننے کے لئے تیار ہوں اور نہ ہی اسے آزادی ِ رائے سے منسوب کر سکتا ہوں۔بیشک آزادی رائے ایک صحافتی ادارے کا حق ہے ،لیکن صرف ثبوت کے ساتھ سچ بولنے اور لکھنے کی حد تک،بغیر کسی ثبوت کے بے پر کی اڑانے کو آزادی ِ صحافت کیسے کہا جا سکتا ؟ سوال ہے جیو گروپ جیسے بڑے ادارے کی اِس سہو ِ ادارت یا سہوِ قلم کو غلطی کیسے کہا جا سکتا ہے ؟ سب جانتے ہیں کہ ”جیو گرپ“ کو امریکہ اور برطانیہ سے فنڈز مل رہے ہیں۔

صرف جیو ہی کو نہیں دو (۲) دوسرے چینلز کے بارے میں بھی یہی کہا جاتا ہے اور اب امریکہ اور یورپین یونین نے جو بیان جاری کئے ہیں، وہ بھی لائق غورو فکر ہیں۔ امریکی محکمہ ِ خارجہ اور یورپین یونین نے فرمان جاری کیا ہے” پاکستان میں میڈیا کی آزادی کا تحفظ کیا جائے ، صحافت پر پا بندی اور صحافیوں پر حملے قبول نہیں ہیں۔“ مطلب یہ ہوا کہ آزادی ِ صحافت کے نام پر صحافیوں کو امریکہ اور برطانیہ کے ایجنڈے پر کام جاری رکھنے دیا جائے،اُن کے کام میں کوئی رکاوٹ ہمیں قبول نہیں ہے ۔

پاکستان میں اس سے پہلے بھی صحافیوں پر حملے ہوتے رہے ہیں اور کچھ صحافیوں کو موت کے گھاٹ بھی اتارا گیا ہے۔ یہاں تک کہ ڈینیل پرل کا قتل بھی پاکستان ہی میں ہوا تھا۔اگر میں غلطی پر نہیں تو اس سے پہلے امریکی دفتر ِ خارجہ یا یورپین یونین کی طرف سے اِس قسم کا کوئی فرمان کبھی بھی جاری نہیں ہوا اور یہ احکامات عین اس وقت جاری ہوئے ہیں جب کہ میاں بردران یورپ کے دورے پر تھے۔


گو کہ میاں نواز شریف کے دورِ حکومت میں کسی بھی قومی ادارے کے لئے اپنے فرائض منصبی سے انصاف کرنا ممکن نہیں رہاہے۔ نادار کے چئیرمین طارق ملک کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ لیکن چونکہ یہ ہمارے ایک انتہائی حساس اور قابل فخر ادارے کے دامنِ وقار پر لگائے گئے بد نما دھبوں کا معاملہ ہے، عوام اور افواج پاکستان کے درمیان بد گمانی کی دیوار کھڑی کر کے، افوج ِ پاکستان کو کمزور کرنے کی مجرمانہ سازش کا مقدمہ ہے ۔

اِس لئے کوئی عجب نہیں کہ میاں نواز شریف نے اپنے آقاوٴں سے یہ فرمان جاری کروائے ہوں۔اِس لئے اب پیمرا کا منصبی فریضہ تو یہی ہے کہ وہ مذکورہ فرامین کو ردّی کی ٹوکری میں ڈالتے ہوئے انتہائی کڑی چھان بین کرکے یہ دیکھیں اور انتہائی غیر جانب دار ہو کر انصاف کریں کہ جیو گروپ کی یہ غلطی،محض ادارتی غلطی ہے یا یہ سب کچھ کسی بیرونی ایجنڈے کے تحت ہوا ہے ؟ قیاس آرئیاں یہی سننے میں آ رہی ہیں کہ پیمرا ، جس میں میاں صاحب نے اپنے بندے شامل کر کے، کئی دوسرے قومی اداروں کی طرح اپنی حکمرانی قائم کر لی ہے، وہی کرے گا،جو حکومت وقت چاہئے گی۔

لیکن دیکھنا یہ ہے کہ کیا حکومت اپنی کار گزاریوں کے حوالے سے اتنی مضبوط ہے کہ وہ دوسرے قومی اداروں کی طرح افواج پاکستان جیسے قومی ادارے پر بھی اپنی حکمرانی قائم کر لے گی ؟ہمارے ہاں جرائم اِس لئے بڑھ گئے ، بے لگام ہو گئے ہیں کہ ہم مجرموں کو کڑی سزائیں نہیں دے پاتے ۔ ن رشوتیں اور سفارشیں حائل ہو جاتی ہیں۔ تیجتا ًہماری بچیوں کا گھروں سے نکلنا محال ہو گیا ہے۔

ہماری بچیوں کے ساتھ ایسے ایسے شترمناک حادثے ہو رہے ہیں کہ وہ اپنی داد رسی کا کوئی وسیلہ نا پا کر پولیس سٹیشنوں کے سامنے خود پر تیل چھڑک کر آتش سوزی کر رہی ہیں۔اور یہ سب کچھ اس ؛لئے ہو رہا ہے کہ ہمارے حکمرانوں نے اپنی بے لگام کرپشن کو چھپانے کے لئے عدل و انصاف کرنے والے اداروں کو کھلی چھوٹ دے رکھی ہے۔گویا پاکستان کے آئین میں ایک غیر مطبوعہ یہ شک بھی شامل کر دی گئی ہے کہ تم بھی کھاوٴ اور ہمیں بھی کھانے دوٴ۔


بہر کیف،امریکی دفتر خارجہ اور یورپین یونین کے فرمان جاری ہونے سے پہلے کچھ اس قسم کی قیاس آرائیاں سننے میں آ رہی تھیں کہ جیو گروپ والے اپنی غلطی پر معافی مانگنے کے لئے پر تول رہے ہیں ،لیکن اب دو بڑوں کی شے پا کر جیو گروپ کے مجاہدین ( صحافیوں) نے بھی جوابی کاروائی کے لئے اپنے مورچے سنبھال لئے ہیں اور فرینڈم آف سپیچ اور آزادی ِ صحافت کا ڈھول پیٹ رہے ہیں۔

لیکن ان کے خلاف کوئی بات کہہ دی جائے تو اپنے خلاف بات کرنے والے کو فریڈم آف سپیچ کا حق نہیں دیتے۔جیسا کہ سب دیکھ رہے ہیں کہ آج کل ان کی توپوں کا رخ عمران خان کی طرف ہے۔جن کا قصور بس اتنا ہے کہ انہوں نے یہ کہہ دیا تھا کہ جیو گروپ نے افواج پاکستان کے ساتھ جو کیا ہے، وہ تو کوئی دشمن بھی نہیں کر سکتا۔ جبکہ یہ بات سوائے جانب دار صحافیوں اور لیڈروں کے عوام کی اکثریت بھی کہہ رہی ہے۔

عمران خان نے دوسرا جرم ، گویاشجر ممنوعہ کو ہاتھ لگاتے ہوئے یہ کر دیا کہ الیکشن میں ن لیگ کی شرمناک دھاندلی میں جیو گروپ بھی شامل تھا۔عمران خان اپنی اس بات کے جواز میں کہ جیو گروپ نے سارے نتائج سامنے آنے سے پہلے ہی میاں نواز شریف کی فاتحانہ تقریر ٹیلی کاسٹ کر دی تھی جس تقریر میں میاں صاحب نے الیکشن کمیشن میں اپنے کارندوں کو یہ پیغام دیا تھا کہ مجھے قطعی اکثریت چاہیے۔

میاں صاحب کا یہ پیغام بھی اس بات کا شاہد ہے کہ ابھی الیکشن کے سار۷ے نتائج مکمل ہونا باقی تھے۔ اب فریڈم آف سپیچ کا ڈھول پیٹنے والے جیو گروپ کے توپچی عمران خان کو معاف کرنے کے لئے تیار نہیں ہو رہے کوئی اپنے پیٹ کی آنکھ سے دیکھنے ولا صحافی عمران خان پر احسان فراموشی کی تہمتیں لگا رہا ہے تو کوئی یہ شکایت کر رہا ہے کہ عمران خان جیسے بڑے قومی سطح کے لیڈر کوکسی ثبوت کے بغیرجیو گروپ پر الیکشن میں دھاندلی میں شریک ہونے کی تہمت نہیں لگانی چاہیے تھی۔

وہ اپنی قبل از وقتے نشریات گو اور میاں صاحب کی تقریر کے ذریعے دئے گئے پیغام کو اپنی غلطی نہیں مان رہے اور عمران خان سے اس شرم ناک ر،گنگ میں شمولیت کے ثبوت مانگ رہے ہیں۔گویا جیو گروپ نے آئی۔ایس۔آئی کے ڈائرکٹر کے ساتھ جو کچھ کیا ہے وہ ثبوت کے ساتھ ہی کیا ہے۔
کعبے کس مُنہ سے جاوٴ گے غالب
شرم تم کو مگر نہیں آتی
جیو گروپ پر ایک الزام یہ بھی لگایا جاتا ہے کہ وہ اپنی طاقت کے زعم میں کنگ میکر ہونے کی ڈگر پر گامزن ہے، جو کسی غیر جانب دار صحافتی ادارے کو زیب نہیں دیتا۔

اب دیکھنے میں آ رہا ہے کہ عمران خان کے حوالے سے بھی جیو گروپ خود پر لگائے گئے الزام کے عین مطابق لوہار کو سونار اور سونار کو لوہار بنانے کی جارحانہ ڈگر پر گامزن ہو رہا ہے۔
سلیم سافی صاحب نے تو جنگ میں ایک کالم با عنوان ” احسان کا بدلہ “ لکھ کر عمران خان کے خلاف اپنے دل کے پھپولے خوب پھوڑے ہیں۔صرف سلینم سافی ہی نہیں،آج کل عمران خان پر کئے گئے ”جیو گروپ “ کے صحافتی احسانات کے حوالوں سے عمران خان کے کیا اپنے اور کیا پرائے صحافی، خان کی شخصیت کو مسخ کر کر کے،جیو گروپ کے احسانات کا بدلہ چکانے کی بھرپور کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔

جیو گروپ کے قومی سطح کے چند بڑے اخبارات میں شامل جنگ میں کالم کا چھپنا بھی تو ایسے کالم نگاروں پر احسان ہی ہے، جنہیں اتنا بھی معلوم نہیں کہ جب کسی فلاح کار کے کسی فلاحی پروگرام میں شامل ہوا جاتا ہے۔تو احسان فلاح کار پر نہیں ، انسان دوستی کے رشتے سے انسانی فلاح و بہبود کے کام پر ہوتا ہے۔جس سے صحافتی ادارے کی نیک نامی میں اضافہ ہوتا ہے۔

پاکستان کے سب سے بڑے فلاح کار جناب عبدالستار ایدھی یہاں کینیڈا آئے تو کینیڈا نے ان کے انسانی فلاح و بہبود کے کام کو سراہتے ہوئے، اُن کے ادارے کو ائر ایمبولنس بسیں ڈاونیٹ کی تھیں۔کینیڈا کا وہ احسان عبد الستار ایدی پر نہیں، انسان دوستی کے رشتے سے، اُن کے انسانی فلاح بہبود کے کام پر تھا ۔ جس کے لئے صرف عبدلستار ایدی ہی نہیں ہم سبھی پاکستانی بھی کینیڈا کے شکر گزار ہیں۔

لیکن پچھلے دنوں مجھے کیمو کے لئے لے جانے کے لئے کینسر سوسائٹی نے جو والنٹئرڈرائیور دیا تھا،وہ اچھا خاصا پڑھا لکھا اور دنیا کے حالات پر خاصی وسیع نظر رکھنے والا انسان تھا۔جب اسے معلوم ہوا کہ میں پاکستانی کینڈئنز ہوں تو اس نے دنیا بھر میں ہونے والی دہشت گردی کا ذکر چھیڑ کر اپنی پر تشویش پر آ خری گرہ یہ لگائی کہ پاکستان تو دہشت گردی کا گڑھ بن چکا ہے۔

یہ جانتے ہوئے بھی کہ کینیڈا کی ایجنسیزز دہشت گردوں کے لئے نرم گوشہ رکھنے والوں کے لئے اپنا دائرئہ کار تنگ کر رہی ہیں،مجھ سے پاکستان پر یہ الزام ( جو کسی حد تک درست بھی ہے) برداشت نہ ہوا۔میں نے ہنستے ہوئے جواب دیا کہ ہاں پاکستان دہشت گردوں کی زد میں ہے ، صرف اس لئے کہ ہم نیوکلیئر پاور ہی نہیں، امریکہ کے دوست بھی ہیں۔دشمن ہوتے تو شاید ایسا نہ ہوتا۔

یہ ایک لمبی بحث تھی،جسے مختصر الفاظ میں اس طرح ختم کر سکتا ہوں کہ میں نے پاکستان کی مظلومیت کی وکالت میں امریکہ مسلمانوں کے وسائل پر قبضہ کرنے کے لئے دوہرے معیار کی پالیسوں پر خوب تنقید کی اور یہ بھی کہہ دیا کہ جب تک ٹوروڈو کینیڈا کے وزیر اعظم تھے۔ کینیڈا کی پہچان ایک امن دوست اور غیر جانب دار ملک کی حیثیت سے ہوتی تھی۔وہ امریکہ کے سیاسی چنگل میں نہیں آتے تھے۔

جہاں تک احسنانات کے لئے شکر گزاری کا تعلق ہے۔ جب تک میں کام کرتا تھا تو ہر کمیشن چیک سے اچھا خاصا انکم ٹیکس کٹ جانے پر بہت کڑھا کرتا تھا کہ یہ کیا جگہ ٹیکس ہے ؟لیکن اب جب کہ میں ایک موذی بیماری کینسر کے چنگل میں پھنس گیا ہوں، میری انا کو ٹھیس پہنچائے بغیر میرا جس معیار کا علاج ہو رہا ہے، یہاں تک کہ مجھے جب بھی ہسپتال جانا ہوتا ہے ، خود پر اللہ کی مہربانیوں کا عملی طور پر شکر ادا کرنے کی غرض سے کینسر سوسائٹی کو والنٹیر کی حیثیت سے اپنی خدمات پیش کرنے والے ڈرائیورں میں سے کوئی ڈرائیور بھی دے دیا جاتا ہے ۔

ایک عام اور مجبور و بے بس انسان کے لئے یہ ساری سہولتیں دیکھ کر اللہ سبحان تعالیٰ کے حضور میں دل سے ایک ہی دعا نکلتی ہے ، اللہ کینیڈا کو رہتی دنیا تک قائم رکھنا۔لیکن اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں ہے کہ میں اس شکر گزاری کے جذبے سے مرعوب ہو کر اپنے ملک کے مفادات پر یا عزت و شہرت پر کوئی سمجھوتا کرنے کے لئے تیار ہو جاوٴں۔
سلیم سافی عمران خان پر جیو گروپ کے جن احسانات کا بوجھ ڈال کر ان پر احسان فراموشی کے الزمات لگائے ہیں۔

اُن کے جواب میں راقم فقط یہی کہہ سکتا ہے، جس دن عمران خان نے پاکستان یا پاکستان کے مفادات کو در پیش مسائل کو اپنے پیٹ کی یا مفادات کی آنکھ سے دیکھنا شروع کر دیا۔ اس دن آپ میں اور عمران خان میں کیا فرق رہ جائے گا ؟
حفیظ اللہ نیازی صاحب کو اپنے دل کے پھپولے پھوڑنے سے پہلے اس بات کو سمجھ لینا چاہیے کہ عمران خان ہمیشہ وراثتی سیاست کے خلاف بولتے ہیں۔

اگر وہ اپنے جماعتی موقف کے خلاف جا کرخود سے سیاسی اختلاف رکھنے بوالے ایک قد آور سیاسی لیڈر کے بیٹے کے مقابلے میں اپنے کزن اور اپنے بہنوئی کے بھائی حفیظ اللہ نیازی کو ٹکٹ دے دیتے تو ان پر قوم و فعل میں تضاد کا شرمناک الزام نہ آ جاتا ۔دوسری بات یہ کہ حضرت علی  کا قولَ زریں کہ جس پر احسان کرو اس کے شر سے بچو۔ذاتی سطح کے لین دین اور احسانات کے حوالے سے ہے۔ جو لیڈر کسی دشمن ملک کے احسانات کو اپنے قومی مفادات پر فوقیت دینے لگتا ہے۔اُسے قوم کا لیڈر کہلانے کا کوئی حق نہیں ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :