یکساں نظام تعلیم

منگل 29 اپریل 2014

Muhammad Saqlain Raza

محمد ثقلین رضا

روز قیام سے پاکستان جن مسائل کا شکار رہا ہے ان میں نظام تعلیم ایک بنیادی مسئلے کی صورت سامنے آیا اور یہ مسئلہ آج چھیاسٹھ سال گزرنے کے باوجود بھی پاکستان کو درپیش ہے۔ بدقسمتی تو یہ ٹھہری کہ نظام تعلیم بھی حکومتوں کی تبدیلی کے ساتھ تبدیل کیا جاتا رہا جس کے اثرات لازمی طور پر طلبہ پر بھی پڑے اور اس سے اساتذہ بھی متاثر دکھائی دیئے۔

ظاہراً ان تبدیلیوں کے اثرات نتائج پر ہی نہیں بلکہ طلبہ کے اذہان پر بھی واضح طور پر دکھائی دیئے۔ اسی نظام کی بدولت ہمارے ہاں یکساں تعلیم صرف زبانی حد تک محدود رہا۔ اوائل کے کچھ عرصہ بعد سے ہی پرائیویٹ انگلش میڈیم سکول ایک فیشن کی طرح پاکستان کی رگ رگ میں سرایت کرتے چلے گئے اور پھر یہ سلسلہ اپر کلاس سے ہوتے ہوئے مڈل کلاس تک پہنچا۔

(جاری ہے)

درمیان میں حکومتی سطح پر مفت تعلیم کی باتیں بھی ہوئیں مگر اس کے اثرات اس انداز میں سامنے نہ آ سکا جو ہونا چاہیں تھے۔ اس روش کی بدولت پرائیویٹ سکولز کی ڈیمانڈ میں بھی اضافہ ہونے لگا اور یہ سلسلہ بڑھتے بڑھتے ایک برائی کی شکل اختیار کر گیا‘ہم یہ نہیں کہتے کہ سبھی پرائیویٹ انگلش میڈیم سکول ایسے ہی ہیں یا ان کا رویہ ایک سا رہا مگر یہ حقیقت ہے کہ اس رویئے کا اثر بیچارے والدین پر بھی پڑا اور تعلیم کو بھی نقصان پہنچا۔

بہرحال یہ دو قسمی نظام تعلیم ایک عرصہ تک ملک میں رائج رہا جس کی بدولت ہمارے ملک میں دو قسم کی کلاسیں تیار ہوتی رہیں ایک اردو میڈیم اور ایک انگلش میڈیم۔ پھر جب انگلش میڈیم کی گرد چھٹی تو امریکن سکولز کا واویلا اٹھا اور پھر یہ سلسلہ دراز ہوتے ہوتے یہاں تک آن پہنچا ہے کہ اب ملک میں قسما قسم کا نظام تعلیم موجود ہے۔ جن کی دیکھا دیکھی اب پرائیویٹ انگلش میڈیم سکولوں نے بھی اپنا نصاب تبدیل کر دیا۔

مقابلے کی اس دوڑ کے اثرات لازمی طور پر غریب بچوں پر پڑے اور ہم ایک عرصہ تک دو طبقات پیدا کرتے رہے۔ ایک حاکم، ایک محکوم، اگر یہاں ان سکولوں میں موجود سہولیات اور وسائل کا تقابل سرکاری سکولوں سے کریں تو یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ حکومتی کوششوں کے باوجود اس کے اثرات براہ رات غریب عوام تک نہ پڑے۔ زمینی حقائق کو پست پشت ڈال کر بنائی گئی پالیسیوں کا خمیازہ لازمی طور پر غریب بچوں کو ہی بھگتنا پڑا ہے۔

تاہم یہ بھی حقیقت تسلیم کرنا ہو گی کہ وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف نے اس تفریط کو محسوس کرتے ہوئے چنیدہ سکولوں کو انگلش میڈیم کا درجہ دلوایا یقیناً اس کی بدولت یکساں نظام تعلیم کے مواقع میسر آئیں گے۔
یکساں نظام کے فوائد کی بات کی جائے تو ہمارے سامنے دنیا کے بڑے بڑے ممالک کی مثال ہمارے سامنے موجود ہے۔ آج کے معاشی دیو جاپان کی بات کریں تو وہاں کی ترقی کو ہم یکساں نظام تعلیم کا ثمر قرار دے سکتے ہیں۔

جاپان کی بابت یہ کہا جاتا ہے کہ وہاں سرکاری یا پرائیویٹ دونوں قسمی سکولوں میں ایک ہی جیسی سہولیات فراہم کی جاتی ہیں۔ امیر غریب، حاکم، عوام سبھی کے بچوں کیلئے ایک جیسی تعلیمی سہولیات میسر ہیں۔ ایسے ہی رویئے ہمیں دنیا کے دیگر ممالک میں نظر آتے ہیں مگر بدقسمتی سے ہمارے ہاں ایسا کوئی رویہ نظر نہیں آتا۔ ایک اور بنیادی نقطہ یہ بھی سامنے آتا ہے کہ قیام پاکستان سے نظام تعلیم کو عارضی بنیادوں پر چلایا جاتا رہا اس رویئے کے لازمی اور تادیر اثرات محسوس کئے جاتے رہے۔


کہا جاتا ہے کہ جب جاپان نے عالمی جنگ میں تباہی و بربادی کے بعد سرنڈر کیا تو جاپانی قیادت کے سامنے کئی ایک شرائط رکھی گئیں جن میں سے ایک شرط اتحادی ممالک کی طرف سے یہ بھی سامنے آئی کہ جاپان میں وہی نظام تعلیم رائج کیا جائیگا جو ہم دیں گے اس پر جاپانی قیادت نے دو ٹوک انداز میں کہا تھا کہ ہم اس شرط کی بجائے اجتماعی خودکشی کو ترجیح دیں گے۔


مجبوراً اتحادی ممالک اس شرط سے پیچھے ہٹ گئے۔ اس کے بعد جاپان نے نہ تو فوج بنانے کی کوشش کی اور نہ ہی اس کے ذہن میں اس جنگ کے تباہی کے اثرات موجود تھے۔ جاپان کی قیادت نے ایک ایسے نظام تعلیم کی تربیت پر توجہ دی جس کی بدولت امیر غریب سب کیلئے یکساں مواقع میسر ہوں۔ آج کئی عشرے گزرنے کے بعد جب جاپان دنیا کی بڑی معاشی طاقت کے طور پر سامنے آ چکا ہے اس میں جہاں دیگر عوامل کار فرما تھے وہاں انکا اپنا نظام تعلیم بھی بنیاد بنا جس کی بدولت ہر طبقہ ہائے زندگی کو تعلیم کے یکساں مواقع ملے۔


وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف کی طرف سے سرکاری سکولوں انگلش میڈیم کرنے کا اقدام حالات حاضرہ کے مطابق بہتر اقدام قرار دیاجاسکتاہے مگر دوسری سمت اگر دیکھاجائے تو ان سکولوں میں وہ بنیادی سہولیات میسر نہیں آئیں جو اس کی ضرورت تھیں جس کاخمیازہ یہ سامنے آیا کہ محض چند برس بعد ہی پرائمری سطح سے انگلش میڈیم ختم کرکے دوبارہ اردو میڈیم شروع کردیا گیا بلکہ بعض سکولوں میں ابھی تک انگلش میڈیم نظام جاری ہے گویا سرکار کی چھتری تلے بھی دوہرا نظام جاری ہے
اب اگردوہرے نظامت تعلیم کے مضمرات کا ذکر کیاجائے تو جیسا کہ پہلے عرض کرچکے ہیں کہ ملک میں پھیلے کئی طرح کے نظاموں کی وجہ سے کئی طرح کے طبقات پیداہورہے ہیں ‘ ایک ہی ملک کے تعلیمی اداروں ‘یونیورسٹی کانصاب یکساں نہ ہونے کی وجہ سے دو طرح کے روئیے جنم لے رہے ہیں ایک اعلیٰ طبقہ اوردوسرا پست ۔

گوکہ موجودہ حکومت نے ا س بڑھتی ہوئی خلیج کو کم کرنے کیلئے کوششیں کی ہیں تاہم اب ضرور ی ہوگیا ہے کہ تمام تعلیمی اداروں کو یکساں نظام تعلیم کا پابند بنایاجائے یہاں یہ نقطہ توجہ کاطالب ہے کہ حکومت نظام ونصاب تعلیم کو اگر حالات اور ملکی ضروریات کی بناپر تبدیل کردے تو یقینا پرائیویٹ اور مہنگے تعلیمی اداروں کی ضرورت باقی نہیں رہے گی ۔

دوسری بات کہ محض انگریزی کو ہی معیارتعلیم سمجھ لیاگیا ہے اورپوری قوم اندھادھند انگریزی کے جاری مقابلہ کیلئے دوڑ رہی ہے حالانکہ یہ بھی دوسری زبانوں جیسی ہے اگر اسے محض زبان سمجھ کرپڑھا لکھاجائے تو یقینا بے شمارمسائل ختم ہوجائیں گے۔ یقینا انگریزی دنیا سے رابطے کاذریعہ ضرور ہے لیکن یہ بھی عجیب انکشاف ہے کہ دنیا کے بعض بڑے بڑے اورترقی یافتہ ممالک کے باسی پوری طرح سے انگریزی سمجھ نہیں پاتے یا انہیں بولنے میں دشواری ہوتی ہے۔ کیونکہ ان کے نزدیک انگریزی ترقی کانہیں رابطے کاذریعہ ہے

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :