ہم سبق نہیں سیکھیں گے

جمعہ 11 اپریل 2014

Muhammad Irfan Nadeem

محمد عرفان ندیم

یہ واقعہ مجھے یو نان میں مقیم ایک پاکستانی نے سنایا تھا۔یونانی تہذیب نے ایک عرصے تک دنیا پر حکمرانی کی ہے ۔ڈھائی تین ہزارسا ل قبل یونان دنیا کی واحد سپر پاور تھی اور اس دور میں یونانی تہذیب و ثقافت کا ڈنکا پورے عالم میں بجتا تھا ۔آپ کسی بھی سائنسی یا سماجی علم کی اصطلاح کو اٹھا کر دیکھیں آپ کو نظر آئے گا اصل میں وہ اصطلاح یونانی زبان میں تھی بعد میں اسے دیگر زبانوں میں منتقل کیا گیا ۔

دنیا کی پانچ ہزار سالہ تاریخ میں دو قوموں نے ترقی کی ہے ایک ،عرب ،دوسری انگریز ۔اہل عرب نے جتنی ترقی کی اس کے دو بنیادی مآخذ تھے ،ایک ،وحی کے علوم جن کے ذریعے اہل عرب نے اخلاقیات ،معاشرت ،تہذیب ،تصوف ،معاملات اور معاشیات میں ترقی کی ،دو ،قدیم یونانی علوم جن کے ذریعے اہل عرب نے دنیا کے علوم سیکھے او ردنیا کو ایک نئے انداز سے سمجھنے اور جاننے کی کو شش کی ۔

(جاری ہے)

اسلامی عہد کے نامور خلیفہ ہارون الرشید نے باقاعدہ ایک ادارہ قائم کیا تھا جس کا مقصد صرف یہ تھا کہ قدیم یونانی علوم کو عربی میں ٹرانسلیٹ کیا جائے تا کہ اہل عرب قدیم یونانی حکماء سقراط ،بقراط ،ارسطو اور افلاطون کے علوم سے استفادہ کر سکیں ۔جمہوریت کا ابتدائی تصور بھی اہل یونان نے پیش کیا تھا اور ہماری موجودہ جمہوریت کی عمارت اسی یونانی فلسفہء جمہوریت کی بنیادوں پر استوار ہے ۔

ابتدا میں یونان میں چھوٹی چھوٹی ریاستیں ہوتی تھیں اور ہر ریاست کا اپنا ایک بادشاہ ہوا کرتا تھا ، ریاست کی آبادی ایک تا دس ہزار تک ہو تی تھی، ریاست کا بادشاہ جب کسی مسئلے پر قانون سازی کرنا چاہتا تو عوام کو کسی کھلے میدان میں جمع کر کے ان سے رائے لے لیتا یہ جمہوریت کی ابتدائی شکل تھی اور جمہوریت کا یہ پودا بھی یونان کی سرزمین پر پروان چڑھا ۔

یونان یورپ میں بحیرہء اجین کے کنارے پر واقع ہے اور اس کی سرحدیں البانیہ ،مقدونیہ ،بلغاریہ اور ترکی سے ملتی ہیں ،یونان کی آبادی ایک کروڑ دس لا کھ ہے اور یہاں 98فیصد آرتھو ڈوکس عیسائی پائے جاتے ہیں ۔آرتھو ڈوکس کا مطلب ہے پختہ اور راسخ العقیدہ عیسائی آپ اگر دنیا میں عیسائیت کی اصل شکل دیکھنا چاہتے ہیں تو یونان اس کے لیئے بہترین جگہ ہے ۔

یونان میں مسلمان صرف ایک فیصد ہیں اور وہ بھی یونان کے اصلی باشندے نہیں بلکہ یہ وہ لو گ ہیں جو پاکستان ،بھارت ،بنگلہ دیش اور بعض عرب ریاستو ں سے چوری چھپے یا ایجنٹوں کے ذریعے یونان میں داخل ہو ئے ہیں ۔غیر قانونی طریقے سے یورپ میں داخلے کے خواہش مند افراد کے لیے استنبول کے بعد یونان پہلی منزل ہو تی ہے اور یونان کا دارالحکومت ایتھنزان کی پہلی قیام گا ہ ،میرے دوست نے جو واقعہ مجھے سنایا وہ بھی ایتھنز میں ہی پیش آیا تھا ۔

وہ واقعہ کیا تھا آپ اسی کی زبانی سنیں ”یہ ایتھنز شہر کی ایک مضافاتی بستی تھی ہم چند پاکستانی جو روزگار کی غرض سے یونان آئے تھے ایک چھوٹے سے کمرے میں رہائش پذیر تھے ۔ہمارے پاس دو کمرے تھے ،ایک کمرے کو ہم نے مسجد ڈکلیئر کر دیا تھا اور دوسرے کمرے میں ہم سب کھانا کھاتے اور آرام کرتے تھے ۔ایک رات ہم سب عشاء کی نماز پڑھ کر سو گئے ،رات کے آخری پہر ہمیں محسوس ہوا جیسے ہم پر حملہ کر دیا گیا ہو ،آنکھیں کھلیں تو معلوم ہوا ہم واقعی انتہا پسند عیسائیوں کے نرغے میں تھے اور ہم پر چاروں طرف سے پتھروں سے حملہ کردیا گیا تھا ،دیار غیر میں کس سے ہمدردی کی امید رکھتے اوروہ بھی غیر مذہب والوں سے ،موت آنکھوں کے سامنے رقص کر تی دکھا ئی دی ،ابھی ہم بمشکل اپنے حواس بحال کر پائے تھے کہ باہر پولیس کی گاڑیاں چیختی چنگھاڑتی آپہنچیں ۔

پولیس نے آ کر صورتحال کو کنٹرول کیا انتہا پسندوں کو منتشر کیا ہمیں تسلی دی اور آئندہ محتاط رہنے کی تلقین کر کے چلے گئے ۔ہمیں معلوم نہیں تھا کہ پولیس کو کس نے اطلاع کی ،بعد میں پتہ چلا ہمارے ساتھ والے ہمسائے جو خود بھی عیسائی تھے انہوں نے پولیس ہیلپ لائن پر کال کی اور یوں ہم ا یک بڑے نقصان سے بچ گئے “
اب آپ ایک دوسرا واقعہ ملاحظہ کریں ۔

چند روز قبل لاہور کے ایک مرکزی چوک پر دو نوجوان ایک باریش بزرگ سے الجھ پڑے ،بزرگ نے بہت منت سماجت کی لیکن ان ”جوانوں “پر کو ئی اثر نہ ہوا ،وہ اسے گھسیٹتے اور دھکے دیتے ہو ئے دور لے گئے اور اسے زمین پر بٹھا دیا ۔لوگوں کا ایک جھمگٹا تھا جو صرف تماشا دیکھ رہا تھا اور کسی نے ہمت نہیں کی کہ ان کے ہاتھ روکے ،ان سے اصل وجہ جاننے کی کو شش کرے یا پولیس ہیلپ لائن پر کال کر کے انتظامیہ کو آگا ہ کرے ۔

سب نے اس باریش بزرگ کو دو ”جوانوں “کے ہاتھوں پٹتے اوربے عزت ہوتے دیکھا اور یہ تماشا دیکھنے کے بعد تبصرے کرتے ہوئے اپنی روٹین میں مشغول ہو گئے ۔یہ ایک معمولی نوعیت کا واقعہ ہے اور ہم روزانہ اس طرح کے بیسیوں واقعات دیکھتے ہیں لیکن ہم صرف تماشا دیکھتے ہیں اور اس کے بعد اس پر لمبے چوڑے تبصرے کرتے ہوئے اپنی روٹین میں مشغول ہو جاتے ہیں ۔


بنیادی طور پر ہم ایک تماش بین قوم بن کر رہ گئے ہیں ۔ہم ہر واقعے کو “انجوائے “کرتے ہیں اس کے بعد گورنمنٹ کو اس واقعے کا زمہ دار ڈکلیئر کرتے ہیں او رخود کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر کے سب ٹھیک ہے کی چادر اوڑھ کر سو جاتے ہیں ۔ہم نے اپنے ہر کام کی ذمہ داری حکومت پر ڈال دی ہے اور ہم سجھتے ہیں گورنمنٹ ہماری چوبیس گھنٹے کی ملازم ہے ۔

ہم نے اگر پانی کا گلا س پینا ہے تو یہ بھی گورنمنٹ کی ذمہ داری ہے ،ہم اگر مسجد تک جانا چاہتے ہیں تو گورنمنٹ کو چاہئے ہمارے لیے ٹرانسپورٹ کا انتظام کرے اور گورنمنٹ کی ذمہ داری ہے کہ وہ ہمارے گھروں میں آکر جھاڑو بھی دیا کرے ۔آپ ترقی یافتہ مما لک کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں آپ کو نظر آئے گا دنیا میں جن ممالک نے ترقی کی اس میں معاشرے کے ہر فرد کا عمل دخل تھا ۔

چین او رجاپان کی مثال ہمارے سامنے ہے لیکن ہم ان سے سبق نہیں سیکھیں گے ۔حکومت نے عوام کی فلاح او ر حفاظت کے لیے بہت سے ادارے قائم کیئے ہیں لیکن ہمارے نوے فیصد عوام کو یا تو ان اداروں کا علم نہیں اگر علم ہے تو ضرورت کے وقت انہیں مدد کے لیے بلایا نہیں جاتا اور آخر میں ہم سارا بوجھ حکومت پر ڈال دیتے ہیں ۔آپ دیکھ لیں پولیس نے ہنگامی حالات کے لیئے 15ہیلپ لائن قائم کی ہو ئی ہے لیکن ہمارے عوام لڑائی جھگڑا ہوتا دیکھیں گے اسے ”انجوائے “کریں گے لیکن ہیلپ لائن پر کا ل نہیں کریں گے ۔

پنجاب حکومت نے پولیس تشدد کے خلا ف شکایات کے لیے سیکرٹریٹ میں باقاعدہ ایک ادارہ قائم کیا ہے اور اس کی ایک ہیلپ لائن موجود ہے لیکن ہم پولیس سے مار کھاتے رہیں گے ،پولیس کا ظلم وتشدد برداشت کر تے رہیں گے لیکن ہیلپ لائن پر کال نہیں کریں گے ۔پنجاب حکومت نے پچھلے دو تین ما ہ سے اکثر اضلاع میں صارف عدالتیں قائم کی ہیں جہاں صارفین اپنے ساتھ ہونے والی دھوکا دہی ،ناقص اشیاء کی فراہمی اور دیگر زیادتیوں کے خلاف مقدمہ دائر کر واسکتے ہیں لیکن ہم قصائی سے مردہ جانوروں کا گوشت کھا تے رہیں گے ،صرافہ مارکیٹ میں سناروں کے ہاتھوں لٹتے رہیں گے گارمنٹس کے دکانداروں سے الجھتے رہیں ،لہنگا اور ساڑھی کی خریداری پر بحث کرتے رہیں گے اور شادی ہالوں میں ناقص کھانے کی فراہمی پر جھگڑا کرتے رہیں گے لیکن ہم صارف عدالت نہیں جائیں گے ۔

ہم ناقص چینی اور دو نمبر پتی خریدتے رہیں گے ،ہم سرخ مرچ کے نام پر سرخ پاوٴڈر خریدتے رہیں گے ،ہم ناقص پھل خرید کر ریڑھی بان سے جھگڑتے رہیں گے ہم دو نمبر کپڑا خریدنے پر دکاندار سے بحث کرتے رہیں گے لیکن ہم صارف عدالت نہیں جائیں گے ۔ہم ناقص مٹھائی خریدتے رہیں گے ،کنڈیکٹر سے زائد کرایہ وصول کر نے پر الجھتے رہیں گے ا ور ہو ٹل میں ناقص کھانا کھاتے رہیں گے لیکن ہم کبھی صارف عدالت نہیں جائیں گے ۔

یہ ساری صورتحال ثابت کرتی ہے ہم اپنے مجرم خود ہیں ۔15ہیلپ لائن ،موٹر وے ہیلپ لائین ،ایدھی سنٹر ،1122،پولیس تشدد ہیلپ لائن اور صارف عدالت کے ملازمین اپنے محکموں میں بیٹھ کر مکھیاں مار رہے ہیں لیکن ہمارے عوام ان اداروں کو زحمت نہیں دیں گے ۔یہ آپس میں لڑ کر مر جائیں گے ،دکانداروں سے الجھتے رہیں گے ،موٹر وے پر گاڑی کو دھکا لگاتے رہیں گے اور ہوٹل کے مینیجر سے الجھتے رہیں گے لیکن یہ قانونی طریقہ ء کا ر اختیار نہیں کریں گے اور یہ کبھی اپنے حق کے لیے آواز نہیں اٹھائیں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :