گرمیوں کی آمد۔۔بیماریوں کا حملہ

بدھ 7 مئی 2014

Dr Awais Farooqi

ڈاکٹر اویس فاروقی

گرمی میں اضافے کے ساتھ ہی پاکستان بھر میں مختلف بیماریوں میں فوری اضافہ ہو جاتا ہے پاکستان بنے 67 برس ہونے کے آ گئے ہیں مگر ہم ابھی تک وہیں کھڑئے ہیں جہاں سے چلے تھے بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ پیچھے کی جانب سفر ہے تو مضائقہ نہیں ہو گا ،دنیا بھر مین جن بیماریوں کا وجود تک نہیں رہا وہ پاکستان سے جانے کا نام نہیں لے رہیں اس کی بنیادی وجہ پاکستان کی سرکار اور متعلقہ ادارے ہیں جہاں نیک نیتی سے کام کرنے کا رواج بھی نہیں اور کام کرنا بھی نہیں چاہتے ورنہ پاکستان جیسے زرعی ملک میں تو دودھ اور شہد کی نہریں بہنی چاہیں تھیں ، اب یہی دیکھ لیجیے پولیو سے متاثرہ ملک دنیا بھر مین صرف پاکستان ہی رہ گیا ہے جبکہ افغانستاں جیسا ملک بھی اس بیماری سے پاک ہو چکا ہے اب تو دنیا پاکستان کے شہریوں پر سفری پابندی لگانے کا سوچ رہی ہے ،،مگر آفرین ہے ہم پر کہ ہم اپنی خو بدلیں۔

(جاری ہے)


ہر سال سینکڑوں بچے گیسٹرو سے ہلاک ہو جاتے ہیں جسے ہم قسمت کا لکھا قرار دیکر اپنی ذمہ داریوں سے فرار حاصل کر لیتے ہیں حالانکہ یہ حکومت کی زمہ داری ہے کہ وہ شہریوں کو ان بیماروں سے بچانے کے لیئے موثر اقدامات اٹھائے ، جوں جو ں گرمی میں اضافہ ہو گا گیسٹرو جیسی بیماریاں بچوں اور بڑوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیں گی اور ہسپتال جہاں علاج معالجے کی دستیاب سہولتیں موجود نہیں بھرنا شروع ہو جائیں گے درجنوں کے حساب سے ہلاکتیں ہونے کے بعد حکومت کو ہوش آئے گا اور پھر ہلا ہلا کے شور میں بھاگ دوڑ شروع ہو گی مگر وبا پر پھر بھی قابو نہیں پایا جاسکے گا ،کیوں؟ اس لئے کہ بیماری کی وجوہات کو ختم کرنے کی طرف توجہ سرے سے ہے ہی نہیں ایڈ ہاک بنیادوں پر بننے والی پالیسیاں چند دنوں میں دم توڑ دیتی ہیں جبکہ صحت اور تعلیم دو ایسے شعبے ہیں جن پر ایک تو بجٹ میں خاطر خواہ اضافہ ہونا چاہیے اور دوسری جانب اس سے متعلقہ اداروں ہیلتھ اور ایجوکیشن میں ایسے ذہین اور انسان دوست افراد کی تعیناتی کی جانی چاہے جنہیں دنیا کے ساتھ آخرت میں بھی جواب طلبی کا ڈر ہو۔

اور جو ہنگامی صورت حال سے نپٹنے کی نہ صرف صلاحیت رکھتے ہوں بلکہ کسی بھی وبا یا آفت کے آنے سے پہلے اس کے سدباب کی صلاحیت بھی رکھتے ہوں ،کیا اس وقت ہمارے سرکاری اداروں میں ایسی خوبیوں کے حامل افراد موجود ہیں؟،،جواب ملے گا نہیں ،تو قصور کس کا ہوا حکومت کا جس میں اتنی صلاحیت ہی نہیں کہ وہ ہائی پروفیشنل کا تقرر کر سکے۔
اس طرح کی خبریں آنا شروع ہو چکی ہیں کہ پیٹ کے امراض میں مبتلا بچوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے اور جب یہ وبا پھیلے گی تو سرکاری ہسپتالوں میں اچانک رش بڑھ جانے سے انتظامی صلاحیتیں جو پہلے ہی نہ ہونے کے برابر ہیں بلکل ہی جواب دے جائیں گی ایک ایک بیڈ پر کئی کئی مریض ،ڈاکٹر اور نرسیں غائب دوایاں بھی دستیاب نہیں ۔

کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ ایسا وقت آنے سے پہلے متعلقے ادارئے الرٹ ہو جائیں اور ان اسباب کو ختم کریں جن کی بنا پر اس طرح کی وبائی بیماریوں میں اضافہ ہوتا ہے ،سب ہی جانتے ہیں کہ آلودہ پانی اور ماحول اسہال اور گیسٹرو کی بییماریوں کا باعث ہے جبکہ بازار میں فروخت ہونے والے مشروبات ،گولے اور دیگر مضر صحت اشیاء کی بھر مار ہو چکی ہے تعلیمی اداروں کے باہر اور پرچون کی دکانوں پر بچوں کے لئے اس وقت جتنی بھی چیزیں فروخت کی جارہی وہ نہ صرف مضر صحت ہیں بلکہ ان کا کوئی معیار ہے اور نہ کسی سرکاری ادارے کی اجازت سے یہ چیزیں تیار ہوتی ہیں جو ان کا معیار چیک کر کے فروخت کرنے کی اجازت دے۔

۔
افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ حکموت کے متعلقہ محکمے موسمی بیماریوں گیسٹرو،ڈائریا، اسہال،ہپاٹائٹس جیسی بیماریوں کی روک تھام کے لیے اپنی ذمہ داریاں احسن طریقے سے ادا نہیں کر رہے۔ محکمہ صحت کو موسم گرما کے آغاز سے پہلے ہی ان تمام حفاظتی انتظامات و اقدامات کی تشہیر کرنی چاہیے ، عوام کو بھرپور طریقے سے آگاہی دی جانی چاہیے ۔

اس سلسلہ میں سرکاری مشینری اور سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کے اداروں کو بروئے کار لایا جانا چاہیے۔ بیماری کے پھیلنے کے بعد ضرورت اس امر کی ہوتی ہے کہ شہریوں کو ان چیزوں کے بارے میں آگاہ کیا جائے جو اس مرض کا باعث بن سکتی ہیں اس کے علاوہ اضلاع کی انتظامیہ کو حرکت میں آنا چاہیے اور حفاظتی تدابیر پر سختی سے عمل درآمد کرایا جانا چاہیے۔ شہروں میں صحت و صفائی کے انتظامات بہتر کیے جائیں اور اس سلسلہ میں سول سوسائٹی اور این جی اوز کی مدد حاصل کی جائے۔

محکمہ صحت ہسپتالوں میں آنے والے مریضوں کی رہنمائی اور ان کے علاج کے لیے بہترین انتظامات کرے۔ مریضوں کی تعداد کے پیش نظر ہسپتالوں میں بستروں کی تعداد میں اضافہ کرے۔ امراض کے علاج کے لیے جن ادویات کی ضرورت ہے ان کی فراہمی میں اضافہ کیا جائے۔ اس کے علاوہ ہسپتالوں میں عملہ مریضوں اور ان کے لواحقین سے اچھا طرز عمل اختیار کرے تا کہ وہ جس ذہنی پریشانی کا شکار نہ ہوں۔

ابھی بھی وقت ہے کہ حکومت کوئی کمزوری نہ دکھائے بلکہ پیشگی حفاظتی اقدامات پر بھرپور توجہ دی جائے تاکہ ہسپتالوں میں مریضوں کے علاج معالجہ کے لیے انتظامات بہتر ہوں۔
آب وہوا کی تبدیلیوں اور ماحولیاتی آلود گی پر قابو پانے کے حوالے سے عوام الناس میں شعور آگاہی پیدا کرنا امراض سے بچاو کیلئے انتہائی اہم ہے۔وبائی امراض ماحولیاتی آلود گی اور مضر صحت اشیاء کے استعمال کی وجہ سے پھیلتے ہیں اور وبائی امراض کی روک تھام کیلئے باقاعدہ اگر حکومتی سطح پر مثبت اقدام نہیں اْٹھایا جاے تو اس سے رونما ہونے والے ہر واقعے کی ذمہ دارحکومت وقت ہوتی ہے۔

ایک عام نظر میں بیماری کوئی بھی ہو بڑی تکلیف دہ ہوتی ہے اور اگر بیماری معاشرے کی ذمہ دار روں اور رہنماوں کی غفلت کے باعث رونما ہو جائے اور اس بیماری کے سبب معاشرے میں ہنستے مسکراتے گھروں کے چراغ بجھ جائیں تو ایسے میں اس معاشرے میں موجود لوگوں کا اپنی حکومت اور رہنماوں کے لئے کیا احساس ہو سکتا ہے جس کا اندازہ ایک متاثر فیملی سے ہی پوچھا جا سکتا ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت کو کسی بھی وبا کے پھیلنے سے پہلے اس کی روک تھام کا انتظام کرنا چاہے تا کہ شہری بیماروں سے محفوظ اور سکھ کا سانس لے سکیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :