آئی ایس آئی ، جیو اور غداری کے تمغے

بدھ 23 اپریل 2014

Akif Ghani

عاکف غنی

حامد میر پہ قاتلانہ حملہ ہوا ،اللہ تعالیٰ نے اسے مرنے تو نہیں دیا مگر کچھ لوگوں نے اس کے بھائی کے بیان کو جس میں انگلی پاکستان کے ایک اہم ادارے آئی ایس آئی پر اٹھائی گئی کچھ اس طرح لیا کہ نہ صرف حامد میر بلکہ جس ادارے (جنگ اور جیو نیٹ ورک) سے وہ وابستہ ہے، کے خلاف ایک ایسا محاذ کھڑا کر لیا کہ صرف حامد میر ہی نہیں ،جنگ اور جیو سے تعلق رکھنے والے ہر ایک صحافی کو غدار کہنا شروع کر دیا۔

غداری کے ان مفت سر ٹیفکیٹس کی تقسیم کا عمل سوشل میڈیا پر کچھ اس طرح سے جاری ہوا کہ غداری کا مقدمہ جس میں پاکستان آرمی کے سابق سربراہ جنرل مشرف پرویز نے فوج کے بل پر پاکستان کا آئین توڑا اور پاکستان کو امریکہ کی رکھیل بنا کر رکھ دیا دب کر رہ گیا،جیو جو اس مقدمے کی مخصوص کوریج کر رہا تھااس کو اتنا بدنام کرنے کی کوشش کی گئی کہ اسے اب دفاعی پوزیشن اختیار کرنا پڑ گئی ہے اوراپنے اوپر لگے غداری کے داغ کو دھونا پڑ گیا۔

(جاری ہے)

حکومتِ وقت جس کی وفاداری کا الزام جیو پر ہے وہ بھی اب پیچھے ہٹتی نظر آ رہی ہے ۔جیو اور موجودہ حکومت کے خلاف میڈیا کے کچھ عناصر نے پہلے سے ہی علمِ بغاوت کچھ اس طرح سے بلند کر رکھا ہے کہ وہ پاکستان کی ہر برائی کا انہی کو ذمہ دار سمجھنے لگے ہیں اور اپنی روزانہ کی تبلیغ میں اس کو آڑ بنا کے جمہوریت ہی کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں ۔وہ ایک آئین شکن سابق سربراہِ مملکت کے خلاف چلنے والے مقدمے کو فوج کے خلاف مقدمہ ثابت کرنے پہ تُلے بیٹھے ہیں اور پوری کوشش کر رہے ہیں کہ کسی طرح فوج اور پاکستان کے وزیرِ اعظم میں ٹھن جائے اور اس طرح نہ صرف جمہوریت کا بوریاگول ہو جائے بلکہ ان کے منظورِ نظر سابق صدر کی نجات کا بھی کوئی رستہ نکل آئے ،حالیہ واقعہ کو بنیاد بنا کر انہی عناصر نے اب اس واقعہ کو آئی ایس آئی کے خلاف سازش قرار دینا شروع کردیا ہے۔

ڈاکٹر دانش ،مبشر لقمان ،حسن نثار جیسے اینکر جو مشرف یا زرداری کے خلاف تو سارا عرصہ چُپ سادھے بیٹھے رہے مگر جب سے مسلم لیگ (نواز) کی حکومت قائم ہوئی ہے ،یک نکاتی ایجنڈے پر مسلسل کام کئے جا رہے ہیں اور وہ ایجنڈا ہے نوازحکومت کا خاتمہ اورمشرف کا بچاوٴ ۔اس ایک نکاتی ایجنڈے میں ایم کیو ایم اور مسلم لیگ (ق) بھی ان کے ساتھ ساتھ ہیں اور وہ عناصر بھی جن کو اقتدار کے سنگھاسن تک پہنچنے کا جائز رستہ نظر نہیں آتا۔


مسلم لیگ کی حکومت قائم ہوئے ابھی جمعہ جمعہ آٹھ دن نہیں ہوئے کہ جمہوریت دشمن عناصر نے نہ صرف حکومت بلکہ جمہوریت کے خلاف صف آرائی شروع کر دی ہے۔
ان میں سے ایک تازہ مثال منہاج القران کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری ہیں کہ جنہیں اب پاکستان میں انقلاب لانے کی سوجھ رہی ہے۔ پچھلے تیرہ چودہ سال جب ملک میں سوائے تباہی کے کچھ نہ تھے وہ کینیڈا کی ٹھنڈی فضاوٴں میں سوئے رہے اب ایک حکومت جو کچھ نہ کچھ ڈیلیور کر رہی ہے تو اس کے خلاف انقلاب کی نوید لئے پاکستان کی سرزمین پر زلزلہ لانے کی تیاریاں کر رہے ہیں اور ابھی حامد میر پر حملہ کے معاملہ میں اس کے کارکنوں نے حامد اور جیو کو غدار ثابت کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔


جیو، جمہوریت دشمن عناصر کی آنکھوں میں اس لئے کھٹکتاہے کہ جیو نے ہمیشہ جمہوریت کی حمائت کی ہے اور اس طرح کے عناصر کو اس جمہوری راستے سے کرسیٴِ اقتدار تک پہنچنے کا کوئی ذریعہ نظر نہیں آتا۔
حامد میر پر حملے کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے اور اس کے خاندان کی طرف سے کوئی انگلی کسی ادارے کی طرف اٹھی ہے تو بجائے اس کے کہ اسے غدار کہنا شروع کر دیا جائے یہ تحقیق ہونی چاہیے کہ آیا کہیں یہ سچ ہی نہ ہو۔

ادارے سبھی محترم ہوتے ہیں مگر ان اداروں سے جو لوگ وابستہ ہیں وہ آخر ہیں تو انسان ہی سو ان سے غلطی کی توقع ہونا بعید از قیاس نہیں۔ادارہ کوئی بھی ہو ،چاہے وہ فوج اور یا سیکورٹی ایجینسیاں،عدلیہ ہو پارلیمانی ادارے،ذرائع ابلاغ کے ادارے ہوں یا کوئی اور ادارہ یہ سب محترم ہیں اور پاکستان کے تحفظ کے ضامن ہیں، ان سب کو آئین اور قانون کے اندر رہ کر کام کرنا ہے،جو کوئی بھی اس قانون سے انحراف کرے گا وہ غدار کہلائے گا۔


فوج کا کام ہے سرحدوں کی حفاظت جو اسے قانون کے دائرے میں رہ کر ہر حال میں کرنی ہے اور وہ کرتی ہے مگر اس ادارے سے وابستہ لوگ آخر ہیں تو انسان ہی، اور انسانوں سے غلطیاں ہوتی ہیں اگر تو وہ نادانستہ ہوں تو قابلِ معافی ہو سکتی ہیں مگر ایسی غلطیاں جو آئن شکنی تک جا پہنچیں اور وطن کے باسیوں کے بنیادی حقوق تک سلب کر لیں تو ایسی غلطیوں کی سزا ملنی چاہئے اور سزا دینے کا اختیار صرف عدالتوں کو ہے سو یہ کام عدالتوں پہ چھوڑ دینا چاہئے ۔اب حامد میر کی فیملی کو حامد میر پر حملے کے معاملے میں کسی پر شک ہے تو یہ معاملہ عدالت کے سامنے جانا چاہئے نہ یہ کہ سوشل میڈیا اور ایک دوسرے کو غداریوں کے تمغے بانٹے جانے میں اپنی توانیاں ضائع کر دی جائیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :