ذہنی مریض قوم

بدھ 7 مئی 2014

Muhammad Saqlain Raza

محمد ثقلین رضا

” میراتعلق نسبتاً خوشحال مڈل کلاس فیملی سے ہے ، اچھی خاصی ملازمت ہے،دوبچے پرائیویٹ سکولو ں میں پڑھتے رہے ، دن رات اچھے گزررہے تھے، مہنگائی کا احساس تو تھا لیکن ذلت آمیز اندازمیں نہیں، بچوں کو ہفتہ میں ایک بار تفریح کے نام پر کسی ہوٹل میں لے جاکر کھانا کھلادیاکرتاتھا ،مطلب یہ کہ اتنی پریشانیاں نہیں تھیں مگر اب ․․․․․․․․․․․․․․․․․آہاہ ․․․․․․․سبھی کچھ خواب لگتاہے، خوشحالی اب ڈھونڈے سے نہیں مل رہی، بچوں کو پرائیویٹ سکول سے نکلواکر سرکاری سکولو ں میں داخل کرادیاہے ،ہفتہ کی وہ عیاشی بھی ختم ہوگئی،اب تو بازار جانے کو دل نہیں کرتا ، پریشانی ہے کہ گھر کرچکی ہے “ ۔

”مگرایسا کیاہوگیا کہ حالات تنگی کی جانب سفر کرچکے ہیں“ ہمارے سوال پر اس نے ٹھنڈی سی آہ بھری اور پھر نمناک آنکھوں کے جواب دیا ” اتنی طویل لوڈشیڈنگ کے باوجود جب میرے پاس بجلی کا بل آیا تو پریشان رہ گیا۔

(جاری ہے)

کہاں وہ سینکڑوں کابل اورکہاں یہ ہزاروں کی کہانی، پڑوسی سے مانگ کر بل اداکیا ، مگر کہاں جی ابھی مہینہ کے بعد پھر بل․․․․․اب کی بارتو پہلے سے بھی زیادہ، یونٹ بھی گذشتہ ماہ سے کم ظاہر کئے گئے ہیں بل میں، اپنے گھروالوں کو بیک وقت تین پنکھے چلانے سے منع کرکے بچوں کو ماں کے ساتھ ہی ہروقت جڑے رہنے کا حکم دیا ہے کہ کہیں وہ اضافی پنکھا نہ چلادیں، واٹر پمپ بھی بوقت ضرورت چلاتاہوں، جب سے بجلی کے نرخ بڑھے ہیں بازار سے کپڑے استری کراکے لاتا ہوں،کوشش کرتاہوں کہ ایک وقت کا پکاکھانا ڈیڑھ دو دن چل جائے،یقین کریں کہ اب بھوک ہی مرگئی، کھاناکھانے کو جی نہیں کرتا ، اسی لئے شاید اب آٹے کی بچت ہوگئی ہے(یہ کہتے ہی اس نے قہقہہ لگایامگر اس میں کھوکھلاپن واضح نظرآرہاتھا)دیکھئے اب پٹرول کے نرخ ایک بارپھر بڑھ گئے، پہلے موٹرسائیکل پر تھوڑی سی ”آوارہ گردی کرلیاکرتاتھا یعنی روزانہ شام کوکسی رشتہ دار کے ہاں چلاگیا، کسی نوجوان نے موٹرسائیکل مانگ لی تو بخوشی اجازت دیدی مگر اب ․․․․․․․․․کوئی موٹرسائیکل مانگے تو دل کرتاہے کہ پتھر اٹھاکے اس کاسرپھوڑدوں“
صاحبو!یہ کہانی ظاہراً ایک شخص کی ہے لیکن آج جس بھی پاکستانی شہری سے ملاقات ہو ،تقریباً اس کارونا یہی ہوتاہے، بجلی ،پٹرول کے نرخو ں نے سکون چھین لیا، پیپلزپارٹی دور حکومت میں جب ہرپندھواڑے پر قیمتو ں کے تعین کافیصلہ کیاگیامگر سپریم کورٹ کے پیش نظر یہ فیصلہ موخرکردیاگیا ۔

اس دورحکومت میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کے علاوہ کمی بھی کی گئی مگر پٹرولیم مصنوعات کی قیمتو ں میں اس قدراضافہ دیکھنے میں نہیں آیا جس قدر ستم موجودہ حکومت نے ڈھائے ہیں۔ کتنی ستم ظریفی ہے کہ سابقہ دور میں بجلی کے نرخ اتنی سرعت سے نہیں بڑھے جس قدرتیزی موجودہ حکومت دکھارہی ہے ،ہر دس بارہ دن کے بعد بجلی کی قیمت میں فی یونٹ اضافہ کرکے قوم کو نوید سنائی جاتی ہے کہ ”کڑوی گولی برداشت کرو“ ۔

اب توہر پاکستانی یہی سوچنے پر مجبور ہے کہ یہ کڑوی گولی حاکمین وطن کیوں نہیں چباتے ، ان کے چہروں کی ”خوشحالی“تو اس بات کی عکاس ہے کہ ان پرنہ تو پٹرولیم مصنوعات کی قیمتو ں میں اضافہ نے اثر کیا ہے اور نہ ہی بجلی مہنگی ہونے پر انہیں کوئی فرق پڑا،بلکہ یہ خوشحالی دن بدن بڑھتی ہی جارہی ہے ۔
سیانے کہتے ہیں کہ کسی قوم کامزاج جاننا ہوتو اس سے تلخ وشیریں باتیں کرکے دیکھ لیاجائے ،اگر اس فارمولے کو قابل عمل سمجھ کر پاکستانی قوم پرلاگو کیاجائے تویقینا یہی سامنے آئیگاکہ ذہنی مریض قوم ،جوہروقت ” بجلی ہے، بجلی آئی ،بجلی چلی گئی“ یا پھر ”پٹرول کی قیمت پھربڑھ گئی “ یا یہ کہتے پائے جائینگے ” اللہ ہ ہ،کیاکروں کہ بجلی کابل بڑھتاجارہاہے کہاں سے اداکروں“ یہ وہ تسبیحات ہیں جو دن بھر قوم کے چھوٹے بڑوں کی زبان پر رہتی ہیں۔

پھر رہی سہی کسر بدامنی، دہشتگردی نے پوری کردی، یقین کریں کہ متاثرہ علاقوں کے عوام اب اس صورتحال سے دوچار ہیں کہ راتوں کو سوتے سوتے ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھتے ہیں کہ کوئی حملہ آور نازل ہوگیا۔ گویا اب دن کی بے آرامی کے بعد رات کا سکون بھی چھن گیا۔
کہاجارہا ہے کہ حکومت نے آئی ایم ایف سے قرض کیلئے جومعاہدہ کیا ہے اس کی رو سے اسے ہرصورت ٹیکسیشن کی شرح میں اضافہ کرناپڑیگا ابتداً ان چالیس اشیا پر سیلز ٹیکس لگایا گیاآنیوالے چند دنوں میں مزید اشیا بھی لپیٹ میں آئیں گی۔

تاہم حکمرانوں کیلئے سوچنے کامقام ہے کہ ان کے اقدامات کی بدولت معاشرہ میں بے چینی، بے آرامی بڑھے گی تو خودکشیوں کی شرح میں بھی اضافہ ہوگا۔
طاہر القادری کی طرف سے گیارہ مئی کو احتجاج کا اعلان کیاجاچکاہے اور سناجارہاہے کہ حکومت نے اس احتجاج سے ”نمٹنے“ کیلئے لائحہ عمل تیارکرلیا ہے اورشنید یہ بھی ہے کہ احتجاج سے تین چار روز قبل ہی لوڈشیڈنگ کادورانیہ کم کردیاجائیگا‘ اشیائے ضروریہ کے نرخوں میں کمی کے بارے غور کیاجارہاہے ۔

شاید ایسے مشورے دینے والے بزرجمہروں کو پتہ نہیں ہے کہ اب لوگ بہت سیانے ہوچکے ہیں انہیں اچھی طرح سے معلوم ہے کہ فی الوقت حکومت کیلئے کسی بھی بحران پرقابوپانا مشکل ہی نہیں ناممکن بھی لگ رہاہے اورحکومت چاہنے یا نہ چاہنے کے باوجود کچھ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے
اگر تو حکمرانوں نے بزبان عمران خان یا بزبان نگران وزیراعلیٰ پنجاب پنکچر کا علاج محض ٹوٹکوں کے ذریعے کرنے کی کوشش کی تو اسے سوائے مایوسی کے کچھ نہیں ملے گا اور حکومت کا یہ دورانیہ واضح طورپر ناکامی کی دلالت کیلئے کافی ہے اور لگ یہی رہا ہے کہ پیپلزپارٹی اپنی باری مکمل کرنے کے بعد ن لیگ کو پانچ سال کا وقت دینا چاہتی ہے (کیونکہ معاہدہ جو ہوا تھا) لیکن آسمان پر گہری خاموشی کسی طوفان کا پیش خیمہ ہے اور محسوس یہی ہوتاہے کہ شاید یہ طوفان اس بر س کے اختتام پر یا آئندہ برس کے آغاز میں ” ”حقیقی سونامی“ کی مانند ہر چیز کو خس وخاشاک کی طرح بہا نہ لے جائے ۔

اگر حکومت وقتی طورپر یہ بحران ٹالنے میں کامیاب بھی ہوگئی تو محسوس یہی ہورہاہے کہ ن لیگی بزرجمہر عادت کے ہاتھوں مجبور ہوکر پھر کوئی نہ کوئی ”پنگا“ ضرور لیں گے۔
نجانے کیوں ان مایوس لمحوں میں ایک عظیم المرتبت ہستی کا چھوٹا سا پیغام یادآگیا ” دریائے فرات کے کنارے ایک کتا بھی پیاسا مرگیاتو عمر جواب دہ گا“ یقینا آج کے حاکمین مست الست ہوچکے اورانہیں شاید غلط فہمی میں مبتلا کردیاگیا ہے کہ وہ کسی قسم کی ”تفتیش“ سے ماورا ہیں لیکن خبر ہو کہ جب عمر سے پیاس کی بدولت مرنیوالے کتے سے حساب لیاجاسکتاہے تو موجودہ دورکاحاکم کیوں محفوظ رہے گا کہ ان کے کاندھو ں پر توکوئی انسانوں کے خون کابوجھ بھی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :