جنات پر الزامات

بدھ 23 اپریل 2014

A Waheed Murad

اے وحید مراد

الزام کوئی بھی اور کسی پر بھی لگاسکتاہے، اور اگر کسی کے پاس ثبوت بھی ہو تو پھر کیا کہنے۔مگر جنات پر الزامات صرف لگائے ہی جاسکتے ہیں، ان کے خلاف کبھی کوئی چیز ثابت نہیں کی جاسکتی۔اس لیے آئیے کہانی پڑھتے ہیں۔
کیلنڈر پر وہ انتیس مئی دوہزار گیارہ کی تاریخ تھی، گرم دن تھک کرشام کے پہلو میں لیٹ رہاتھا۔ مارگلہ کی پہاڑیوں کے قدموں میں بچھی ،شمال میں اسلام آباد کی آخری گزر گاہ خیابان اقبال پر شہر کے ایف ٹین سیکٹر سے ایف سکس سیکٹر کیلئے ایک گاڑی روانہ ہوئی۔

گھر سے نکلنے والی کار میں ایک ہی سوار تھا اور اس کی منزل ایک ٹی وی چینل کا دفتر تھا جہاں اس مسافر کو ’ٹاک شو‘ میں گفتگو کرنا تھی۔
خیابان اقبال نامی وہ سڑک جس پر گاڑی رواں دواں تھی، دن کو بہت مصروف رہتی ہے مگر شام کے وقت بھی ٹریفک کا اچھا خاصا بہاؤ ہوتاہے۔

(جاری ہے)

سڑک کے ایک جانب مارگلہ کی پہاڑی ہے تو دو سری جانب اعلی طبقے کے ان لوگوں کے گھر جن کو اپنی دولت کا اندازہ بھی نہیں۔

اس شاہراہ پر جگہ جگہ پولیس کے پہرے ہیں، تین سے چار ناکے اور موبائل بھی پھرتی رہتی ہے تاکہ ’اعلی نسل‘ کے لوگ مکمل اطمینا ن کے ساتھ زندگی بسر کرسکیں۔
اس گاڑی اور مسافر نے چھ بجے منزل مقصود پر پہنچنا تھا مگر وقت کافی گزرگیا۔ ٹی وی والوں کو پریشانی ہوئی کہ مہمان نہ آیا تو پروگرام میں میزبان اکیلے کیا کرے گا؟۔ ویسے مہمان نے ساڑھے پانچ بجے روانگی سے آگاہ تو کردیا تھا۔

فون کرکے معلوم کرنے کی کوشش کی گئی تو’ آپ کا مطلوبہ نمبر اس وقت بند ہے‘ والی خاتون نے جواب دیا۔ وقت گزرتا گیا اور پریشانی بڑھتی گئی، آخرکار مہمان کے گھر بات کرکے پوچھا گیا، وہاں سے بتایا گیاکہ مسافر تو ساڑھے پانچ ہی نکل پڑا تھا، اور پھر زیادہ پریشان ہونے کی باری اہل خانہ کی تھی۔
دوستوں، رشتے داروں سے رابطے شروع ہوئے، ٹی وی چینل نے خبر نشر کرنا ضروری سمجھا اور صحافی دوست تشویش میں مبتلا ہوگئے۔

رات اسی طرح گزرگئی، حکومتی ایوانوں سے بیانات آئے، ٹی وی اور اخبارات کو اغواء کے خلاف مذمتی بیانات موصول ہوئے اور نشروشائع بھی ہوگئے مگر لاپتہ مسافر کا معلوم نہ ہوسکا۔ تیس مئی کا دن گزر گیا، تشویش بڑھتی گئی اور پھر اکتیس مئی کو ٹی وی چینل کی اسکرینیں ’بریکنگ نیوز‘ کی سرخی سے دہک اٹھیں۔ منڈی بہاؤالدین سے نعش مل گئی، اپر جہلم کی نہر سے ملنے والی نعش کے جسم پر سوٹ تھا، ٹائی بھی تھی اور پاؤں میں جوتے بھی تھے۔

نعش کی شناخت ہوگئی اور مسافر اپنی منزل پر پہنچ گیا۔
مرنے والے کی نعش اور اس کی کار کے درمیان دس کلومیٹر کا فاصلہ تھا جو سرائے عالمگیر میں ایک سڑک کے کنارے کھڑی تھی اور جس میں مسافر کی تمام شناختی دستاویزات موجود تھیں، یہ علاقہ اس شاہراہ سے ایک سو پچاس کلومیٹر کے فاصلے پر ہے جہاں وہ مسافر دو روز قبل رواں دواں تھا۔ اس بات پر حیرت تو ہونا تھی سو ہوئی۔

گاڑی اور مسافر کے اتنے دور جانے پر سوال تو اٹھنے تھے سو اٹھے، قتل پر احتجاج تو ہونا تھا سو ہوا۔ اور پھر ہر ملک میں ایک حکومت بھی ہوتی ہے خواہ برائے نام ہی کیوں نہ ہو، اور اس حکومت نے نوٹس بھی لینا ہوتا ہے۔ وہ بھی ویسے ہی ہوگیا جیسا کہ آپ سوچ ر ہے ہیں۔ اور پھر ایک بہت مشہور اور معروف کام بھی ہونا ہوتاہے یعنی کمیشن کا بننا۔ جی ہاں، وہ بھی بنا۔

تحقیق بھی ہوئی اور تفتیش بھی۔
کمیشن نے تئیس اجلاس منعقد کیے۔ سپریم کورٹ کے ایک جج کی سربراہی میں اس کمیشن نے مرنے والے کی ذاتی اشیاء کا بھی معائنہ کیا، مسافر کے تینتیس ہزار برقیاتی پیغاموں (ای میل) کو بھی کھنگالاگیا۔ اکتالیس ثقہ، منجھے ہوئے، جید اور جانے مانے صحافی اور گواہ پیش ہوئے، بیانات ریکارڈ کرائے گئے، راز بتائے گئے۔

چھ ماہ کے وقت میں کمیشن نے کام مکمل کیا، اور یہ کام ایک سو چھیالیس صفحات پر مشتمل ایک رپورٹ کی شکل میں سامنے آیا۔ اس رپورٹ میں سب کچھ تھا، تفصیلات بھی اور سفارشات کی بھرمار بھی، مگر کچھ نہ تھا تو صرف ذمہ داروں کا نام۔ آج تک کوئی نہ بتا سکا کہ مسافر اور گاڑی کیسے ایک سو پچاس کلومیٹر دور چلے گئے؟۔ راستے میں کئی ٹول پلازے آتے ہیں، کئی مقامات پر کیمرے لگے ہوئے ہیں مگر ٹول پلازوں کے کئی سی سی ٹی وی بند پڑے تھے اور کئی مقامات پر کوئی ایسی فوٹیج نہیں ملی کہ وہ گاڑی وہاں سے گزری ہو۔

پھر گاڑی سرائے عالمگیر کی اس سڑک کے کنارے کیسے پہنچی؟۔
اس کا جواب کس کے پاس ہے؟۔ میں نے بہت تلاش کیامگر کوئی بتانے کو تیار نہ ہوا۔ یا شاید کسی کے پاس جواب ہی نہ تھا۔ میں نے خود سوچنا شروع کیا تو مجھے جواب بھی مل گیا اور ملزمان تک بھی پہنچ گیا جنہوں نے مسافر کو گاڑی سمیت غائب کیا۔ اسلام آباد کی ایک مصروف سڑک سے لاپتہ ہونے والے کا ایک سو پچاس کلومیٹر دور ملنا صرف اسی ایک قوت کی کارستانی ہوسکتی ہے اور اسی کی تھی۔

مجھے معلوم ہوگیا کہ اب تک کوئی اس قوت کا نام کیوں نہیں لے رہاتھا، معلوم شاید سب کو تھا اورہے مگر بولتا کوئی نہیں۔سب ڈرتے ہیں اور ابتدا ء میں مجھے بھی خوف تھا۔ ہر ایک کو جان عزیز ہے ، کوئی بھی غائب یا لاپتہ نہیں ہونا چاہتا۔مگر پھر میں نے سوچا اورفیصلہ کیا کہ بولنا چاہیے، مدتوں سے پڑی گرہ آہستہ آہستہ کھلتی ہے، خوف بیماری ہے مگر لاعلاج نہیں رہی۔

خوف کے ساتھ جیا جاسکتاہے مگر موت کو روکا نہیں جاسکتا۔ہم الزام عائد کرتے ہیں کہ اسلام آباد کی سڑک سے سلیم شہزاد نامی مسافر کو گاڑی سمیت غائب کرنے اور منڈی بہاؤالدین پہنچانے کا کام صرف جنات کا ہے، یہ کام جنات ہی کرسکتے ہیں۔یاد رکھیں جنات پر صرف الزامات ہی لگائے جاسکتے ہیں، ان کے خلاف ثابت کچھ نہیں کیا جاسکتا۔ ہم نے اپنی ضمیر نامی چیز کی آواز پر لبیک کہا ہے اور ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ جنات کو کچھ فرق نہیں پڑنا، الٹا ہمیں بھی غائب کیا جاسکتاہے۔


ویسے یہ شاعر بھی عجیب مخلوق ہوتے ہیں، کرتے ورتے کچھ نہیں، لفظوں سے کھیل کر دوسروں کو خودکشی پر مائل کردیتے ہیں۔ کس سرپھرے نے کہا تھاکہ
زندگی اتنی غنیمت تو نہیں جس کیلئے
عہد کم ظرف کی ہر بات گوارا کرلیں

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :