امتحان۔۔!!

بدھ 9 اپریل 2014

Tafseer Hussain

تفسیر حسین

عقل ہے محو حیر ت کہ دنیا کیا سے کیا ہوگئی ۔۔!!
یہ مصرع پڑھتے ہوئے خیال آتا ہے کہ انسان نے اتنی ترقی کرلی کہ عقل انسانی نت نئی ایجادات کو دیکھ کر ورطہ حیرت میں ڈوب جاتی ہے، مختلف اقوام عالم کی سائنس اور ٹیکنالوجی میں بڑھتی ہوئی دلچسپی اور اس کائنات کو مسخرکرنے کی جستجو میں تحقیقاتی اداروں کے قیام اور حکومتی سرپرستی قابل ستائش ہیں ، مگر آج یہ مصرع موضوع تحریر اس لیے ہے کہ میری عقل پاکستان میں عوامی سطح پر رونما ہونے والے واقعات کو کسی طور ہضم کرنے کو تیار نہیں، ایک معروف اخبار کی اس خبر نے ہلا کر رکھ دیا کہ خاتون سے شادی کے نام پر نو سال تک زیادتی کرنے والے ملزم کے خلاف مقدمہ درج کرلیا گیا اور وہ موصوفہ جنہوں نے اس بات کا انکشاف کیا کہ اس نے اس شخص کی خاطر اپنے پہلے شوہر سے طلاق لی تھی اس بات پر بھی نالاں تھیں کہ ان کے پہلے شوہر نے جو زیورات اسے دیئے تھے وہ زیادتی کرنے والے شخص نے چوری کرلیے۔

(جاری ہے)

حیران کن بات یہ ہے کہ ایک ملک جو اسلام کے نام پر بنا جہاں محرم، ربیع الاول ، رمضان کے مقد س ایام مکمل مذہبی جوش ، جذبے اورعقیدت سے منائے جاتے ہیں وہاں بھی کچھ افرادایسے بستے ہیں جو خود شیطان کا آلہ کار بننے کو تیار ہیں۔ مذکورہ بالا واقعہ صرف ایک واقعہ نہیں بلکہ انسانیت کی پستی کی انتہا دو اور واقعات میں ابھر کر سامنے آئی جب میرے رفقاء نے دو علیحدہ علیحدہ واقعات بتائے جو مختلف شہروں کے ہیں اور مگر دونوں واقعات کا قصہ نفس مجبور ایک ہی ہے اس حقیقی قصے کو جان کر آپ کو یقینناً حیرت ہوگی کہ باہر کی خوبصورتی اور بظاہر مہذب نظر آنے والے شہروں میں کیا کیا کچھ ہورہا ہے جو کہ صرف اور صرف انسان کے اپنے اندر کی کہانی اور نفس ہے۔

شادی شدہ خواتین اور مرد حضرات کے افیئرز تو کوئی نئی بات نہیں رہ گئی آئے روز قصے سنتے رہتے ہیں، جب شوہر گھر سے باہر تو کوئی دوسرا نا محرم گھر کے اندر۔۔۔مگر اب جن واقعات کی طرف آپکی توجہ کا خواستگار ہوں وہ کچھ یوں ہے کہ شادی شدہ عورتوں نے اپنے بوائے فرینڈز کو اپنے ساتھ اپنے شوہروں کی موجودگی میں ایک ہی گھر میں رکھا ہوا ہے اور شوہروں کو معلوم ہے کہ ان کا ان سے کیا رشتہ ہے مگر حیرت ہے اسکے باوجود یہ تین تین لوگ ایک ساتھ ایک ہی گھر میں رہتے ہیں شوہر کو اعتراض نہیں، محلے داروں کو اعتراض نہیں اور تو اور رشتہ داروں کو اعتراض نہیں۔

۔کمال ہے مادر پدر آزادی وہ بھی اس کمال کی کہ انسانیت سوائے افسوس کے کچھ نہیں کرسکتی، مغربی ممالک کے ساتھ مقابلہ ہو تو سائنس اور ٹیکنالوجی میں ہو مگر یہ کیا کہ ہم تو بے راہ روی میں ان سے آگے نکلنے کے لیے بے تاب نظر آتے ہیں، انہیں حالات سے آگاہی پراقبال کا وہ مصرعہ بھی یاد آتا ہے کہ
یہ مسلماں ہیں جنہیں دیکھ کر شرمائیں یہود
وہ اسلامی تعلیمات جن پر عمل پیرا ہوکر نہ صرف دنیا بلکہ آخرت میں بھی نیک نامی کمائی جاسکتی ہے انہیں ہم نے کیوں بھلا دیا۔

۔ہم اپنی نفسانی خواہشات کے اس حد تک غلام ہوگئے کہ ہمیں اس بات کا خیال ہی نہیں دنیا تو محض امتحان گاہ ہے آزمائش کی جگہ ہے آخرت میں کیا ہوگا۔۔ایک عورت جسکے پاوٴں کے نیچے اللہ نے جنت رکھ دی وہ کس طرح اس حد تک گر سکتی ہے کہ شادی کے وقت دلہا سے یہ طہہ کرلے کہ اسکا بوائے فرینڈ بھی اسکے ساتھ رہے گا۔اور ان مردوں کی غیرت کو کیا ہوگیا جو اس قسم کی شرائط پر یا اس قسم کی خواہشات پر بخوشی راضی ہوجاتے ہیں۔

۔یہ وہ حرکتیں ہیں جہاں ہم نہ میڈیا کو قصور وار ٹھہرا سکتے ہیں نہ ہی والدین کو کیونکہ یہ تو ہر انسان سمجھتا ہے کہ کیا غلط ہے کیا درست ہے ، یہ خالصتاً انسان کے من کا فیصلہ ہے اگر من ہی میلا ہو تو کیا کیا جائے۔مثلاً اس پولیس والے کو کیا کہا جائے جو شراب کے نشے میں دھت ایک بچے کے ساتھ بدفعلی کی کوشش کررہا تھا، ایک قانون کا رکھوالا جب خود قانون کی دھجیاں اڑائے گا تو باقی جرائم پیشہ افراد کے کیا کہنے کہ وہ کس حد تک آگے بڑھ سکتے ہیں۔

بات یہیں ختم نہیں ہوتی معصوم بچیوں کے ساتھ زیادتی کی خبریں بھی کوئی ڈھکی چھپی نہیں اور حیرت کی بات یہ ہے مجرم گرفتار بھی نہیں ہوتے۔
اس قسم کے واقعات جو کہ روزبروز بڑھتے ہی جارہے ہیں وہ ایک عام انسان اور خصوصاً نوجوان نسل کی نفسیات پر بہت منفی اثرات مرتب کرتے جس طرح بھلائی تیزی سے پھیلتی ہے اسطرح بڑائی بھی تیزی سے پھیلتی ہے کیونکہ جو لوگ اس قسم کی انسانیت سوز جاہلانہ حرکات میں مصروف ہیں وہ اپنے گناہ چھانے کے لیے اس قسم کے دلائل دیتے ہیں کہ ناپختہ ذہن ان گنہگاروں کی باتوں میں آکر انکی راہ پر چل سکتے ہیں اور یوں یہ برائیاں پھیلتے ہوئے خدانخواستہ ہمارے گھروں تک بھی پہنچ سکتی ہیں ۔

لہذا اس قسم کی برائیوں کی اپنی اپنی سطح پر حوصلہ شکنی کی ضرورت ہے۔
یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ کیا ہم واپس زمانہ جہالیت میں تو نہیں لوٹ رہے وہ زمانہ جہالیت جسے دور کرنے کے لیے اللہ کے پیارے نبی ﷺ نے بہت تکالیف برداشت کیں اور ایک مکمل ضابطہ حیات دیا جو صاف ستھری پاکیزہ زندگی کو یقینی بناتا ہے، مگر وائے ہو ہمارے نام نہاد ترقی یافتہ افراد پر جونفسانی خواہشات کی غلامی میں اس حد تک آگے بڑھ گئے ہیں کہ انہیں یہ بھی معلوم نہیں کہ انکے گھر میں پیدا ہونے والا بچہ کس کا ہے۔

۔خدا خیر کرئے نجانے ہمارے معاشرے میں بڑھتی ہوئی بے راہ روی اور نام نہاد ترقی و ماڈرن ازم ہمیں کس تباہی کی طرف لے جائے گی۔ آیئے اپنے گھر کو بے راہ روی کی لعنت سے بچائیں اور ایک سچی اور حقیقی دنیا میں قدم رکھنے کا حوصلہ پیدا کریں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :