مقتدر ادارے الزامات کی زد میں

بدھ 23 اپریل 2014

Muhammad Saqlain Raza

محمد ثقلین رضا

اسے بدقسمتی ہی سمجھاجائیگا کہ پاکستان میں صحافت حد سے زیادہ آزاد اور صحافی صعوبتوں کاشکار ہیں‘ہوسکتاہے کہ صحافیوں کی مشکلات بھی حد سے زیادہ ”آزاد ی“ کی بدولت ہی ہوں اگر ایسا نہیں بھی ہے تو پھربھی یہ ”آزادی“کچھ نہ کچھ ذمہ دار ضرور ہے
ہاں یہ الگ بحث کہ ملک میں بعض صحافی محض سچائی کی بھینٹ چڑھ گئے یا اسکاخمیازہ ابھی تک بھگت رہے ہیں۔

کیونکہ سچائی کی آواز بلندکرنے والوں کی کمی نہیں ہے تاہم بعض مقامات پر ”ہیں کواکب کچھ اور نظرآتے ہیں کچھ اور “ کاعملی مظاہرہ بھی سامنے آتا ہے
صاحبو! دنیا بھر میں جرائم ‘مجرمان کے نشاندہی کے حوالے سے الگ الگ فارمولے طے ہیں‘ وہاں چھان بین‘ حالات واقعات کے جائزہ کے بعد ہی فیصلہ کیاجاتاہے کہ فلاں شخص اس واقعہ کا ذمہ دارہے اگرچہ متاثرہ شخص کی نشاندہی پر واقعہ کے فوری بعد ہی ملزمان کاتعین ضرور کرلیاجاتا ہے تاہم تفتیش ‘انکوائری کے بعد ہی کسی ملزم کو مجرم قرا ردیاجاسکتا ہے معاملہ یہاں ختم نہیں ہوجاتا بعض اوقات پولیس کے ”بنائے ہوئے “مجرمان عدالتوں سے باالکل بے قصور ہوکر باہرنکل آتے ہیں۔

(جاری ہے)

لیکن ہمارے ہاں کی گنگا تو باالکل ہی الٹی بہہ رہی ہے ‘یہاں تفتیش ‘تحقیق کے بناہی الزام لگاکر اورپھر اس کی وسیع پیمانے پر تشہیرکی جاتی ہے یہ دیکھے بناکہ جس ادارے کو زد میں لایاجارہاہے وہ کس قدر اہمیت کاحامل ہے اور محض ایک شخص یا کسی مخصوص ادارے کی بیان بازیوں اور الزام تراشی کے بدولت اس ادارہ کے تقد س پر برااثر پڑسکتاہے
ایک نجی ٹی وی کے اینکر پرسن کا واقعہ بھی ایسا ہی منظر پیش کرتادکھائی دیتاہے۔

موصوف کراچی میں گولیوں کانشانہ بنے‘ ابھی وہ ہسپتال بھی نہیں پہنچے تھے کہ ملک کے ایک مقتدر ‘حساس ادارے پر الزامات کی بوچھاڑ شروع ہوگئی اور یہ سلسلہ ابھی تک رکا نہیں بلکہ تواتر کے ساتھ جاری ہے۔ ملک کی صحافتی تنظیمیں بھی اس واقعہ پر سراپااحتجاج ہیں ان کا احتجاج ایک صحافی ‘ اینکر پرسن کے ساتھ ہونے والے ”ظلم “ پر ہے لیکن اگلی بات پر بے شمار لوگ اتفاق نہیں کرتے ۔


اس واقعہ کے بعد جو سانحات رونماہونے جارہے ہیں اگر ان پر بھی نظردوڑائی جائے تو بہت ہی افسوس کے ساتھ کہنا پڑرہاہے کہ دشمنوں کو ہمارے ہی گھر سے دوست میسر آگئے ہیں یا یوں کہا جاسکتاہے کہ دشمنوں کو اپنے مذموم عزائم کے حوالے سے موثرپروپیگنڈہ کیلئے ہم نے خود ہی مضبوط اور مستند ”ثبوت“ فراہم کردئیے ہیں۔ ذرا دیکھئے پڑوسی ملک کے اخبارات کیاکہتے ہیں ‘یہ وہ ملک ہے جو ایک ہندو کو ”اجمل قصاب “ بناکر ممبئی واقعات کا ذمہ دارٹھہراتا ہے ۔

ابھی انڈ ین میڈیا الزامات کی توپ کا رخ پاکستان کی طرف پھیرنا شروع کرتاہی ہے کہ ہمارے ایک مضبو ط میڈیا گروپ کو فوراً سے پہلے پتہ چل جاتا ہے کہ اجمل قصاب جنوبی پنجاب کے کسی ضلع کا رہنے والا ہے اور اس کاگھر فلاں فلاں جگہ ہے ‘ اس کے باپ بھائی کیا کچھ کرتے ہیں۔ یعنی پڑوسی ملک کے میڈیا کے ہاتھ ایک مضبوط‘ موثر ”ثبوت “ آگیا ۔ یہی ادارہ پھر بھارتی میڈیا سے بڑھ کر اجمل قصاب سے پاکستان دوستی اور پھر پاکستان کے بعض جہادی گروپوں سے تعلقات جوڑکر نہ صرف دکھاتاہے بلکہ ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ اس واقعہ کے پیچھے پاکستان کا ایک حساس ترین ادارے کا ہاتھ ہے۔

لیکن کرنی خدا کی یہ ہوئی کہ جس شخص کو ”اجمل قصاب “ بناکر پھانسی گھاٹ چڑھایاگیا وہ مرتے ہوئے ” خدا “ کو بھول کر ”بھگوان“ کو یاد کرنے میں لگا ہوا تھا۔ یہ بھی ہمارے اور بھارتی میڈیا کی کارستانیوں کو ظاہر کرنے کیلئے کافی ہے۔
کراچی میں پیش آنیوالے اس واقعہ کے ایک بھارتی اخبار نے لکھا ” بھارت میں بعض حملوں میں ملوث آئی ایس آئی اب پاکستانی صحافیوں کو بھی نشانہ بنانے لگی“ ایک اور اخبار نے لکھا ” اب پاکستانی صحافی بھی آئی ایس آئی کی نوک پر “ یہ تو صرف پڑوسی ملک کے اخبارات کا حال ہے ‘ یورپ اور خاص طورپر پاکستان کے حوالے سے بغض رکھنے والے ممالک کے اخبارات نے تو اس سے بڑھ کر ”اظہار یکجہتی “ کیا ۔


یقینا ایک سینئر صحافی‘ اینکرپرسن پر حملہ قابل مذمت ہے لیکن یہ بھی دیکھناضروری ہے کہ اس کے پس پردہ عوامل کیا ہیں؟ ہوسکتاہے کہ ا نہیں کسی ایسے گروپ نے نشانہ بنایاہو جوان کے ”نظریات“ سے اختلاف رکھتا ہو یا ان کے ادارہ کی ”لبرل پالیسی“ کا مخالف ہو ‘ یا یہ بھی امکان موجود ہے کہ اس گروپ کو سبق سکھانے کیلئے بعض دوسرے گروپوں نے یہ کاروائی کی ہو ‘ تاہم ایک” خوش آئند “بات یہ بھی ہے سامنے آچکی ہے کہ تحریک طالبان نے دامن جھٹکتے ہوئے خود کو اس واقعہ سے الگ قرار دیا ہے بلکہ بقول شاہد اللہ شاہد یہ حملہ بلوچ عوام پر خفیہ ادارے کے مظالم عیاں کرنے‘ پرویز مشرف کیس اوردیگر جرائم سے پرد ہ اٹھانے پر کیاگیا“ یعنی اس معاملے میں تحریک طالبان کا موقف بھی وہی ہے جو مذکورہ سینئر صحافی کے ادارہ کا ہے اور یہی موقف بیرون ملک سے آنیوالی امداد پر ”روزی روٹی“ کھری کرنیوالی این جی او ز کابھی ہے ۔

گویاپاکستان کے مقتدر ادارے کے ماتھے پربدنامی کا دھبہ لگانے میں ان تینوں کا ہاتھ ہے ۔ اب آگے چلئے کہ اس واقعہ کی جس انداز میں تشہیر جاری ہے اور ہوسکتاہے کہ آنیوالے دنوں میں اس تشہیر کو مزید ”موثر “ بنا دیا جائے ‘ تاہم اس کے مضمرات کا اندازہ شاید کو نہ ہوسکے بلکہ اب تو کہاجارہاہے کہ اس حساس ادارے سے نالاں بعض ممالک کے ہاتھ ایک اور سنہری موقع آگیا ہے کہ وہ اپنے پروپیگنڈہ کارخ( پاکستان کے بعض لوگوں کاہاتھ پکڑکر ) اسی ادارے کی جانب پھیر سکیں۔ آخری بات کے طورپر عرض کریں گے کہ آزاد ی ایک نعمت ہے لیکن قواعد کی پاسداری ‘اپنی حدود کاتعین بیحد ضروری ہے۔ آزادی کامطلب ”کپڑوں سے باہرہونا “ نہیں ہوتا

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :