اقدار کا تحفظ

بدھ 9 اپریل 2014

Zahid Raza Chaudhry

زاہد رضا چوہدری

ہم ایک آزاد ملک کے آزاد باسی ہیں۔ ہم عزت دار بھی ہیں اور غیور بھی، ہماری اپنی تہذیب بھی ہے اوراپنی روایات بھی۔ ہماری اپنی ایک مکمل پہچان ہے اورہم اپنے انداز سے جیتے اور مرتے ہیں۔ ہم بحیثت قوم اور ملک کسی کی تہذیب و روایات میں دخل اندازی نہیں کرتے تو اپنے رہن سہن اور بودو باش میں دوسروں کی مداخلت بھی برداشت نہیں کرتے ۔پاکستان کے اندرونی معاملات میں بیرونی مداخلت اور مداخلت کی دعوت کی تاریخ بہت پرانی ہے جس کی بنیادی وجہ ساٹھ برس سے مسلط وہ حکمران طبقہ ہے جنہوں نے وقتا فوقتا ہماری آن و شان کو گروی رکھنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔

جبکہ مفلوک الحال عوام نے تمام تر اندرونی خلفشار کے باوجود اپنی تہذیب و روایات سے ہمیشہ وفا قائم رکھی اور کبھی سودے بازی نہیں کی۔

(جاری ہے)

اسے ہماری بدقسنتی کہیے یا ہمارے حکمرانوں کی ڈھیل کہ ہر ٹکے ٹکے کا آدمی پہلے تو ہمیں معاشرت اور سماجیات پر لیکچر دیتا تھا اور اب براہ راست ڈکٹیشن دیتا ہے۔ حال ہی میں اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی برائے تعلیم گورڈن براوٴن ہمارے نجی معاملات طے کرنے پاکستان آئے۔

انہیں ٹکے کے خطاب سے اسلئے نوازا کہ جس خطے یا قوم سے وہ تعلق رکھتے ہیں انکی اپنی نہ توکوئی تہذیب ہے نہ تمدن۔نہ روایات اور نہ اخلاقیات ۔جو انسانوں سے زیادہ کتے کی نہ صرف قدر کرتے ہوں بلکہ انکو اپنے ساتھ سلاتے ہوں۔ جہاں بوڑھوں کو چھوت کے مریضوں کی طرح الگ کر دیا جاتا ہو، جہاں عورتوں کوکمرشلائزڈ ذلیل کیا جاتا ہو۔ ایسے بے ڈھنگے اور ننگی روایات کے پیروکاروں کا تہذیب و تمدن سے کیا واستہ۔

۔۔ انہیں کیا معلوم عورت کا مقام کیا ہے اور انکی حدود کیا ہیں۔ حدود، عزت، اقدار جس قو م کی پرورش کا حصہ ہوں اُس ڈکیٹیٹ نہیں کیا جاسکتا ہے ۔یہ تو حکمرانوں کی کرم فرما ئیاں ہیں کہ قوم کو پیر الائزڈ کر رکھا ہے جس سے قوم بکھری ہوئی ہے ورنہ عورت کے مقام سے لیکر بوڑھوں کی عزت تک اور قومی غیرت سے لیکر ناموس تک ہماری گھٹی میں رچی بسی ہے۔ دنیا کے ہر معاشرے میں اچھائیوں کے ساتھ برائیاں بھی ہوتی ہیں جنکا ادراک اُس معاشرے کے باسیوں کو ہی کرنا ہوتا ہے۔

۔اسی طرح زندہ معاشرے کے طور پرہمارے یہاں بھی کوتاہیاں خامیاں ضرور ہونگی جنکی اصلاح معاشرے کے باسی ہی کریں گے۔ مگر ایسا نہیں کہ کوئی غیر ،ننگی تہذیب کا باسی ہمارے معاملات طے کرنے آئے یعنی پرائی شادی میں عبداللہ دیوانہ۔۔۔۔،،،
قارئین !گورڈن براوٴن سابق وزیر اعظم برطانیہ اور اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی برائے تعلیم ہیں جوان دنوں پاکستان کے دورے پر ہیں اور پاکستان میں لڑکیوں کی شادی کی عمر میں حد بندی کیلئے کوششوں میں مصروف عمل ہیں۔

موصوف وزیر اعظم پاکستان میاں نواز شریف کی دعوت پر پاکستان تشریف لائے ہیں۔جبکہ ہمارا ایک روشن خیال اور اپنی روایات سے باغی طبقہ انکے ایجنڈے کی ترویج کیلئے اپنی تمام تر خدمات فراہم کرنے میں پیش پیش ہے۔پاکستانی میں زبردستی کی شادیوں کے رجحان کا الزام لگاتے ہوئے گورڈن براوٴن کا کہنا تھا کہ کم عمر کی شادیوں سے لڑکیاں اپنا بچپن اور تعلیم کھو بیٹھتی ہیں۔

انکا مذیدکہنا تھا کہ وہ پاکستان مین کم عمری کی شادی سے پاک علاقے بنائیں گے۔۔ دیگر ملکی معاملات میں بیرونی ڈکٹیشن اور مداخلت پہلے سے تاریخ کا حصہ ہے ہی اور اب ہماری نجی اقدار و روایات کی تعریف بھی دوسری تہذیب کے لوگ کرنے لگے ہیں۔۔۔۔ اُصولی طور پر تومیاں صاحب نے براوٴن کی گزارشات پر کچھ تو لب کشائی کی ہوتی۔کم سے کم اتنا ہی کہہ دیتے کہ یہ میری قوم کا pureنجی معاملا ہے ۔

ہماری اپنی تہذیب اوراپنی روایات ہیں جو شائد مغرب سے کئی گناہ بہتر ہیں۔لہذا ہم اپنی اقدار و روایات کا اہتمام خود سے کرتے ہیں۔۔۔براوٴن کی دلیل مان بھی لی جائے کہ زبردستی کی شادیوں(بقول انکے) سے لڑکیاں اپنا بچپن کھو بیٹھتی ہیں تو کیا ہمیں مغرب کے نمائندے سے یہ پوچھنے کا حق ہے کہ آپ کے ہاں کونسی حدبندیوں اور maturedعمر میں شادیاں ہوتی ہیں،مغرب میں تو شائد شادی پہلے شادی ہو جاتی ہے اور کم عمر ی سے بھی پہلے ہوجاتی ہے۔

اس لحاظ سے ان لڑکیوں کے بچپن کوabuse کرنے کی ذمہ داری کس پر عائدہوتی ہے اور وہاں شادیوں کیلئے عمر کی حد بندی کون کرے گا۔ ہمارے بچے غیر تعلیم یافتہ یا کم عمر میں شادیوں(بقول انکے) کے باعث بھی اپنی اقدار و حدود کے پابند ہوتے ہیں۔ اپنے ماں باپ کا احترام کرتے ہیں۔بیوی کے حقوق اور اسکی عزت کا خیال رکھتے ہیں اوربچوں کی تربیت پر فکر مند بھی ہوتے ہیں۔

۔۔ جبکہ اس کے برعکس آپ کے معاشرے کے بچے بری طرح سے بے راہ روی کا شکار ہیں ۔ لہذا حدود کی ضرورت آپکے معاشرے کو ہے ہمارے معاشرے کو نہیں۔جب ہم آپ کے معاشرے کی حقیقی خرافات پر اُنگلی نہیں اُٹھاتے تو آپ بھی ہماری سنہری اقدار کی قدر کریں۔
مغرب کو مداخلت کی اتنی گندی لت پڑ گئی ہے کہ ہماری عدالتوں کو بھی اب مشورے دینے لگے ہیں۔ سابق صدر مشرف کا کیس پاکستانی عدالتوں میں زیر سماعت ہے، ابھی کچھ روز قبل ان پر فرد جرم کیا عائد ہوئی انٹر نیشنل جیورسٹس کمیشن نے پیغام رسانی شروع کر دی کہ مشرف کو سزائے موت نہیں عمر قید دی جائے۔

۔۔اب آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ہما رے ملک کے روشن خیال اور اپنی روایات سے باغی اذہان نے انہیں ملکی معاملات میں مداخلت کی اس قدر اجازت دے رکھی ہے کہ وہ جب چاہیں اور جیسے چاہیں ہماری تہذیب حتی کہ ہمارے عقائد سے بھی بڑی ڈھٹائی سے چھیڑ چھاڑ کرتے رہتے ہیں۔ دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ ممالک میں مداخلت مقامی لوگوں کی رضا مندی اور سپورٹ سے ہی ممکن ہے۔

کسی بھی ملک کے حکمران،وہاں کا مفاد پرست یا باغی طبقہ اپنی نااہلی اور کمزوری سے ہی دوسروں کو دخل اندازی کا بھر پورموقع فراہم کرتا ہے۔ بصورت دیگر کسی کی مجال نہیں کہ آزاد ملک میں اتنی دیدہ دلیری سے مداخلت کرے۔
زیادہ دور کی بات نہیں، ہر اعتبار سے دنیا کا پسماندہ ملک یوگینڈا جس نے حال ہی میں مغربی ممالک کی جانب سے امداد بند کرنے کی دھمکی اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے شدید احتجاج کے باوجود ہم جنس پرستی کے خلاف قانون سازی کی۔

یوگینڈا کی حکومت نے امریکہ سمیت مغربی دنیا کی جانب سے یو گینڈا کی عوام پر مغرب کی اقدار مسلط کرنے کی شدید الفاط میں مذمت کرتے ہوئے اسے کھُلی مداخلت قرار دیا۔یوگینڈا کے صدر نیو ویری موسینوینی نے اس قانون کے خلاف گزشتہ سال دسمبر میں پہلی بار منظوری لی جس پر امریکہ سمیت کئی مغربی ممالک، عالمی امدادی اداروں اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے یوگینڈا کے اس اقدام کے خلاف بھر پور احتجاج کرتے ہوئے اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔

تاہم یوگینڈا کے صدر نے تمام تر مخالفت اور احتجاج کو یکسر مسترد کرتے ہوئے دارلحکومت میں منعقد ہونے والی ایک تقریب میں ہم جنس پرستی کے خلاف باقاعدہ قانون سازی کر کے اپنی اقدار کو لوٹنے سے بچا لیا۔جس کے بعد یوگینڈا میں ہم جنس پرستی کو جُرم قرار دیتے ہوئے مرتکب شخص کو14سال قید جبکہ اس جُرم کا دوبارہ ارتکاب کرنے کی صورت میں عمر قید کی سزا ہو گی جبکہ اس فعل میں معاونت کرنے والے کو بھی مجرم قرار دیا جائے گا۔

۔۔۔ اس موقع پریوگینڈا کے صدر کاکہنا تھا کہ جب افریقی عوام کو مغربی اقدار پر کوئی اعتراض نہیں ہے تو مغرب کو بھی افریقی اقدار کا احترام کرنا چاہئے۔
نیو ویری موسینوینی صحیح معنوں میں یوگینڈا کے لیڈر ہیں۔ انکاہاتھ عوام کی نبض پر ہے۔اسی لئے عوام کے مزاج کو محسوس کرتے ہوئے دنیا کے طاقتور ترین ممالک سے مخالفت مول لیتے ہوئے اپنی اقدار کو بچاتے ہوئے اپنی موجودہ اور آئندہ نسل کو محفوظ کر لیا۔یا اللہ ہمیں بھی ایسا لیڈر عطا فرما۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :