افغانستان میں امریکی شکست

جمعرات 1 مئی 2014

Hafiz Muhammad Faisal Khalid

حافظ محمد فیصل خالد

سن 2014ءء امریکہ کا افغانستان سے رُخصتی کا سال ہے اور امریکہ اسی سال میں کوئی نہ کوئی ایسا ہنگامہ کرنا چاہتا ہے کہ جس کے شور شرابے تلے اس کی افغانستان میں شرمناک شکست دب کر رہ جائے اور ساری دنیا کی نظریں امریکی شکست سے ہٹ کر اس ہنگامہ آرائی کی طرف مرکوز ہوجائے۔
پاکستان کی Defence Lineآئی ایس آئی اس وقت امریکہ کے دل و دماغ میں کانٹے کی طرح چبھ رہی ہے کیونکہ افغانستان میں رہتے ہوئے آئی ایس آئی کی پیشہ وارانہ صلاحیتوں کا بخوبی اندازہ ہوچکا ہے اور یہی وجہ ہے کہ امریکہ اس قومی ادارے سے خوف زدہ ہے۔


اسی سلسلہ میں گال کارلوٹا نامی ایک امریکی صحافی نے نیویارک ٹائمز میں ISIکے متعلق اپنے دل کی بھڑاس نکالی ان کے مطابق ISI کے کچھ سیل طالبان کی مدد کررہے ہیں اور کہا گیا کہ اسامہ بن لادن کی حفاظت کے لیے ISIکا ایک خاص سیل بھی کام کررہا ہے علاوہ ازیں DGآئی ایس آئی جنرل شجاع پاشا پر الزام لگایا گیا کہ جنرل شجاع پاشا کو ایبٹ آباد میں القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کی موجودگی کا علم تھا جس کی تردید بعد میں پاکستان آرمی کے سابق ترجمان جنرل ریٹائرڈ راشد قریشی بتا چکے ہیں کہ مشرف دور میں جنرل شجاع پاشا DG ISIتھے ہی نہیں۔

(جاری ہے)


جنرل شجاع پاشا کو طالبان کی امداد میں ملوث قرار دینے کی سب سے بڑی وجہ جنرل شجاع پاشا کا امریکی افواج کے اعلیٰ افسران کی طرف سے جنرل صاحب کو وفاداریاں نہ بدلنے کی صورت میں ملنے والی دھمکی کا منہ توڑ جواب دینا تھا۔
ایک امریکہ دورہ کے دوران جب جنرل صاحب سے انکی وفاداریاں تبدیل کرنے کے عوض انکو منہ مانگی قیمت کی ادائیگی کی پیش کش کی گئی تو جنرل صاحب نے بڑے دلیرانہ انداز میں امریکی حکام کی اس پیشکش کو مسترد کردیا اور جان سے ہاتھ دھو بیٹھنے کی دھمکی ملنے پر جنرل شجاع پاشا نے کہا کہ میں صرف اللہ سے ہی ڈرتا ہوں یہی وجہ ہے کہ امریکی میڈیا ، افواج ،Establishmnetسب ISIکے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑے ہوئے ہیں۔


دنیامیں بد امنی انتشار ISIنے نہیں بلکہ امریکی خفیہ ایجنسیوں کا کارنامہ ہے امریکی خفیہ ایجنسیوں کی یہ اوچھ حرکتیں کم ہونے کی بجائے دن بدن بڑھ رہی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ امریکہ کے اپنے ہی اتحادی ممالک بھی اس امریکی جاسوسی سے تنگ آچکے ہیں۔
امریکہ کے قومی سلامتی کے ادارہ کا نام NSAہے امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کے مطابق یہ ادارہ روزانہ 15ارب موبائل صارفین کے محل وقوع کے بارے میں معلومات حاصل کرتا ہے۔

ڈیجیٹل حقوق کی تنظیمیں اس طرح کی ڈریگ نیٹ نگرانی کی کھلم کھلی مذمت کرتی رہیں مگر امریکہ اس احتجاج کو ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکال دیتا ہے اور یہی امریکی ادارہ NSAدنیا کے کسی بھی ملک کی تمام کالز رکارڈ کرسکتا ہے۔
میسٹک نامی جاسوسی کے پروگرام کے ذریعے ایک ہی ملک کے 30دنوں کی تمام کالز کو ریکارڈ کیا جاسکتا ہے۔ امریکی خفیہ ایجنسی نے جاسوسی کے لیے ہر ضابطے کی خلاف ورزی کی یہاں تک کہ نومبر 2013میں امریکی وزیر دفاع جان کیری نے اعتراف کیا کہ امریکی دہشتگردی کو روکنے کے لیے کئی حدود ست تجاوز کیا۔


امریکی ایجنسی کایہ مکروہ عمل صرف اپنے دشمنوں کے لیے ہی نہیں بلکہ یہ تحفہ امریکہ کے دوست و اتحادی ممالک کو بھی ملا جرمن کی چانسلر انجیلامرکل کی فون کالز کو مسلسل ٹیپ کیا گیا جس کا راز افشاں ہونے پر جرمن چانسلر نے سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایسی حرکتیں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے تعلقات کو بری طرح متاثر کرسکتی ہیں جس کے بعد امریکی صدر باراک اوبامہ نے ایک جرمن TVکوانٹرویو دیتے جرمن چانسلر سے معافی بھی مانگی جس پر جرمن چانسلر کا یہ کہنا تھا کہ ایک بار بے اعتمادی کا بیج بودیا تو پھر انٹیلی جنس تعاون مشکل ہو جاتا ہے ۔

جرمن کے علاوہ امریکہ نے سپین کے سابق سوشلسٹ اور وزیراعظم روڈ انگریزز پاٹیرو بھی شامل ہیں۔ اس مذموم حرکت پر سپین کے وزیراعظم نے کئی بار امریکی سفیر کو طلب کیا ان دو ممالک کے بعد دیگر اتحادی ممالک کو بھی امریکہ کو خطرہ لاحق ہو چکا ہے جو کہ امریکہ اور اتحادی قوتوں کے درمیان تعلقات کی خرابی کی سب سے بڑی وجہ بن رہی ہے۔NSA کے بارے میں یہ بھی انکشاف ہو چکا ہے یہ دنیا میں کئی SMSروزانہ اکٹھے کرتا اور پھر ان کی مدد سے اپنے جاسوسی کے نظام کو چلاتا ہے۔


ستمبر 2013میں برازیل کے صدر حلیمار روسیف نے اپنا امریکہ کا سرکاری دورہ منسوخ کردیا اور اسکی وجہ سے عالمی سطح پر امریکہ کے متعلق بڑھتی ہوئی بے اعتمادی فضا تھی۔اس کے علاوہ امریکہ گوگل کو بھی استعما کرتا رہا ہے جس کا انکشاف اس وقت ہوا جب گوگل کے چیف لیگل آفیسر نے امریکی خفیہ ادارے NSAکی طرف سے ڈیٹا سنٹر کو ملانے والے کنکشن کو hackکرنے کی خبر عیاں ہونے پر شدید غم و غصے کا اظہار کیا۔

اس کے علاوہ امریکہ چرند پرند اور جانوروں تک کے ذریعے جاسوسی کرتا رہا جس پر ایک کروڑ 40لاکھ ڈالر کی خطیر رقم خرچ کی گئی امریکہ کئی طریقوں سے عالمی سطح پر جاسوسی کرتا رہا اور تمام تر قوانین کی خلاف ورزیاں کرت ہوئے اپنے مفادات کو حاصل کرتا ہے یہ تو امریکی اداروں کی کارکردگی پر ایک طائرانہ نظر تھی جس کی رو سے امریکہ نے ہر سطح پر ہر طرح کے قوانین کی نہ صرف خلاف ورزی کی بلکہ ان خلاف ورزیوں کے باوجود خود شرمندہ ہونے کی بجائے دوسروں کو تنقید کا نشانہ بناتا رہا۔


اس ساری صورتحال کے بعد امریکہ کا پاکستان کی TOP Defence Lineآئی ۔ایس۔آئی کے کردار پر انگلی اٹھانے سے پہلے اپنے گریبان میں کیوں نہیں جھانکتے ؟ خود لوگوں کو درندوں کی طرح قتل کرنے والے امریکی اداروں کے بارے میں کیوں نہیں بھڑاس نکالی جاتی؟ کیوں امریکی سر عام بدمعاشیوں پر روشنی نہیں ڈالی جاتی ؟ کیوں نہ صرف و صرف ISIکونشانہ بنایا جاتا ہے؟ کیوں امریکہ اپنے کردار کو بھول جاتا ہے کہ جب ساری دنیا میں بدامنی پھیلانے کے لیے امریکہ نے ہر جگہ اپنے ایجنٹ خریدے اور پھر اپنے ناپاک مقاصدکے حصول کے لیے ان کا استعمال کرتا رہا کیا یہ حرکتیں کسی لکھنے پڑھنے میں نہیں آتیں؟ کیا یہ دہشتگردوں کی پشنت پناہی نہیں جو عرصہ دراز سے امریکہ کرتا آیا؟
جی ہاں! یہ وہ سب امریکی بدمعاشیاں ہیں جو امریکہ نے عرصہ دراز سے دنیا بھر میں جاری رکھے ہوئی ہے اور ISIپر الزامات لگانے کا بنیادی مقصد صرف و صرف اپنی شرمناک حرکتوں پر پردہ ڈالنے کی ایک کوشش ہے کیونکہ 2011میں ایک سروت کے مطابق ISIدنیا کی بہترین انٹیلی جنس ایجنسی ہے اور امریکہ کو اس بات کا بخوبی اندازہ ہے پاکستان کی خفیہ ایجنسی کا مقابلہ کرنا امریکہ کے بس کی بات ہی نہیں اور اسی سلسلہ میں ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت ISIکوعالمی سطح پر بھی بدنام کیا جارہا ہے لیکن امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو یہ بات اچھی ذہن نشین کرلینی چاہیے کہ امریکی خفیہ ادارے CIAاور پاکستانی ایجنسی ISIکے کردار کے بارے میں ساری دنیا جانتی ہے اور اقوام عالم کو بخوبی اندازہ ہے کہ کون دنیا میں فساد برپا کررہا ہے اور کون صبر وتحمل کا مظاہر کرتے ہوئے دنیا میں قیام امن کے لیے اپنا کردار ادا کر رہا ہے۔


لہذا حکومت وقت و دیگر متعلقہ اداروں کے سربراھان کو چاہیے کہ وہ اپنا کردار ادا کررتے ہوئے امریکہ و دیگر پاکستان مخالف قوتوں کی جانب سے پاکستانی اداروں پر تنقید کا بھرپور جواب دیں اور ایسے عناصر کا منہ بند کروا دیں جو اپنی شرمناک حرکتوں کو چھپانے کے لیے دوسروں کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :