نوجوان بلاول بھٹو زرداری کا خطاب

بدھ 9 اپریل 2014

Prof.Riffat Mazhar

پروفیسر رفعت مظہر

ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کی برسی کے موقعے پرگڑھی خدا بخش میں نوجوان بلاول زرداری نے ”ہونہار بروا کے چِکنے چکنے پات“ کے مصداق اپنے فنِ تقریر کے خوب جوہر دکھائے ۔ذوالفقار علی بھٹوکے نواسے اور بینظیر شہیدکے بیٹے بلاول نے اپنے نانا اور اپنی ماں کی یاد تازہ کر دی لیکن اُن میں کہیں جناب آصف علی زرداری کی جھلک محسوس نہیں ہوئی کیونکہ زرداری صاحب اپنے پانچ سالہ دَورِ حکومت میں مفاہمت کی چھُری دوسروں کے گلے پر پھیرتے رہے جبکہ بھٹو مرحوم اور بی بی شہید ، دونوں ہی لگی لپٹی رکھے بغیر بہت کچھ کہہ جاتے تھے اور یہی کچھ بلاول نے بھی اپنی تقریر میں کیا ۔

ویسے مجھے تو یہ ”باپ بیٹے“ کی ملّی بھگت ہی لگتی ہے کیونکہ پیپلز پارٹی کے دَور میں خادمِ اعلیٰ زرداری صاحب پر گرجتے ، برستے رہتے جبکہ میاں نواز شریف صاحب مفاہمت کے پھول بکھیرتے نظر آتے ۔

(جاری ہے)

جب کبھی بات ذرا آگے نکل جاتی تو بڑے میاں صاحب کسی سے مشورہ کیے بغیر ایوانِ صدر بھی جا پہنچتے ۔اب زرداری صاحب بھی وہی حربہ استعمال کر رہے ہیں ۔

بلاول زرداری گرجتا ، برستا ہے اور آصف زرداری صاحب مفاہمت کی مرہم لگاتے رہتے ہیں ۔میاں برادران تو بلاول کی باتوں کا جواب نہیں دیتے لیکن رانا ثناء اللہ صاحب کی پیٹھ ضرور تھپتھپاتے رہتے ہیں اور رانا صاحب بھی حقِ نمک ادا کرتے ہوئے خوب کھَری کھَری سناتے رہتے ہیں۔ویسے بھی رانا صاحب کسی زمانے میں پیپلز پارٹی کے ”جیالے“ رہ چکے ہیں اور ”وارث شاہ نہ عادتاں جاندیاں نیں“ کے مصداق رانا صاحب کے اندر کا جیالا ابھی تک ”زندہ و پائیندہ “ ہے اِس لیے بلاول کی باتوں کا جواب دینے کے لیے رانا صاحب کا ”نام ہی کافی ہے“ ۔


بلاول کی تقریرِ ”دِل پذیر“ سُن کر آصف زرداری بہت خوش ہوئے اور کہا ”آج کی شام ، بلاول کے نام“ ۔پتہ نہیں بلاول صاحب نے کونسا ایسا کارنامہ سر انجام دیا ہے جو آصف زرداری صاحب خوشی سے نہال ہو گئے ۔نوجوان بلاول نے تو ابھی خارزارِ سیاست میں قدم بھی نہیں رکھا اور نہ وہ آزمائش کی بھَٹی میں تَپ کر کندن بنا ہے اِس لیے ہم سمجھتے ہیں کہ جنابِ آصف زرداری نے شفقتِ پدری کے ہاتھوں مجبور ہو کر یہ کہہ دیا ۔

سچ تو یہی ہے کہ جنابِ آصف زرداری خوب جانتے ہیں کہ بلاول ابھی بچہ ہے اور سیاست کے کسی ایک گُر سے بھی نا بلد ۔یہ سبھی جانتے ہیں کہ بلاول تقریر کریں یا ٹویٹر پر پیغام لکھیں ، اُن کی پالیسی پیپلز پارٹی کی پالیسی سے یکسر مختلف ہوتی ہے ۔وہ تو طالبان پر گرجتے ، برستے رہتے ہیں جبکہ اُنہی کی پارٹی نے APC میں حکومت کو مذاکرات کا مکمل اختیار دیا تھا اور قائدِ حزبِ اختلاف سیّد خورشید شاہ گاہے بگاہے پارلیمنٹ اور میڈیا میں اِس کی تصدیق بھی کرتے رہتے ہیں ۔

آج بلاول یہ کہتے ہیں” قائدِ اعظم کو کا فرِ اعظم کہنے والوں کے ساتھ مذاکرات ہو رہے ہیں اور مذاکرات کے نام پر آنکھوں والے اندھوں سے راستہ پوچھ رہے ہیں“۔ لیکن کیا اُس وقت بلاول خوابِ غفلت میں تھے جب APCمیں سیّد خورشید شاہ حکومت کو مذاکرات کامینڈیٹ دے رہے تھے یا پھر یہ سمجھا جائے کہ یہ پیپلز پارٹی کی پالیسی نہیں بلکہ خورشید شاہ صاحب کا ذاتی فیصلہ تھا ؟۔


بلاول کہتے ہیں ”حکومت نے ملک کو پیشہ ور بھکاری بنا کے رکھ دیا ہے “۔ہمیں بلاول سے مکمل اتفاق ہے ، سوال مگر یہ ہے کہ کِس حکومت نے ؟۔ ۔۔مسلم لیگ نواز کو تو حکومت سنبھالے ابھی جمعہ جمعہ آٹھ دِن ہوئے ہیں ۔اِس سے پہلے تو اُن کے ”بابا“ ہی پانچ سال تک پاکستان کے سیاہ و سفید کے مالک رہے اور یہ اُنہی کے” دورِ منّور“ کی ”کرامت“ تھی کہ ہر روز غضب کرپشن کی ایسی ایسی عجب کہانیاں منظرِ عام پر آتی رہیں جنہیں سُن کر عقل دنگ رہ جاتی ۔

خادمِ اعلیٰ بھی پیپلز پارٹی ہی کے دَور میں ”زَر بابا ، چالیس چوروں“ کا ڈھول پیٹتے اور اُن کو اُلٹا لٹکانے کی باتیں کرتے رہے ۔یہ الگ بات ہے کہ اب اُن کا رویہ ”اور بھی غم ہیں زمانے میں محبت کے سوا“ کا سا ہو گیا ہے ۔حقیقت یہی ہے کہ قوم نے نواز لیگ کو مینڈیٹ ہی اِحتساب کا دیا تھا اور وہ منتظر ہے کہ نواز لیگ کب اپنا وعدہ ایفاء کرتی ہے ۔

نوجوان بلاول کو یاد رکھنا چاہیے کہ جب اُن کے بابا نے حکومت چھوڑی تھی تَب قومی خزانے میں صرف چھ ارب ڈالر تھے جو اب اسحاق ڈار صاحب کی ”جادوگری“ سے دَس ارب ڈالر تک پہنچ چکے ہیں اور اُن کے وعدے کے مطابق 30 جون تک سولہ ارب ڈالر ہو جائیں گے۔بلاول سوال کرتے ہیں” ڈیڑھ ارب ڈالر کہاں سے آئے اور اگر نیت صاف تھی تو قوم سے یہ بات کیوں چھپائی گئی اور کیا یہ ڈیڑھ ارب ہمارے نوجوانوں کے سَر کی قیمت ہے؟“۔

اُنہیں سوال کرنے کا حق ہے لیکن اب تو یہ ایک ریڑھی بان کو بھی پتہ ہے کہ یہ ایک ”دوست ملک“ کی طرف سے تحفہ تھا اور جنابِ وزیرِ اعظم سمیت تمام اکابرینِ حکومت بھی بار بار یہ کہہ چکے ہیں کہ یہ امداد غیر مشروط ہے اور خُدا نخواستہ یہ ہمارے جوانوں کے سَر کی قیمت نہیں۔اِس وضاحت کے بعد کیا اِس سوال کے بار بار دہرائے جانے کی ضرورت باقی رہتی ہے ؟۔

ویسے بھی قوم کو آم کھانے سے غرض ہے ، پیڑ گننے سے نہیں اور ہمیں یہ بھی یقین ہے کہ موجودہ حکومت قومی غیرت و حمیّت کا کبھی سودا نہیں کرے گی ۔
بلاول نے یہ بھی کہا ”پنجاب کو دہشت گردوں کے ہاتھوں یرغمال بنتے دیکھتا ہوں تو سوچتا ہوں کہ بھٹو ہوتے تو یہ حال نہ ہوتا “۔پنجاب تو اللہ کے فضل سے محفوظ ہاتھوں میں ہے البتہ کراچی لہو، لہو ہے ۔

بلاول زرداری کو چاہیے کہ وہ کراچی کا دھیان کریں ،جہاں سیاسی جماعتوں نے اپنے اپنے عسکری وِنگ بنا رکھے ہیں ۔جہاں کسی کی جان محفوظ ہے ، نہ مال۔ جہاں بوری بند لاشیں ملتی ہیں ، بے گناہوں کی ٹارگٹ کلنگ کی جاتی ہے ، بینک لوٹے جاتے ہیں اور دن دہاڑے”بھتے“ کی پرچیاں تقسیم کی جاتی ہیں ۔ ویسے اگر بھٹو آج زندہ ہوتے تو پھر بھی یہی حال ہوتا کیونکہ ستاسی سال کے بھٹو سیاست سے ریٹائر ہو کر گھر میں آرام کر رہے ہوتے ۔

سندھ کے وزیرِ اعلیٰ سیّدقائم علی شاہ جب بھی بولتے ہیں کوئی نہ کوئی ”پھُل جھڑی“ ہی چھوڑتے ہیں۔بھٹو مرحوم کی برسی پر اُنہوں نے خطاب کرتے ہوئے فرمایا ”بھٹو نے قوم سے جو وعدے کیے ، پورے کیے“۔۔۔ شاہ جی ! بھٹو مرحوم نے قوم سے صرف ایک وعدے پر ووٹ حاصل کیے تھے اور وہ وعدہ تھا ”روٹی ، کپڑا اور مکان“ کا ۔یہ وعدہ بھٹو مرحوم پورا کر سکے نہ اُن کے وارث۔

آج بھی پیپلز پارٹی اُسی روٹی ، کپڑے اور مکان کے نعرے کو سینے سے لگا کر جیالوں کو بیوقوف بنانے کی کوشش کرتی نظر آتی ہے لیکن اب تو جیالے بھی اتنے عقلمند ہو گئے ہیں کہ اُن کے نہاں خانہٴ دل سے یہ آواز نکلتی سنائی دیتی ہے کہ
تیرے وعدے پہ جیئے ہم ، تو یہ جان جھوٹ جانا
کہ خوشی سے مَر نہ جاتے ، اگر اعتبار ہوتا
بلاول کہتے ہیں ”جاگ میرے پنجاب جاگ ، پاکستان جَل رہا ہے“ یہی تو ہم کہتے ہیں کہ ”جاگ ، پنجابی جاگ“ ۔

کیا بلاول زرداری نہیں جانتے کہ اگر کوئی غلطی سے بھی سندھ کی تقسیم کی بات کر دے تو سندھی بھائیوں کے تَن بدن میں آگ لگ جاتی ہے ۔خیبر پختونخوا میں ہزارہ صوبہ کی بات کرنے پر پختون بھائی تلملاء اُٹھتے ہیں لیکن جس کا جب جی چاہتا ہے پنجاب کے ٹکڑے ، ٹکڑے کرنے کی بات کرکے اپنے آپ کو مسلمہ لیڈر کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔یہ پنجابی ہی ہے جس کے ہاں لسانی منافرت کا سرے سے کوئی وجود ہی نہیں ۔

بلاول صاحب نے تو بڑے فخر سے کہہ دیا ”مرسوں مَرسوں، سندھ نہ دیسوں“لیکن وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ کوئی پنجابی یہ نعرہ نہیں لگا سکتا کہ ”مَرسوں مَرسوں ، پنجاب نہ دیسوں“ کیونکہ ہم صوبوں پر نہیں پاکستان پر یقین رکھتے ہیں ۔ اِس کے باوجود بھی گالی پڑتی ہے تو صرف پنجاب کو ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :