صوبہ ہزارہ خواب یا حقیقت۔۔۔۔؟

جمعہ 11 اپریل 2014

Umer Khan Jozvi

عمر خان جوزوی

بابا حیدر زمان صوبہ ہزارہ بنانا چاہتے تھے لیکن اس وقت کے سیاستدانوں نے ایسا نہیں ہونے دیا اور اسی وجہ سے صوبہ ہزارہ کا قیام جو حقیقت کا روپ دھارنے کے قریب تھا ایک خواب بن کر رہ گیا۔ یہ وہ الفاظ ہیں جو ہماری آنے والی نسلوں کے نوجوان اور بچے اپنے بزرگوں سے سنیں گے۔ یہ سن کر ہمارے ان نوجوانوں اور بچوں پر کیا گزرے گی۔ اس کا نہ تو ہمیں احساس ہے اور نہ ہی کچھ اندازہ۔

مانا کہ صوبہ ہزارہ کا قیام ایک مشکل کام تھا لیکن ناممکن ہرگز نہیں۔ قائد تحریک صوبہ ہزارہ بابا سردارحیدر زمان نے عوام کو ایک پلیٹ فارم پر متحد کرکے اس مشکل کو ذرہ نہیں کافی حد تک آسان بنا دیا تھا۔صرف اپنے نہیں بیگانے بھی آج بھی یہ تسلیم کرتے ہیں کہ سانحہ بارہ اپریل کے بعد تھوڑی سی محنت اور کرکے بابا کے ہاتھ مضبوط کئے جاتے تو برسوں کا سفر اگر گھنٹوں میں نہیں تو دنوں میں ضرور طے ہو سکتا تھا۔

(جاری ہے)

لیکن غیروں کی سازشوں اور اپنوں کی بے وفائی نے ایسا نہیں ہونے دیا۔ طوطا ہاتھ میں نہ آئے اس کا صرف افسوس ہوتا ہے لیکن جب ہاتھ سے طوطا اڑے تو اس کا پھر صرف افسوس ہی نہیں بلکہ دل پر ایک چوٹ لگتی ہے۔ صوبہ ہزارہ کی منزل پاکر کھو دینے سے اہل ہزارہ کے دلوں پر جو زخم لگے ہیں وہ شائد نہیں یقیناً برسوں بعد بھی ٹھیک نہیں ہو سکیں گے۔ قیمتی جانیں ضائع کرنے کے بعد حقیقی منزل سے الٹے پاؤں واپسی یہ کوئی چھوٹا واقعہ یا معمولی غلطی نہیں کہ جسے فراموش کیا جا سکے۔

ہماری آنے والی نسلوں کے سامنے جب صوبہ ہزارہ کے سلسلے میں شہدائے ہزارہ کی قربانیوں کا تذکرہ ہوگا تو وہ ایسے میں ہمارے کردار کے بارے میں کیا سوچیں گے۔۔؟ کیا وہ ہم میں سے ہی کسی کو میر جعفر اور میر صادق کا نام دینے میں ذرہ بھی بخل سے کام لیں گے۔۔؟ ہم جو بھی کارنامہ سرانجام دیتے ہیں وہ تاریخ کا ایک حصہ بن جاتا ہے اور تاریخ کو پھر جھٹلانا کسی کے بس کی بات نہیں۔

صوبہ ہزارہ کے نام پر ذاتی مفادات کا کھیل کھیل کر تاریخ کا ایک باب ہم اپنے نام کر چکے ہیں۔ اب ہمیں صرف یہ انتظار کرنا چاہیے کہ وہ باب ہماری آنے والی نسلیں پڑھ کر گالیوں کے ذریعے ہمیں یاد کریں۔ بارہ اپریل آتے ہی مفاد پرست موسمی پرندوں کی طرح صوبہ ہزارہ بنانے کیلئے اپنے اپنے بلوں سے نکل آتے ہیں۔ کل جب بارہ اپریل ہے اب ایک مرتبہ پھر ایبٹ آباد سمیت مانسہرہ ،ہریپور اور ہزارہ کے دیگر شہروں میں صوبہ ہزارہ کے نعرے بلند ہونا شروع ہوگئے ہیں۔

وہی لوگ جو صوبہ ہزارہ کی منزل کو قریب سے کوسوں دور لے کے گئے اور جنہوں نے مشکل کو ناممکن سا بنایا۔ آج وہی ایک بار پھر عوام کو صوبہ ہزارہ کا لالی پاپ دے رہے ہیں۔ ہر شخص کی یہ خواہش ہے کہ وہ صوبہ ہزارہ کے نام پر کچھ نہ کچھ ضرور حاصل کرے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر شخص صوبہ ہزارہ کو آڑ بنا کر مفادات کے پیچھے بھاگتے جارہا ہے۔ ایک صوبہ ہزارہ بنانے کیلئے کئی گروپ اور پارٹیاں وجود میں آچکی ہیں اگر یہ لوگ مخلص ہیں اور واقعی صوبہ ہزارہ بنانا چاہتے ہیں تو پھر دو دو اینٹ کی الگ الگ مسجد بنانے کی کیا ضرورت۔

۔؟ حقیقت تو یہ ہے کہ منہ پر صوبہ ہزارہ صوبہ ہزارہ کرنے والوں میں اکثر کی منزل اسلام آباد اور پشاور ہے جہاں کی نرم گرم کرسیاں ہر انسان کو ہر چیز سے بے پرواہ کرتی ہیں۔ صوبہ ہزارہ کے قیام کو کل سے کل پر لٹکانے اور طول دینے میں ہی مفاد پرستوں کی کامیابی ہے۔ جو درخت پھل نہ دے زمیندار اس کو کاٹ دیتے ہیں لیکن پھلدار درخت کو کوئی کاٹتا نہیں بلکہ اس کا ہر ممکن تحفظ کیا جاتا ہے۔

مطلب یہ ہے کہ صوبہ ہزارہ ایشو اگر پھلدار نہ ہوتا تو مفاد پرست اس کا کوئی نہ کوئی حل نکال کر اس مسئلے کو ہمیشہ کیلئے ختم کرتے لیکن حالات و واقعات بتا رہے ہیں کہ صوبہ ہزارہ ایشو سے ایک نہیں کئی سو کے مفادات وابستہ ہیں۔ اس لئے وہ نہیں چاہتے کہ یہ مسئلہ ختم ہو۔ دراصل جو چیز سیاستدانوں کے ہتھے چڑھے سیاستدان اتنی جلدی اس کو پھر چھوڑتے نہیں۔

ہزارہ کے عوام لاکھ چاہیں اگر ہزارہ کے سیاستدان نہیں چاہتے تو صوبہ ہزارہ کا فوری قیام کیسے عمل میں آئے گا۔۔؟ صوبہ ہزارہ کے قیام کے دو اہم مواقع ضائع ہو چکے تیسرا موقع ملنے کا امکان ہی آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ ایسے میں جب تک صوبہ ہزارہ سے ہزارہ کے سیاستدانوں، جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کے مفادات وابستہ ہیں اس وقت تک صوبہ ہزارہ کی سالگرہ و برسی منانے کا سلسلہ توجاری رہے گا۔

لیکن جب مفادات پورے اور صوبہ ہزارہ کے نام پر کچھ ملنے کا سلسلہ بند ہوگیا تو پھر صوبہ ہزارہ کی کہانی بھی ختم ہو جائے گی۔ اس لئے صوبہ ہزارہ اٹل حقیقت سے اب صرف ایک خواب بن کر رہ گیا ہے۔ سال کے 365 دنوں میں محض 12 اپریل کے ایک دن سڑکوں پر نکل کر نعرے مارنے اور قسمیں اٹھانے سے آج تک صوبہ کیا کوئی ضلع بھی نہیں بنا ہے اور نہ ہی کبھی بن سکتا ہے۔ایسے میں سال میں ایک دن صوبہ ہزارہ کے نام کرنے والے صوبہ ہزارہ کیسے بنائیں گے۔۔؟شائدیہ ان کوبھی معلوم نہ ہو

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :