جنگ کی بھاشا

جمعرات 1 مئی 2014

Abdul Rauf

عبدالرؤف

سوشل میڈیا کی وجہ سے اب خبر میں بہت تیزی آ نے لگی ہے۔ جو بات آپ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر نہیں ڈال سکتے وہ سوشل ویب سائٹس بغیر کسی ہچکچاہٹ سے چلا دیتی ہیں۔ا س لئے اب صحافت، صحافتی اداروں سے باہر نکل چکی ہے۔ جہاں عوام میں شعور کی سطح بلند ہوئی ہے، اپنے حق کے لئے آواز اٹھانے میں آسانی ہوئی۔ آپ کی ذاتی پسند اور نا پسند ہی خبر کے بارے میں فیصلہ کرتی نظر آتی ہے۔

وہیں اس کے اثرات برے بھی ہیں۔ سوشل میڈیا اخلاقیات کی دھجیاں اڑا دیتا ہے اور کسی بھی خبر کو یا تصویر کو بغیر تصدیق اور انتظار کے لگا دیا جاتا ہے۔ تقریباً خبر اور اطلاع کے معیار کو جانچنے کا کوئی طریقہ سوشل میڈیا پر قابل عمل نہیں ہوتا۔ آزادی رائے کا یہ بھونڈا طریقہ یورپ والوں کے لئے ہی مناسب ہے، مثال کے طور پر ایک تصویر میں ایفل ٹاور خانہ کعبہ کو اکٹھا دکھا کر پوچھا جائے کہ اپکو ُ کو کونسی جگہ پسند ہے؟ بہرحال ضروری ہے کہ ہر چیز کا ایک لائحہ عمل ہونا چاہئے۔

(جاری ہے)

پیمرا کی ذمہ داری ہے کہ وہ پاکستان میں دکھائی جانے والے ٹی وی میڈیا کی لائن اور لینتھ کا خیال رکھے مگر یہ حیرت کی بات کو کوچ صاحب کی اپنی بھی کوئی لائن اور لینتھ نہیں ہے۔ پاکستانی پرائیویٹ میڈیا کے پروگراموں کا( content) مواد کا بغور جائزہ لیں تو آپ کو انٹرنیشنل نیوز کا مواد نہایت کم مقدار میں اور صرف مزاح کا عنصر رکھنے والا مواد چلایا جاتا ہے۔

سنجیدہ انٹرنیشنل موضوعات کو نہیں دکھایا جاتا جو مواد سب سے زیادہ دکھایا جاتا ہے وہ انڈین میڈیا کا ہے جس میں پاکستان کے متعلق کوئی بات نہیں ہوتی صرف فلم انڈسٹری کے نہایت ہلکے پھلکے موضوع کو بھی نو بجے کی خاص خاص خبروں میں جگہ ملتی ہے۔
زیادہ تر ریٹنگ کی بھاگ دوڑ میں کسی اخلاقی اور ثقافتی اصول کو مدنظر نہیں رکھا جا رہا۔ میں پہلے بھی کہ چکا ہوں کہ میڈیا حکومت کا وہ ستون ہے جس نے حکومت کو تنخواہ پہ رکھا ہوا ہے اس کی زندہ مثال حامد میر پر قاتلانہ حملہ سے شروع ہوئی اور ابھی اونٹ کی کروٹ کا صرف اونٹ کو ہی پتا ہے۔

محلاتی سازشوں اور دیگر سازشوں کے متعلق میرا علم نہایت محدود ہے۔ ہم صرف واقعات سے قیاس آرائی کرتے ہیں۔ آئیں اس طرح ایک اور قیاس آرائی کریں۔ مئی 2013ء کے الیکشن سے نگران وزیر اعلیٰ کے مسئلے پر پیپلز پارٹی کا تجویز کردہ نام بحث و تکرار کے بعد الیکشن کمیشن آف پاکستان نے منتخب کر لیا۔ یہ تھے نجم سیٹھی صاحب۔ ن لیگ کی پیپلز پارٹی کے ساتھ مفاہمت کی پالیسی کا نتیجہ نجم سیٹھی صاحب کا منتخب ہونا تھا۔

پیپلز پارٹی کی آئینی مدت پوری کروانے میں میں اپوزیشن، آرمی، میڈیا، بیرونی مداخلت اور عدلیہ نے بھرپور معاونت اور تکنیک فراہم کی، وہیں پہ خاص کر میڈیا میں زیادہ تر حکومت کے کرپشن سکینڈل جنگ گروپ نے پکڑے۔ ان خبروں کی بنیاد پر چیف صاحب از خود نوٹٹس لیتے اور پھر پاکستان کے کمزور عدالتی نظام کے فائدے اٹھانے والے تاریخ پہ تاریخ دیتے رہتے۔

میمو گیٹ سکینڈل اس کی واضح مثال ہے۔ نواز شریف صاحب نے پیپلز پارٹی کی حکومت کے دوران پارلیمنٹ کی رکنیت اختیار کرنے کی ہی کوشش نہیں کی۔ دونوں جماعتیں ابھی بھی باریوں کی سیاست سے باہر نہیں نکلیں۔ نواز شریف صاحب محض پارلیمنٹ کی رکنیت نہیں بلکہ وزارت عظمیٰ چاہتے تھے اور پھر اس دفعہ انہیں عمران خان کی طرف سے سخت خطرہ لاحق ہے جس کے مقابلے کے لئے شہباز شریف نے اربوں روپے پانی کی طرح غلط منصوبوں پہ بہائے۔

میڈیا پر بیٹھ کر ایک دوسرے کے خلاف باتیں، من گھڑت کہانیاں بیان کرنا صرف عوام کو احمق بنانا ہے۔ نجم سیٹھی صاحب پیپلز پارٹی کی طرف سے آئے، کام مسلم لیگ ن کیا اور پھر آپ کو پی سی بی کی چیئرمین شپ سے زبردستی نوازا گیا اور آپ ہر شام کو جیو نیوز کے ایک پروگرام میں صرف اپنی چڑیا کی پیشین گوئیاں بتاتے ہیں۔ یار لوگ کہتے ہیں کہ اس چڑیا نے آپ کو جمہوریت کو 35 پنکچر لگانے کے لئے آمادہ کیا تھا۔

یہ نواوز شریف صاحب کی بدقسمتی ہے کہ وہ فوج سے اپنے تعلقات کی سمت ہی درست نہیں کر پاتے۔ اس پر پھر بات ہو گی۔ اب آتے ہیں تحریک طالبان پاکستان سے مذاکرات کی طرف۔ یہاں وقت اور حالات نہایت اہم ہیں۔ امریکہ 2014ء میں افغانستان سے محدود انخلاء کرنے کے بعد وہاں پر اپنا اڈہ رکھنا چاہتا ہے جس کے لئے ضروری ہے ان کی ایران اور طالبان سے بیک وقت معاملات بہتر ہوں۔

ان حالات میں ضروری تھا کہ پاکستان بھی اپنی غیر ضروری جنگ کو ختم کر لیتا۔ لیکن دشمن قوتیں ایسا ہوتا نہیں دیکھ سکتیں اور سب سے بڑی بات فوج کا براہ راست مذاکرات میں شامل نہ ہونا ہے۔ فوج کو بہرحال ساتھ رکھنا ضروری بھی ہے۔ ان بھر بھر کم حالات میں آئی ایس آئی نہایت مشکل حالات کا سامنا کر رہی ہے اور پھر یہ کہنا بھی درست ہے فوج اور آئی ایس آئی کچھ بھی کرے ان کا آخری کام ملکی سرحدوں کا دفاع کرنا ہے۔

یہ خطرات اندرونی ہوں یا بیرونی۔
حامد میر صاحب جس میڈیا گروپ سے تعلق رکھتے ہیں ان کے بارے میں ایک عام پاکستانی کے تاثرات بھی درست نہیں ہیں اس حوالے سے ان کی ایک پوری تاریخ ہے۔ حامد میر صاحب پر حملے کے بعد اتنی عجلت میں ملک کے ایک نہایت اہم ادارے کے سربراہ پر اتنی تیزی سے الزام تھوپ دینا کہاں کی عقلمندی ہے؟ جیو نیوز والے جو کہ سب سے عقلمند خیال کرتے ہیں ان کو ملکی اور غیر ملکی حالات کا بخوبی علم تو ایسے حالات میں ضروری تھا کہ گھر کی لڑائی کو گھر میں ہی رکھا جاتا تاکہ اسی طرح جگ ہنسائی نہ ہوتی۔

پھر حامد میر نے ہوش میں آنے کے بعد اپنے بھائی کے بیان کی توثیق کر دی جو کہ فی الحال حامد میر جیسے محب الوطن اور انٹرنیشنل صحافی سے اس طرح کی امید نہیں تھی۔ یہ کن کو فائدہ پہنچانے کی کوشش تھی، یہ کہانی آنے والے دنوں میں منظر عام پر آ جائے گی۔ اس سے ایک فائدہ بھی ہوا ہے کہ عوام کسی بھی صورت حال میں اپنی فوج اور اس کے اداروں سے پیار کرتے فوج کو بھی اس بات کا خاص رکھنا چاہئے اور سول حکومت کو بھی کیونکہ اس وقت حالات فوج کے لئے سازگار بن چکے ہیں۔

نواز شریف صاحب اپنی ضد سے باہر نکل آئیں تو سب کچھ بہتر ہونے کی امید ہے۔ یہ امن کی آشا نہیں بلکہ جنگ کی بھاشا ہے جس کا صرف اور صرف مقصد پاکستان کی نظریاتی ثقافتی اور فوجی سرحدوں کو نقصان پہنچانا ہے۔ عوام اس میڈیا کے چنگل سے نکلنے کے لئے ذہنی جدوجہد کریں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :