بڑستن

پیر 14 اپریل 2014

Yede Beza K Qalam Se

ید بیضاء کے قلم سے

مولوی صاحب کسی دعوت سے لاندی کا گوشت کھا کے آئے تھے۔ لاندی بنیادی طور پر سوکھے ہوئے گوشت کو کہا جاتا ہے۔ پہاڑی علاقوں میں بسنے والے لوگ اس زمانے سے اس کا اہتمام کر رہے ہیں جب ابھی آمد و رفت کے ذرائع مفقود تھے۔ کچھ دنبوں کو ذبح کر کے ان کی کھال سے بال نوچ لیے جاتے ہیں۔اور پھر پیٹ سے سارے ایکسیسریز کو نکال کر سالم دنبے کو آگ پر اتنا پکایا جاتا تھا کہ اس کی کھال پک جاتی۔

اس کے بعد اس کے ٹکڑے کر کے خوب نمک لگا کے کسی کمرے میں لٹکا دیا جاتا ہے۔ حتی کہ گوشت خراب ہوئے بغیر سوکھ جاتا۔ اس گوشت کو پھر دسمبر سے مارچ تک جب پہاڑی راستے بند ہوتے اس وقت استعمال کیا جاتا۔ گو کہ اب راستے بھی کم بند ہوتے ہیں اور آمد ورفت کے ذرائع بھی ذیادہ ہیں ۔لیکن اس گوشت کا ذائقہ اب بھی اتنا ہے کہ اس کا باقاعدہ اہتمام آج بھی بلوچستان کے کچھ سرد علاقوں میں اور کوہستان میں صاحب حیثیت لوگ کرتے ہیں ۔

(جاری ہے)

اور دسترخوان پر ایک اعلی کھانے کی صورت میں پروسا جاتا ہے۔ اس کی تاثیر کے بارے میں وہی کچھ کہا جاتا ہے جو نیم حکیم قسم کے لوگ اپنے اشتہاروں ہر دیوار پر لکھ کر مردوں کو دعوت علاج دیتے ہیں۔
مولوی صاحب کسی ایسے ہی صاحب ثروت کی دعوت سے لاندی کھا کے آئے تھے۔ سخت سردی میں اپنے بڑستن میں لیٹے ہوئے تھے۔ بڑستن کے لیے کسی تفصیل کی کوئی چنداں حاجت نہیں ہے بلکہ اس کو لحاف ہی کہتے ہیں لیکن ادھر لاندی کے تاثیر کا ذکر ہوا اور لحاف لکھ دیں تو لوگوں کو خواہ امخواہ چغتائی جی کا لحاف یاد آئے گا اور وہ اس کو آپس میں جوڑنے کو کوشش میں اسے بھی کسی نیم حکیم کا اشتہار نہ سمجھ لیں اس لیے لحاف کو سنجیدہ نوعیت کے مقامات پر اگر بڑستن لکھا جاے تو آسانی رہتی ہے۔


بات لمبی نہ ہو جائے اس لے وہیں سے شروع کرتے ہیں کہ مولوی صاحب لاندی کھا کے بڑستن میں لیٹتے ہی سو گئے۔ میرمن بیچاری پریشان تھی کہ مولوی صاحب کہ منہ اور ناک سے برآمدہونے والی آوازوں، سیٹیوں اور خراٹوں نے تینوں بچوں کو جگا دیا۔ میرمن نے مولوی صاحب کو بہت ہلایا جلایا کہ کسی طرح یہ خراٹے اور سیٹیاں بند ہو جائیں لیکن مولوی صاحب نہ جنبد۔

۔۔
کوئی دو گھنٹے کی مشقت کے بعد بچے سو گئے۔ ابھی میرمن بیچاری لیٹی ہی تھیں کہ باہر گلی سے شور اور کچھ لوگوں کے جھگڑنے کی آواز آئی اور ساتھ ہی کتوں نے بھونکنا شروع کر دیا۔
میرمن نے بڑی مشکل سے مولوی صاحب کو اٹھایا۔۔مولوی صاحب میرمن پر برس پڑے۔۔او نیک بخت۔۔تم کو پتہ ہے مجھے صبح جماعت پڑھانی ہے۔ سونے دو۔۔خواہ مخواہ دوسروں کے جھگڑے میں ٹانگ اڑانا اچھی بات نہیں ہے۔


اس زمانے کے مولوی صاحبان اپنے گھر سے باہر کسی کے جھگڑے میں ٹانگ اڑانا اپنے فرض منصبی اور اپنی اخلاقیات کے خلاف گردانتے تھے۔ یہ تو آج کل پتہ نہیں کیا بدل گیا کہ مولوی صاحب اپنی ٹانگ عین ریاست کی گردن میں اڑا دی ہے ۔ خیر یہ تو ایک غیر متعلق سی بات تھی۔ مولوی صاحب کو خاتون خانہ نے اکسایا کہ گھر کے باہر رات کے اس پہر جھگڑا ہو رہا ہے اور آپ بڑستین میں آرام سے لیٹے ہوئے ہیں۔

۔جائیں اور کوئی خیر خبر لے لیجیے۔ صبح جماعت میں ملک صاحب نے پوچھ لیا تو بہت سبکی ہو جائے گی۔
چاروناچار مولوی صاحب اٹھے اور سردی سے بچنے کے لیے اپنا بڑستن بھی ساتھ ہی لے لیا۔ باہر گلی میں گھپ اندھیرا تھا۔ چھوڑو۔۔مارو۔۔۔ پکڑو۔۔۔تیری یہ۔۔۔تیری وہ۔۔۔کچھ سمجھ نہیں آ رہاتھا۔ کہ کون لڑ رہا ہے؟ کیوں لڑ رہا ہے؟ کس بات پر لڑ رہا ہے۔۔۔

مولوی صاحب بھی بلا سوچے جانے بیچ بچاوٴ کرانے بیچ میں کود پڑے۔اب کوئی ادھر سے پکارے۔۔شاباش مولوی صاحب۔ کوئی ادھر سے شہ دے۔۔نا چھوڑنا مولوی صاحب۔۔کوئی پندرہ منٹ کی ہائے ہوئی کے بعد مولوی صاحب کو احساس ہوا کہ ان کے گرم اون کا بڑستن غائب ہے۔مولوی صاحب نے چیخنا شروع کردیا۔۔میرا بڑستن کہاں گیا؟ میرا بڑستن۔۔۔
گلی میں خاموشی چھا گئی۔

کچھ من چلے ادھر ادھر ہو گئے۔مولوی صاحب نے بہت وایلا کیا۔ چور کی ساری وعیدیں بیان کیں۔ہمسایہ داری کے حقوق والی جو تقریر یاد تھی وہ ساری سنا دی۔لیکن سب خاموش۔۔آس پاس جو دو چار لوگ بچے تھے انہوں نے بھی خاموشی سے اپنی اپنی راہ لی۔ مجبوراً مولوی صاحب بھی گھر ہو لیے۔
میرمن نے بے تابی سے پوچھا۔۔کون تھے؟ کیوں لڑ رہے تھے؟ کس بات پر لڑ رہے تھے؟ مولوی صاحب نے بہت افسوس اور ترشی سے جواب دیا۔

اوے نیک بخت!!! کوئی جھگڑا وگڑا نہیں تھا۔۔۔میرے بڑستن کے لیے لڑ رہے تھے۔۔بڑستن ہاتھ آیا اور جھگڑا ختم۔
کچھ لعن طعن کے بعد مولوی صاحب نے وضو کیا اور صبح کی جماعت پڑھانے کی لیے نکلے۔۔جماعت کے بعد کچھ روشنی ہوئی تو مولوی صاحب نے بھی گھر کی راہ لی۔۔گھر کے دروازے پر پہنچ کر ان کو اپنے بڑستن کے دو چار ٹکڑے پڑے مل گئے۔ٹکڑے اٹھا کر گھر آئے اور میرمن کو بلایا اور بہت افسوس سے گویا ہوئے۔

۔
نیک بخت! آج ایک بات سمجھ آئی۔ جو بھی دوسروں کے جھگڑے میں ٹانگ اڑاتا ہے۔۔اس کا نہ صرف اپنا بڑستن غائب ہوتا ہے بلکہ اس کے ٹکڑے بھی اپنے گھر کے سامنے پڑے ملتے ہیں۔۔
ویسے یاد آیا کہ ہمارا بڑستن بھی ضیاء بابا کابل لے کر گئے تھے۔ اب اس کے ٹکڑے کبھی وزیرستان سے ملتے ہیں۔۔کبھی سوات سے۔۔کبھی بلوچستان سے۔۔۔۔میاں صاحب کے سر پر سیاست کی پگ بھی ضیاء صاحب نے رکھی تھی۔ اللہ کرے کہ میاں صاحب کو یہ ٹکڑے سمیٹنے کی توفیق مل جائے۔ کہ آج کل کچھ مولوی صاحبان نے آئین میں ٹانگ اڑائی ہے!!!کچھ نے مذاکرات میں ٹانگ اڑائی ہے۔۔۔اور کچھ نے تو ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر گود میں بندوق رکھی ہے اور دعوت دیتے ہیں۔۔کہ لیں ذرا اٹھا کر دکھائیں اپنے بڑستن کے ٹکڑے!!!!!!

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :