ڈبہ پیر

ہفتہ 19 اپریل 2014

Manzoor Qadir Kalru

منظور قادر کالرو

پہلی دفعہ جعلی پیروں کے خلاف بھی قانون سازی کی گئی ہے۔برِ صغیر کی مٹی کی شاید تاثیر ہی ایسی ہے کہ یہاں کے بسنے والے اپنے سارے کام تعویذگنڈوں سے کروانا چاہتے ہیں۔ چاہتے ہیں کہ کھیت میں ہل بھی ٹریکٹر کی بجائے تعویز ہی چلا آئیں اور کھیت میں گوبر بھی ٹرالی کی بجائے موکل ہی پہنچا آئیں۔خالی پلاٹ پر لکڑی کھڑی کر کے تعویذ باندھ آئیں اور ہفتے بعد جائیں تو عالیشان فرنشڈ گھر منتظر ہو۔

بازو پر تعویذ باند لیں تو علم کتاب سے اچک کر ذہن میں چلا آئے۔خالی پیپر دے آئیں تو عاملوں کے موکل جواب لکھ آئیں۔اب وقت کے ساتھ ساتھ تعویذ گنڈوں کے ذریعے علم کی منتقلی کے دوران بعض اوقات مواصلاتی خرابی کی وجہ سے علم ادھر سے اُدھر منتقل نہیں ہوتا پاتا اور عاملوں کے پاس ہی واپس پہنچ جاتا ہے۔

(جاری ہے)

جیسے ڈاک کے ذریعے بھیجی جانے والی چٹھی مناسب پتہ نہ ہونے کی وجہ سے واپس بھیجنے والے کے پاس چلی آتی ہے۔

یہی وجہ ہے، یہ پیران پڑھ ہونے کے باوجود علم نجوم۔ علم ہندسہ۔ علمِ ہییت۔علمِ منطق۔ علمِ فلسفہ۔ علمِ نباتات۔ علمِ غیب۔ علمِ رمل۔ علمِ تصوف۔ علمِ مناظرہ کے پروفیسر بنتے جا رہے ہیں۔اور تو اور سائنسی علوم بھی ہاتھ باندھے انہیں عرض کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ حضور ہم سے پہلو تہی کیوں۔تھیوری تو ان کے پاس ہوتی ہی ہے ان کی لیبارٹری میں پریکٹیکل کے سامان کی بھی کوئی کمی نہیں ہوتی جیسے تیلئے کی تری، رتی کا تیل، کچا کچلہ، پرانے مردوں کی ہڈیاں،مٹی،سنگِ مرمر کے ٹکڑے،رنگوں کی پیالیاں، پرانی ہڈیاں، گاچنی ،گلہریوں کی دمیں، گدھوں گھوڑوں کے کُھر، کھالیں چونا،سیپ ،کوڈیا، املی بیج، سہاگہ ،کافور، ریٹھے کے بیج، کتے بلیوں کی ہڈیاں، رنگ برنگے سُوت کی اٹیاں، سکاکائی کی جڑیں،پرانا گڑ، پسے ہوئے کوئلے ،،ہلدی کی جڑیں وغیرہ وغیرہ ۔

کوئی شعبہ ان کی دسترس سے باہر نہیں ہوتا یہ ذہنی امراض کو بھی تعویذ گنڈوں سے ٹھیک کرتے ہیں۔انگزائیٹی ، ڈپریشن، فوبیا اور کمپلیکس کا علاج گدڑ سنگھیاں، کستوری،خاکِ شفا ، کیسر، شیر کی چربی،اُلو کی چونچ، ، عو د و عنبر،چڑے کا مغز، بارہ سنگھے کے سینگ، ، سفید سنکھیاں، سہیہ کے کانٹے سے کرتے ہیں۔ یہ تعویذ نکالنے کے لئے کالے مرغے یا کالے بکرے کا خون مانگتے ہیں۔

اگر اس کالے بکرے یا کالے مرغ کا گوشت پیر صاحب کے علاوہ کوئی اور کھا لے تو موکل ہڑتاک کر دیتے ہیں ۔دیسی بکرے کی توسری پائے تک موکل مریدوں کو نہیں کھانے دیتے۔ایک طرف یہ نوری مخلوق ہے تو دوسری طرف خاکی لوگ جس سے صبر و توکل بھی دامن بچاتے پھر رہے ہیں۔انتظار کو تو لوگ بوسیدہ چیز سمجھنے لگے ہیں۔لوگ چاہتے ہیں کہ ہم صبح جاگیں تو ہمارے صحن میں نوٹوں کا ڈھیر لگا ہوا ہو۔

ہوا چلے تونوٹ ادھر اُدھر یوں اڑتے پھریں جیسے درخت کے خشک پتے۔شام کو خرچ کرتے کرتے جو بچ جائیں وہ نوکروں اور نوکرانیوں کو کہیں اٹھا لو کیا یاد کرو گے۔لوگ بڑی بڑی شاہراہوں کی بجائے پگڈنڈیوں پر سفر کرنا چاہتے ہیں تا کہ منزل پر جلد سے جلد پہنچ سکیں۔ شارٹ کٹ اختیار کرنا چاہتے ہیں۔شارٹ کٹ میں ڈاکے ،چوری بعدپرائز بانڈوں اور تعویذ گنڈوں والا راستہ ۔

تعویذ گنڈوں والا راستہ کم خرچ بھی ہوتا ہے اور پرخطر بھی نہیں ہوتا۔ایسے لوگ عامل حضرات کا تر نوالہ بنتے ہیں اورعامل یہ نوالہ خوب چبا چبا کر کھاتے ہیں۔مزے کی بات یہ ہے کہ جن کی اپنی جیب خالی ہوتی ہے وہ غائبی طریقے سے نوٹوں کی آمد کا تعویذ دے رہے ہوتے ہیں۔عامل حضرات صرف نوٹ ہی نہیں بناتے بلکہ مردمی طاقت بھی دیتے ہیں۔وہ لوگ جن کی جیب گولڈ میڈلسٹ حکیموں (جن کے اشتہارات لاری اڈوں پر بسوں میں پھینکے جا رہے ہوتے ہیں) کا خرچ نہیں سہہ سکتی وہ مردمی طاقت کے لئے تعویذ لے لیتے ہیں کیونکہ حکیموں کی نسبت عامل ذرا سستے پڑتے ہیں ۔

عامل ساسوں بہوؤں، نندوں سوکنوں کے لئے بڑے کام کی چیز ہوتے ہیں۔ساسوں اوربہوؤ کا ہر گھر میں اکھاڑہ گرم رہتا ہے۔جس عامل سے ساس بہو کو زیر کرنے کا تعویذ لے آتی ہے دوسرے دن بہو اُسی عامل سے ساس کو زیر کرنے کا تعویذ لینے پہنچ جاتی ہے۔عامل حضرات دونوں کا دل نہیں توڑتے کیونکہ دل توڑنے سے پیسے کا نقصان ہوتا ہے۔سوکنوں کی سرد جنگ بھی عاملوں کے لئے بہت مالی منفعت کا باعث بنتی ہے۔

جس طرح وکیل دونوں پارٹیوں سے فیس وصول کر لیتا ہے۔ اسی طرح عامل بھی دونوں پارٹیوں سے خرچہ پانی بناتے ہیں،سوکن شوہر سے دوسری کے لئے نفرت کا تعویذ لے آتی ہے تو دوسرے دن دوسری فیس دے کر تعویذ کو اُلٹا کروا آتی ہے۔موکل بیچارے سر پکڑے ادھر اُدھر بھٹکتے رہتے ہیں کہ کیا کریں اور کیا نہ کریں۔انجام کی پرواہ کئے بغیر کام کو ادھورا چھوڑ کر روانہ ہو جاتے ہیں۔

من پسند کی شادیاں کرنے والے اور کرنے والیاں عاملوں کو بہت موج کرواتے ہیں۔نوجوان عاشق عاملوں کا بہت جلد تر نوالہ بن جاتے ہیں۔ان معصوموں کی حالت ایسی ہوتی ہے جیسا صحرا میں پیاسا۔ان پیاسوں کے سامنے عامل پانی کا پیالہ ادھر اُدھر کرتے رہتے ہیں لیکن انہیں پینے کے لئے پکڑاتے نہیں۔ یہ عاشق اپنی جیب خالی کروا کے بھی گردن اونچی ہی رکھتے ہیں۔

عامل انہیں عشقیہ اشعار کے ذریعے باور کراتے رہتے ہیں کہ عشق میں گھاٹے کا سودا تو ہوتا ہی نہیں اس راہ میں کھو کر بھی پایا ہی جاتا ہے۔ یہ رقم عاملوں کو دے کر اتراتے ہوئے جا رہے ہوتے ہیں کہ دیدار نہ بھی ہوا تو محبوب کے سر کا صدقہ ہی سہی۔یہ عامل اتنے دلکش اشتہار چھپواتے ہیں کہ پڑھے لکھے لوگ بھی روزگار کے لئے ان کے پاس پہنچ جاتے ہیں۔ایک تعویذ سے آجر آپ کے دروازے پر کہ جناب آئیں ہمارے فرم کو عزت بخشیں۔

اتنے دلفریب اشتہار دیکھ کر بے روزگاراُدھار کے پیسوں سے تعویذ لینے پہنچ جاتے ہیں۔ پیر صاحب نے صندوقچی پاس رکھی ہوتی ہے۔ پیسے ڈالتے وقت ذرا سا منہ دوسری طرف کر لیتے ہیں کہ جیسے انہیں پیسے کی کوئی پرواہ ہی نہ ہو لیکن کانی آنکھ سے دیکھتے بھی رہے ہوتے ہیں کہ کتنے ڈال رہا ہے۔وہ عامل جو پوڈر پیسے مانگ کر پی رہے ہوتے ہیں کروڑ روپے کاپرائز بانڈ نکلنے کاتعویذ دے رہے ہوتے ہیں۔

تعویذ کی کسی نے فینٹ چیک کرنی ہوتی ہے کہ کتنا گاڑھا ہے یا کتنا ہلکا۔فوٹو سٹیٹ والے سے دو دو روپے میں خرید کے کاٹ کاٹ کے صندوقچی بھر لیتے ہیں اور نعرہ ماکر یا دغیا تیرے ہی آس ہے ،دیتے چلے جاتے ہیں۔لگ گیا تو بھی مرید پکا اور نہ لگا تو بھی گھاٹے کا سودا نہیں۔مجبوراَ لوگ سستے داموں اُمیدیں خریدتے ہیں۔ ان پڑھ تو ان پڑھ پڑھے لکھے لوگ سہارے اور امیدیں خریدتے پھر رہے ہیں۔ دعا ہے اللہ اس حکومت کے ذریعے ان تنکوں کا سہارا ڈھونڈنے والوں کے لئے ذرائع روزگار پیدا فرمائے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :