نیا سیاسی منظر کیا نظر آتا ہے۔۔۔۔۔۔؟

منگل 15 اپریل 2014

Mubashir Mir

مبشر میر

چند ہفتے پہلے کی بات ہے کراچی کے پوش علاقے کلفٹن میں ایک انتہائی مختصر سی تقریب تھی جو پاکستان کی نمایاں خدمات انجام دینے والی خواتین کو خراج تحسین پیش کرنے کیلئے سجائی گئی تھی۔ اس خوبصورت شام میں جہاں کامیابیوں پر گفتگو ہورہی تھی وہاں لوگ سیاسی "Gossips" بھی کررہے تھے۔ تقریب کے اختتامی لمحات میں میری ملاقات ایک سینئر ڈپلومیٹ سے ہوئی، میرے ہمراہ ایک سینئر جرنلسٹ بھی تھے، ہم دونوں ان سے ملک کی داخلی سیاسی صورتحال پر گپ شپ کررہے تھے، اس وقت چند روز بیشتر ہی کالعدم تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے جنگ بندی کا اعلان ہوا تھا، لیکن اس کے باوجودچند ایک دہشتگردی کے واقعات بھی ہوچکے تھے۔

ہماری گفتگو کا سلسلہ جاری تھا کہ بات مڈل ایسٹ کی سیاست تک پہنچ گئی اور جب مڈل ایسٹ پر بات ہوگی تو آج کل لامحالہ شام کی خانہ جنگی کا تذکرہ ضرور آتا ہے۔

(جاری ہے)

چنانچہ یہی ہوا، شام اور اس کے صدر بشارالاسد کے حوالے سے بات ہونے لگی۔
محترم سینئر ڈپلومیٹ نے ایک سوال اٹھایا کہ شام میں اس لیے لوگ حکومت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں کیونکہ ایک اقلیت، اکثریت پر مسلط ہے اور وہاں جمہوریت نہیں اور مغرب وہاں اس لیے لڑنے والوں کی حمایت کررہا ہے کہ اقلیت کی جگہ اکثریت کے نمائندے برسراقتدار آئیں۔

ان کی بات میں بہت وزن تھا لیکن جب میں نے ان سے مڈل ایسٹ کے دیگر ممالک کی طرف ان کی توجہ مبذول کروائی کہ ان ممالک میں بھی اور خلیجی ریاستوں میں بھی اسی طرح کی کیفیت موجود ہے تو پھر مغرب ان کے بارے میں مختلف نظریہ کیوں رکھتا ہے؟ اس سوال کا جواب دینے کی بجائے موصوف گفتگو کا ہی بائیکاٹ کرکے چلے گئے اور اس سوال کا جواب دینے سے انکار کیا بلکہ گپ شپ کا سلسلہ ہی ختم ہوگیا ۔

ان کے جانے کے بعد میرے صحافی دوست نے ایک زور دار قہقہہ لگایا اور میرے ہاتھ پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا کہ شاید وہ اس طرح کے سوال سننے کے موڈ میں نہیں تھے، اور نہ ہی توقع کررہے تھے۔
بہرحال ہم بعد میں اس پر تبصرہ کرتے ہوئے اپنے اپنے آفس کی طرف چل پڑے کہ بڑے بڑے ممالک کی سوچ اور عمل میں اس قدر تضاد کیوں ہے ؟ اس سوال کا جواب یہی آتا ہے کہ دنیا کا ہر ملک اپنے مفادات پر نظر رکھے ہوئے ہے۔

اقدار کی پرواہ کون کررہا ہے ۔ یہ گفتگو ابھی ذہن میں تازہ تھی کہ پاکستان کو اپنے دوست ملک سے ملنے والا ڈیڑھ ارب ڈالر کا تحفہ، کی گونج میڈیا کے ذریعے پورے ملک میں سنائی دینے لگی۔ مزید اور بھی سہولتیں ملنے کی نوید کی شیریں زبان زدعام ہوگئیں۔
بات ابھی یہی ختم نہیں ہوئی تھی کہ سابق صدر پرویز مشرف کے کیس میں بھی اتار چڑھاؤ آنے شروع ہوگئے اور پھر وفاقی وزراء کے تندوتیز بیانات ، چیف آف آرمی اسٹاف اور کور کمانڈرز کے تحفظات اپنی اپنی جگہ اہمیت کے اعتبار سے خبروں کی زینت بن رہے ہیں۔

لیکن ایک خبر نے کافی چونکا دیا جو نیویارک ٹائمز میں شائع ہوئی کہ القاعدہ کے بہت سے افراد، شامی باغیوں کی مدد کیلئے پاکستان سے شام پہنچ چکے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ القاعدہ کی قیادت امریکہ یا اس کے اتحادی ممالک میں حملہ کی منصوبہ بندی شام میں کریں گے۔ میرے نزدیک یہ بات زیادہ چونکادینے والی ہے ۔ اس سے یہ اشارہ ضرور ملتا ہے کہ اگر ایک مرتبہ پھر 9/11 جیسا کوئی واقعہ ہوا تو مغربی افواج کو شام میں اترنے سے روکنا دنیا کے کسی ملک کے بس میں نہیں ہوگا۔

روس نے کریمیا واپس لے کر اپنی جس طاقت کا مظاہرہ کیا ہے وہ پھر شاید شام کو بچانے کیلئے اس طاقت کا مظاہرہ نہ کرپائے ۔ اگر چہ پہلے اسی کی وجہ سے امریکہ شام پر حملے سے باز رہا۔ امریکہ کو اس بات کی فکر نہیں ہوتی کہ گذشتہ جنگوں کے حوالے سے اس کے کردار کے بارے میں اس کے عوام اور دنیا کیا سوچتی ہے ، اُن سے محبت کرتے ہیں یا نفرت بلکہ اُسے دنیا میں ایک نیا محاذ اپنے کنٹرول میں لینے کی فکر زیادہ تنگ کرتی ہے۔

نیویارک کی گلیوں کی میں، میں نے 9/11 کے حوالے سے امریکہ کے کردار کے متعلق وال چاکنگ بھی دیکھی تھی۔ اس کے اپنے کئی لوگ اس پر اسٹیٹ سے مختلف نقطہ نظر بھی رکھتے ہیں۔ لیکن جنگی حیثیت کو سنبھالا دینا اور برقرار رکھنا اس کی ضرورت بن چکا ہے۔ اسی وجہ سے ان کا ہر صدر ایک محاذ بند کرتا ہے اور ایک نیا کھولتا ہے۔
جنوبی ایشیا میں پاکستان میں موجودہ حکومت آئندہ چند ہفتوں بعد اپنا پہلا سال مکمل کرلے گی، ایران میں نئی حکومت آنے سے حالات میں تبدیلی کا سفر شروع ہوچکا ہے۔

افغانستان میں الیکشن کے نتائج آنے کے بعد وہاں کی قیادت میں تبدیل ہوجائے گی جبکہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت والا ملک بھارت میں بھی نئی قیادت آنے کی طرف اشارے واضح ہوچکے ہیں۔ اس لیے یوں دکھائی دیتا ہے کہ ستر کی دہائی سے شروع ہونے والا وارزون اب آہستہ آہستہ نارمل حالات کی طرف بڑھنا شروع کردے گا اور ایک نیا محاذ جو اگر چہ بالکل نیا نہیں ، لیکن نئی شکل کے ساتھ اپنی پوری شدت کے ساتھ دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا۔

کہا جارہا ہے کہ آئندہ چند ماہ میں شام کے صدر بشار الاسد الیکشن کروانے کا ارادہ رکھتے ہیں اور اگر انہوں نے الیکشن میں کامیابی حاصل کرلی تو پھر وہ سیاسی طور پر بہت مضبوط ہوجائیں گے۔ ان کے خلاف کاروائی کرنا اخلاقی طور پر بُرا تصور کیا جائے گا۔ لہذا کسی طرح اس الیکشن سے پہلے ایسی کیفیت پیدا ہوجائے جس سے الیکشن ممکن نہ ہوسکیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس سارے منظر نامے میں پاکستان کہاں کھڑا ہے، پاکستان سے دنیا کس قسم کی توقعات رکھتی ہے۔

اور کرنا کیا چاہیے ۔ ایک سیاسیات کا طالبعلم ہونے کے ناطے میں یہ کہنے کی جسارت کرسکتا ہوں کہ پاکستان کسی ایڈوینچر کا حامل نہیں ہے۔ اگر نیویارک ٹائمز کی خبر کو کسی حد تک درست سمجھ لیا جائے تو صورتحال بہت خراب دکھائی دیتی ہے۔ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ موجودہ طالبان یا القاعدہ کے شام چلے جانے سے ہمارے مسائل ختم ہوجائیں گے تو شاید وہ اس حقیقت سے نظریں چرا رہے ہیں کہ پرائی آگ کی جلنے کی تپش ہم تک نہیں آئیگی جبکہ ہم بھی اس آگ کا ایندھن مہیا کرنے میں شامل ہوں۔

یقینا اس کے اثرات سے ہم متاثر ہوسکتے ہیں۔ اگر شام کی جنگ بھی افغانستان کے فارمولے پر ہی لڑی گئی تو پھر مغربی اقوام ایک تو اس میں کامیاب ہوجائیں گی کہ انہوں نے دو مسلم مکتبہٴ فکر کو ایک دوسرے کے خلاف صف آراء کردیا۔ دوسرا اس کا جنگ ایندھن ہم جیسے ممالک مسلسل اسی طرح فراہم کریں گے جس طرح افغانستان میں کیا گیا تھا۔ بھارت کے الیکشن میں بی جے پی کی کامیابی سے اگر نریندر مودی ہی وزیراعظم بن گئے تو شاید مغربی اقوام کا وہ خواب کسی حد تک ضرور شرمندہٴ تعبیر ہوگا کہ وہ بھارت سے جنوبی ایشیاء میں جس قسم کے کردار کی توقع رکھتے ہیں وہ بھارت کرنے کو تیار ہوجائے۔

اس الیکشن میں ہندو نیشنل ازم کو ابھارا گیا ہے۔ بھارت سیکولر حیثیت سے وہ کردار ادا نہیں کرسکتا جو مڈل ایسٹ میں اسرائیل کرتا ہے۔ اس لیے اگر ہندو نیشنل ازم کے نظریات کی جماعت بھارت میں برسراقتدار آگئی تو پھر عملاً وہاں کا معاشرہ مسلم اور ہندو میں بری طرح تقسیم ہوجائے گا اور سیکولر ازم کے فروغ کیلئے کی گئی کوششیں دھری کی دھری رہ جائیں گی۔


بھارت کے اندر بھی وہاں کی دانشور کلاس بھارت کا امریکہ کی طرف بہت زیادہ رحجان رکھنے کی پالیسی کو پسند نہیں کرتی بلکہ وہ وزیراعظم نہرو کی غیرجانبدار پالیسی کی اب بھی حمایتی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ ہندو نیشنل ازم کے فروغ سے برسراقتدار آنے والی جماعت پاکستان اور چین کے علاوہ اپنے دیگر ہمسایہ ممالک سے کس طرح کے تعلقات رکھتی ہے۔
پاکستان نے اگر اپنے اندرونی مسائل سمیت سیاسی مسائل کو سلجھانے میں مزید تاخیر کی تو کمزور پوزیشن سے مسائل اور بڑھ جائیں گے۔


سول ملٹری تعلقات میں ہمارا ریکارڈ تاریخی طور پر بہت پریشان کن رہا ہے۔ اور اب بھی یہ ایک بہت بڑا چیلنج دکھائی دیتا ہے۔ یوکرائن کے صدر نے گذشتہ دنوں ایک بات کہی تھی کہ ہم نے ایٹمی ہتھیاروں سے دستبردار ہو کر بہت بڑی غلطی کی گویا طاقت سے دستبرداری، جرم ضعیفی ہے۔ ہمیں بھی اس سے سبق سیکھنا چاہیے کہ فوج ہماری طاقت ہے ۔ اسے کمزور کرنے کی کوشش نہ کریں بلکہ ورکنگ ریلیشن شپ بنانے پر توجہ دیں۔


حالیہ دنوں پاکستان کے سا بق سفیر برائے اقوام متحدہ محترم حسین ہارون سے ایک نشست ہوئی تو ان کا کہنا تھا کہ دشمن کی پہچان ہونی چاہیے۔ اور اپنی طاقت کو برقرار رکھنا ہی اصل کامیابی ہے۔
سیاسی استحکام اور معاشی خوشحالی کی منزل حاصل کرنے کیلئے فوجی طاقت لازم ہے ورنہ یوکرائن ، افغانستان اور عراق کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ سینئر ڈپلومیٹ کی گفتگو سے واضح تھا کہ مغرب اپنے مفادات کو سامنے رکھ کے ہی حمایت کرتا ہے یا مخالفت۔

تو پھر ہم پرائی آگ اپنے دروازے تک کیوں لے آتے ہیں جبکہ ہمیں فائدے کم اور نقصان کا اندیشہ زیادہ ہوتا ہے۔
نیا سیاسی منظر نامہ جو بھی ہوگا اس میں ہمیں کردار پر نظر رکھنی چاہیے اور باشعور عوام کو محض تماشائی بننے کی بجائے ملک کے فیصلے کرنے والوں تک اپنی رائے پہنچانی چاہیے ۔ یہی زندہ اور بیدار قوموں کی نشانی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :