کہانی جان محمدکی

بدھ 23 اپریل 2014

Muhammad Junaid Abbasi

محمد جنید عباسی

میرا نام میری امی نے جان محمد رکھاوہ کہتی ہیں تم جا ن محمد نہیں بلکہ جان ِ محمد ہو کیونکہ ہمارے نبی ﷺ غریبوں سے بہت محبت کرتے تھے اور ان اپنی زندگی بھی ہم جیسی فقیرانہ تھی، میری صبح کا آغاز سویرے ہوتا ہے جب سارا شہر سو رہا ہوتا ہے،میرے ناشتے کی میز پر رات یا اس سے پہلی رات کا بچا ہوا کھانا میری ماں اپنے بائیں ہاتھ سے ایسے لاڈ سے رکھتی ہے کہ مجھے اسکو کھاتے ہوے کسی شہزادے کاسا گماں ہوتا ہے اور مجھے وہ کھانا باسی روٹی ، رس اور ڈبل روٹی کے چند ٹکڑے کسی فائیو سٹار ہوٹل کا مینو لگتے ہیں،اس صحت سے بھر پور اور جی بھر کے ناشتہ کرنے کے بعد میں اپنا بیگ لے کر کسی بھی ہشاش بشاش بچے کی طرح گھر سے نکلتا ہوں اور میری ماں بھی مجھے ڈھیر ساری دعائیں لمبی سی مسکراہٹ اور دن گزارنے کی چند احتیاتی تدابیر بتا کرخداحافظ کہتی ہے ،لیکن وہ بیگ سکول کا نہیں ہوتا ،گھر سے قدم باہر رکھتے ہی میری تجسس بھری نگاہیں چاروں طرف گھومنے لگتی ہیں،میرے ہر دن کا ایک ہی مقصد و مطلب ہوتا ہے دو سو روپے، پلاسٹک اور کاغذوں کاڈھیر۔

(جاری ہے)


سردی، گرمی ،دھوپ، بارش ،میرا ایک ہی کام ہوتا ہے جو میری امی نے مجھے بتایا ہے،اور میں اپنا روز کا کام اپنا ایمان سمجھ کے کرتا ہوں اور میری کوشش رہتی ہے کہ کوئی کمی نہ رہے،اپنے اس چھوٹے سے مقصد پانے کے لیے دن بھر شہر کی چھوٹی بڑی مارکیٹوں،سرسبز پارکوں اور کشادہ سڑکوں پرپیدل گھومتا پھرتا ہوں،میری سب سے پسندیدہ جگہ پارک ہیں جہاں نسبتاََ لوگ کم ہوتے ہیں اور مجھے یہاں سے کافی سارا پلاسٹک اور کاغذ بھی مل جاتا ہے جو امیر لوگ تفریح کرنے آتے ہیں پھینک جاتے ہیں کئی دفع مجھے بوتلوں میں بچاہوا پینے کا پانی اور شربت بھی مل جاتا ہے جو مزے سے پیتا ہوں اور سوچتا ہوں جو لوگ یہ پیتے ہیں وہ کتنے امیر ہیں کہ آدھے سے ذیادہ پھینک دیتے ہیں،میں ہر دن ہزاروں لوگوں کو دیکھتا ہوں اور چند سے ملتا بھی ہوں ان میں ایک ٹھیلے والا جو مجھے روز ٹھیلے کے نیچے رکھے ایک ڈبے سے کھانے کے لیے فروٹ دیتا ہے اورمیں بہت مزے سے وہ کھا کر اپنا لنچ کر لیتا ہوں، لیکن وہ یہ فروٹ وہ اپنے گاہکوں کو نہیں دیتا۔

گرمیوں میں میں ہمیشہ شام کے وقت مارکیٹوں میں گھومتا ہوں کیوں کہ سب بڑے لوگ شام کو ہی مارکیٹ آتے ہیں دن کی دھوپ انکے کے لیے ناقابل برداشت ہوتی ہے، لیکن مارکیٹیں میری نا پسندیدہ جگہیں ہیں یہاں کی چمک دمک اور کھلکھلاتے چہروں کو حسرت بھری نگاہوں سے دیکھتا رہتا ہوں اور یہاں کے بڑے بڑے ہوٹل شاپینگ مالز کو اندر سے دیکھنا صرف میراخواب ہی ہے، یہاں لوگ مجھے کوڑا دان سمجھ کر مجھ پر کوڑا پھینک دیتے ہیں دکان یا کسی بڑے مال میں جانے کی کوشش کروں تو چوکیدار گالیاں اور دہکے دے کر باہر نکال دیتے ہیں،اگر کسی کو میں چھو لوں تو وہ اپنے کپڑے جھاڑنے لگتا ہے اور مجھے غصہ سے ڈانٹ دیتا ہے یہ سب مجھے بہت مایوس کرتا ہے لیکن پھر کوئی جب میری طرف مسکرا کر دیکھتا ہے تو مجھے پھر سے ہوصلہ اور ہمت مل جاتی ہے کیونکہ تب مجھے میری ماں کی مسکراہٹ یاد آتی ہے۔


ہاں چند لوگ اچھے بھی آتے ہیں جو مجھے اور اوارہ کُتے کو کوڑے کے ڈھیر پر بیٹھا دیکھ کر کچھ کھانے کی چیزیں میری اور کچھ کتے کی طرف پھینکتے ہیں اورمیں جلدی سے اٹھا کر کھا لیتا ہوں کئی بار مجھ سے پہلے کُتاوہ چیز جھپٹ لیتا ہے اور مجھے اس سے کھینچنی پڑ جاتی ہے،بہر ہال کچھ کھا کر میں سارے دن کا جمع کیا ہوا سامان لے کر گھر کی راہ لیتا ہوں سامان کو ایک فیکٹری میں دے کر اسکے بدلے کبھی سو یا دو سو روپے لے کر گھر جاتا ہوں ۔

گھر میں داخل ہوتے ہی میری ماں مجھے مسکراتے چہرے سے خوش آمدید کہتی ہے اور اسکی مسکراہٹ میرے دن کی تھکان ختم کر دیتی ہے۔میں دن بھر کے کوڑے میں سے جمع کی ہوئی کھانے کی چیزوں کو اپنی ماں کے سامنے رکھتا ہوں اور پھر وہ بائیں ہاتھ سے پہلے مجھے اور پھر خود کھاتی ہے،معاف کیجیے گا میں بتانا بھول گیا کہ وہ دائیں کے بجایئے بائیں ہاتھ کا استعما ل کیوں کرتی ہے کیوں کہ اسکا دائیاں ہاتھ کٹ گیا تھا اور میرے گھر میں صرف میری ماں ہی ہے میرے ابو بھی خدا کو پیارے ہو چکے،اب گھر کا سارا کامیں ہی کرتا ہوں، اور سارا دن دھوپ سردی ،گرمی میں اپنی معزور ماں کے لیے گھومتا ہوں اور میری ماں کی محبت مجھے موسم کی شدت کا احساس نہیں ہونے دیتی ، ہاں میری چھوٹی چھوٹی بہت ساری خواہشیں ہیں جیسے میرے گھر کے سامنے ایک سکول ہے جہاں آتے جاتے بچوں کودیکھ کر جی چاہتا ہے کہ میں بھی سکول جاوئں میں بھی ایسے بڑی گاڑیوں میں سفر کروں ،مگر ماں کہتی ہے بیٹا یہ سب بڑے لوگ ہی کر سکتے ہیں تم ایسی چیزیں دیکھا ہی مت کروہم صرف کوڑا چننے والے لوگ ہیں یہی ہمارا پیشہ ہے یہی ہماری رندگی ہے۔


بارہ سالہ جان محمد پرکشش اور خوبصو رت اسلام آبادکے وسط میں واقع کچی بستی میں رہتا ہے اسکی کی کہانی سن کر مجھے ایک مصرع یاد آیا کہ “خوں رولاتا ہے یہ تقسیم کا انداز مجھی”تقسیم ایک ملک ایک شہر اور ایک ہی بستی میں رہنے والے دو انسانوں میں،ایسی تقسیم جو انسانوں کو جانور سمجھنے کی انتہاہی افسوسناک اور شرم ناک ذہنیت کو جنم دے رہی ہے،اور پھردولت کے ترازو میں تل کر نہ جانے کتنے جان محمد کو انسانیت کے دائرے سے نکل ر ہے ہیں،روزانہ اس کچی آبادی سے نکل کر ہزاروں جان محمداسلام آباد کی بلند و بالا عمارتوں اور دیدہ زیب گھروں کی طرف رخ کرتے ہیں، میری التجا بس اتنی سی ہے کہ کیا آپ گلیوں، محلوں، پارکوں اور مارکیٹوں میں گھومتے ہزاروں جان محمد میں سے کسی ایک کو اسکی ماں کی مسکراہٹ یاد دلا سکتے ہیں؟کیا جان محمد کواپنی معزور ماں کا سہارا بننے پر اسے انسان کہنا گوارا کریں گیں؟اور وہ ہمیشہ اپنی ماں کا سہارا بنا رہے آپ اسے اسکی صحت اور زندگی کے لیے اچھی اور بری چیزوں میں تمیز بتاسکتے ہیں؟کیا اسے تعلیم حاصل کرنے کا ایسا طریقہ بتا سکتے ہیں کہ وہ روز چند سو رپے بھی کما لے اور سکول بھی جانے لگے؟اگر ہاں تو اپنے گھر کے باہر کوڑے دان سے پلاسٹک چنتے جان محمد کی زندگی کو ایک نیا رخ دیجیے اور جان محمد کو اوراپنے بیچ کا فرق مٹا کر انسانیت کی خدمت کیجیے، کیوں کہ جو انسان انسانوں سے پیار کرتا ہے اللہ اس سے پیارکرتا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :