آئی ایس آئی اورانڈین کلچر

بدھ 23 اپریل 2014

Hussain Jan

حُسین جان

انہوں نے پوچھا کیا آپ کے خیال میں آئی ایس آئی پاکستان کی مخالف اجینسی ہے ۔میں نے کہا بالکل نہیں ، پھر انہوں نے پوچھا کیا آئی ایس آئی کسی ایسے انسان پر ہاتھ ڈال سکتی ہے جو پاکستان سے محبت کرتا ہو میرا جواب پھر نا میں تھا ۔ پھر کچھ سوچتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اگر آپ کی اجینسی نہ ہوتی تو بچھا کچھا ملک بھی کب کا ہاتھ سے نکل چکا ہوتا۔

انہوں نے سگریٹ کا کش لگا کر گفتگو میں تھوڑا وقفہ دیا اور پھر بولے کہ پاکستان کو مختلف دشمنوں نے اپنے نرخے میں لے رکھا ہے بہت سی غیر ملکی طاقتیں اس ملک کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑی ہوئی ہیں۔ میں نے ایک بہت بڑئے کالم نگار کے جملے نکل کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے پاس ایسا کیا ہے کہ دوسرے ملک اپنے مسائل چھوڑ کر ہمارے پیچھے پڑ جائیں۔

(جاری ہے)

انہوں نے تحمل مزاجی سے جواب دیتے ہوئے کہا کہ پوری دُنیا کو پاکستان کی صرف دو چیزیں تنگ کرتی ہیں ایک تو اس قوم کا مذہبی لگاؤ اور دوسرا ایٹمی بم۔

اُن کا کہنا تھا کہ اگر پاکستان میں ہرطرف شراب کے اڈئے کھول دیے جائیں فحاشی کو عام کر دیا اور ایٹم بم کو سرینڈر کردیا جائے تو سب کو سکون آجاے گا۔ اور ہمارا ملک یوکرائن بن جائے گا۔ لیکن اس کے بعد کیا ہو گا ملک مزید پستی کی طرف چلا جائے گا۔ ہمارے بہت سے لبرل دانشور کہتے ہیں کہ اگر شراب و کباب سے ملک تباہ ہوتے تو مغربی ممالک کب کے تباہ ہو چکے ہوتے ۔

ایسے لوگوں کے لیے صرف ایک روس کی مثال کافی ہے کہ کچھ دنوں پہلے ایک ریسرچ آئی تھی کہ روس میں نوجوانوں کی اموات کی شرح بہت زیادہ ہے اور اس کی سب سے بڑی وجہ حد سے زیادہ مے نوشی ہے۔ ہمارے ایک اور دانشور کا کہنا ہے کہ بڑتے ہوئے جنسی زیادتی کے واقعات کو روکنے کے لیے ہر گلی میں ایک نائکہ بیٹھا دی جائے ہر دوسرے چوک میں جنس فروشوں کو لائسنس دے دیا جائے ۔

ہمارے یہ مغرب زدہ دانشور اگر یہ کہتے کہ جنسی زیادتی کرنے والوں کو قرار واقع سزا دی جائے تو بھی اس طرح کے جرائم کی روک تھام ممکن ہے۔
اللہ نے بیشمار مخلوگ تخلیق کی ہے اور اس مخلوق میں صرف فرشتے اور انبیاء اکرام کو معصوم پیدا کیا ہے پاقی تمام مخلوق کسی نا کسی طرح غلطی کر سکتی ہے۔ اسی طرح ہوسکتا ہے آئی ایس آئی میں بھی کچھ خامیاں ہوں لیکن ایک بات پکی ہے کہ آئی ایس آئی پاکستان کی شہ رگ ہے ۔

دیکھنے والے یہ نہیں دیکھتے کہ ملک کہ تمام صوبوں میں ایک آگ لگی ہوئی ہے اور اس آگ کو بجھانے میں جتنا کردار ہماری فوج کا ہے اُتنا کسی دوسرے ادارے کا نہیں۔ پاکستان میں تو یہ حال ہے کہ زلزلہ آگیا سیاسی ادارے گم سم اور فوج میدان میں امدادی کام شروع کر چکی ہوتی ہے۔ سیلاب آگیا فوج کی کشتیاں دریاوں کا رُخ موڑنے کو تیار۔ پہاڑ گر پڑئے فوج پہاڑوں پر تیار۔

پلازہ گر گیا فوج طلب۔ محرم ہیں فوج کو تعینات کردو،عیدین ہیں فوج سیکورٹی سمبھالے۔بم بلاسٹ ہو گیا ہے فوج سے مدد لے لو۔ دہشت گردوں نے حملہ کردیا فوج کو لاؤ۔ پولیو کے قطرے پلانے ہیں فوجی آئیں گے۔ الیکشن کروانے ہیں فوج دیوٹی دے گی۔ جنگیں کرنی ہیں فوج کرئے گی۔ سربراہ مملکت نے کہیں جانا ہے فوج کے سپائی ساتھ ہوں گے۔ ڈاکٹرز ہرتال پر ہیں فوجی ڈاکٹر ز کو لے آؤ۔

امریکہ کو آنکھیں دیکھانی ہیں فوج کوآگے کردو۔ افغانستان میں امن لانا ہے افواج پاکستان، امن مشن بھیجنا ہیں تو افواج پاکستان۔ کبھی کبھی تو لگتا ہے کہ دائیوں کا کام بھی فوجیوں سے نا لینا شروع کر دیا جائے۔ جب آپ کے ملک کے تمام اہم اور سکیورٹی سے مطلق کام فوج کرتی ہے تو ایسی فوج پر شک کرنا کہاں کا انصاف ہے۔ ہم راتوں کو گھروں میں آرام سے سوتے ہیں کہ ہمارے جوان سرحدوں پر دیوٹی دے رہے ہیں۔

ہمارے تاریخ دان بتاتے ہیں انگریزوں کے دور میں بڑئے بڑئے ہوٹلوں اور کلبوں میں بورڈ لگے ہوتے تھے جن پر لکھا ہوتا تھا کہ کتوں اور ہندوستانیوں کا داخلہ ممنوع ہے۔ ایسا کیوں تھا جب کہ ہندوستانی بھی انسان تھے ۔ ہاں انسان تو تھے مگر اس کے ساتھ ساتھ غلام بھی تھے۔ اگر ہم اپنی فوج کے مورال کو کم کردیں اور کل کو خدا نخواستہ ہم پر کوئی اور ملک قبضہ کر لے تو ایک دفعہ پھر یہی بورڈ دیکھنے کو ملیں گے فرق صرف یہ ہوگا کہ پہلے ہندوستانی لکھا ہوتا تھا اب کہ پاکستانی لکھا ہو گا۔

اگر لوگوں کی حافظہ خراب نہیں ہوا تو سب کو یاد ہو گا کہ اسلام آباد میں ایک غیر ملکی ہوٹل میں پاکستانیوں کا داخلہ ممنوع تھا جس سے پورے ملک میں طوفان بھرپا ہوگیا تھا کہ ہمارے ملک کی جگہ پر ہمارا ہی داخلہ بند لہذا ہمارے میڈیا والوں کو چاہیے کہ وہ پاک آرمی پر الزامات لگانے کی بجا ئے ملکی مسائل پر توجہ دیں ۔ پاکستان کے عوام کو بہت سے مسائل نے اپنی گرفت میں جکڑ رکھا ہے احباب اختیارات کا دھیان ان مسائل کی طرف کروایا جائے ناکہکو ہاتھ دھو کر فوج کے پیچھے پڑ جائیں۔


اب تصویر کا دوسرا رُخ بھی دیکھ لیتے ہیں وہ لوگ جو افواج پاکستان کو بدنام کرنے کی کوشش کر رہیں ہیں وہ خود کیا کرتے ہیں،اپنے اپنے چینلوں پر انڈین کلچر کو عام کر رہیں ہیں مختلف طرح کے فحش ڈانس پروگرام دیکھا کر نوجوان نسل کو تباہ کیا جا رہا ہے۔ آشہ کی آڑ میں ملکی جڑوں کو کھوکھلا کرنے والے کس منہ سے افواج پاکستان کو بدنام کر رہیں ہیں۔

غیر ملکی و غیر اخلاقی مواد تمام چینلز پر چل رہا ہے۔ انڈین ڈراموں میں طلاقوں کو ایسے دیکھایا جاتا ہے جیسے یہ کوئی بچوں کا کھیل ہے۔ ایک وقت میں کئی کئی بوائے فرنڈز رکھنے والی انڈین ایکٹریسس کو بار بار فلیش میں دیکھایا جاتا ہے۔ اخلاق سے گھری ہوئی کامیڈی دیکھائی جاتی ہے۔ شیلا کی جوانی اور بے بی ڈول کو ہر بڑی خبر کے پیچھے چلایا جاتا ہے۔

انڈین دانشوروں کو اپنے اپنے چینلز پر بیٹھا کر اُن سے ہمارے ملک کے مسائل بارے تجاویز لی جاتی ہیں۔ سرحدوں کو ختم کرنے کی تجویز دی جاتی ہے۔ انڈین کھلاڑیوں کو بیٹھا کر اپنے کھلاڑیوں کی تذلیل کروائی جاتی ہے۔ کترینا وکرینا کی خبر کو بریکینگ نیوز کے طور پر چلایا جاتا ہے۔ پاکستان کی تخلیق کو بڑوں کی غلطی قرار دیا جاتا ہے۔ سیاستدانوں اور افواج پاکستان کا مذاق اُڑایا جاتا ہے۔

انڈین کلچر کو اس قدر پروموٹ کر دیا گیا ہے کہ اب تو لوگ شادیوں میں انڈین رسمیں ادا کرنا شروع ہو گئے ہیں۔ اگر کسی انڈین نے بالوں کا نیا سٹائل بنا لیا ہے تو اُسے بھی بریکینگ نیوز بنا دیا جاتا ہے۔ سیکنڈلز کو مزے لے لے کر بیان کیا جاتا ہے۔ پاکستان مخالف فلمیں و ڈرامیں دیکھائے جاتے ہیں۔ تو کیا یہ لوگ محب وطن ہیں جو پیسہ کمانے کے لیے ملکی عزت کو خاک میں ملا رہیں ہیں۔

کیا یہ لوگ فیصلہ کریں گے کہ پاکستان کی پالیسی کیا ہونی چاہیے ایسے لوگوں کو افواج پاکستانپرالزام لگانے کا کیا حق ہے جو صرف اپنا کاروبار دیکھتے ہیں ملکی وقار ان کی نظر میں کچھ نہیں۔ یہ تو ایک چینلز سے بدلا لینے کے لیے دوسرے چینلز اس کاساتھ نہیں دے رہے ورنہ یہ بھی کسی سے کم نہیں ہیں سب نے اپنے اپنے میڈیا ہاوسز بنا رکھے ہیں اورفحاشی کو عام کر رہیں ۔ آئی ایس آئی ،رینجر،افواج پاکستان، یہ سب ہمارا وقار ہیں ہمارا فخر ہیں۔ پوری قوم ان کے ساتھ کھڑی ہے۔ہر مشکل گھڑی میں فوج اور عوام ایک ہی صف میں کھڑئے نظر آئیں گے۔ کسی کو اپنے سیاسی و مالی مفادات کے لیے اپنی فوج کو بدنام نہیں کرنا چاہیے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :