مذاکرات اہداف اور مشکلات!

منگل 8 اپریل 2014

Mir Afsar Aman

میر افسر امان

طالبان سے مذاکرات شروع کرتے وقت نواز شریف صاحب نے صاف صاف فرما دیا تھا کہ بہت خون خرابہ ہو گیا اب ملک میں امن و امان ہونا چاہیے اسی فلسفے کو سامنے رکھتے ہوئے مذاکرات شروع کئے گئے تھے مخالف لابیاں اپنا پورا زور فوجی آپریشن پر لگا رہیں تھیں مگر نواز شریف کے عزم میں ذرا سا بھی جھول نہیں آیا اگر گہری نظر سے دیکھا جائے تو انہوں نے یہ کام پارلیمنٹ کی قراداد،اے پی سی اور جرگے کی رضا مندی سے شروع کیا تھا کیونکہ ان تینوں فورم میں جنگ بندی کی قرادیں پاس ہوئی تھیں پوری قوم کی یہ خواہش تھی کہ کسی طرح ملک میں امن قائم ہو ملک ترقی کی راہ پر پھر سے گامزن ہو جائے حکومتی اور طالبان کمیٹیوں کی انتھک کوشش سے سفارشات تیار گی گئیں پھر براہ راست مذاکرات ہوئے اورپہلا مرحلہ مکمل ہو گیا اب دوسرا مرحلہ شروع ہونے والا ہے اس میں اگر غور کیا جائے تو ملک میں امن و امان قائم ہو گیا طالبان کی طرف سے کوئی بھی قابل ذکر کاروائی نہیں کی گئی ۸ سال بعد پہلی بار۳ ۲ مارچ کو فوجی پریڈ منعقد ہوئی اس پریڈمیں ہماری مسلح افواج نے شرکت کی جس کو عوام نے بڑی حسرت سے دیکھا اور خوشی کا اظہار کیا اس سے نواز شریف کا امن کا ہدف پورا ہوا اور مسلح افواج کا مارل بھی بلند ہوا ملک میں امن کی خواہش رکھنے والے ایک بڑے طبقے نے سُکھ کا سائنس لیا اب دوسرا براہ راست مرحلہ شروع ہونے والا ہے اس لئے دونوں طرف سے صبر سے کام لینے کی ضرورت ہے جب کہیں جنگ ہو رہی ہو تو تھوڑی سی کوتاہی سے حالت پھر خراب ہونے کے امکان ہر وقت موجود ہوتے ہیں۔

(جاری ہے)

پہلے مرحلے میں جنگ بندی اور قیدویوں کے تبادلے پر اتفاق ہوا تھا اس کے ساتھ ساتھ خوشگورار ماحول میں مذاکرات بھی ہوتے رہے برف پگھل گئی قوم کو جلد خوشخبری کی لیے کہا گیااور دس سال سے جاری جنگ و جدل اور بدامنی کا ماحول ختم ہواحکومتی کمیٹی نے طالبان شوریٰ سے ملاقات کے بعد اپنی رپورٹ میں کہ طالبان سنجیدہ نظر آئے اور دہشتگردی کرنے والے گروپوں سے اظہار لا تعلقی کر دیا اس موقعہ پر طالبان کمیٹی کی طرف سے یہ بھی کہا گیاکہ دشمن حکمرانوں اور فوج کو استعمال کر رہے ہیں حکومت غیر عسکری قیدیوں کو رہا کرے تو اس کے بدلے طالبان سے اجمل خان اوردیگر کی رہائی کے لیے راضی ہیں حکومتی کمیٹی کے ایک راہ نما نے بھی کہا کہ گرفتار طالبان قیدیوں اور دیگر کیخلاف اگر کوئی ثبوت نہیں تو حکومت کو چھوڑ دینا چاہیے اُدھر پاکستان علماء کونسل کے چیئرمین حافظ طاہر اشرفی صاحب نے کہا ہے کہ نیا دور کھولنے کے بجائے مولانا فضل الرحمان صاحب کو سمیع الحق کے صاحب ہاتھ مضبوط کرنے چاہیے یا وہ حوریں بتا دیں جن سے مذاکرات کئے جائیں اپوزیشن اورسیکولرز لابی کو نواز شریف صاحب نے یہ کہ کر خاموش کرنے کی کوشش کی ہے کہ طالبان کا غیر قانونی مطالبہ تسلیم نہیں کیا جائے گا اس دوران حکومتی اور طالبان کمیٹی کا اجلاس وزیر داخلہ کی سربراہی میں منعقد ہوا جس میں قیدیوں کی رہائی پر غور کیا گیا اس پر نواز شریف نے بیان دیا کہ مذاکرات درست سمت میں بڑھ رہے ہیں قوم کو جلد خوشخبری سنائیں گے طالبان نے شکایت کی کہ روز کہا جا رہا کہ وزیر اعظم صاحب مذاکرات میں مخلص ہیں مگر عملی طور پر کچھ نہیں کیا جاتا ہمارے کارکنوں کی گرفتاریاں اور لاشیں ملنے کا سلسلہ جاری ہے ان حالات میں ہمارے لیے جنگ بندی کو جاری رکھنا مشکل ہوتا جا رہا ہے حکومت مذاکرات کے حوالے سے سست روی کا شکار ہے تجزیہ نگار بھی تشویش کا شکار نظر آتے ہیں اور حکومت سے کہہ رہے ہیں کہ طالبان سے مستقل جنگ بندی کی لیے رابطہ کیا جائے پیپلز پارٹی کے را ہ نما اور پارلیمنٹ میں حزب اختلاف خورشید شاہ صاحب نے بھی فرمایا ہے کہ طالبان سے مذاکرات ناکام ہوئے تو ملک کا بڑا نقصان ہو گا قیام امن کے لیے حکومت کے ساتھ ہیں جماعت اسلامی کے تحت امن کانفرنس کے بعد سید منور حسن نے کہا ہے کہ بدامنی کا حل آپریشن نہیں مذاکرات ہیں نواز شریف نے مذاکرات کی راہ اختیار کر کے عوام کے دل موہ لیے ہیں حکومتی اور طالبان کمیٹیوں کا کردار قابل ستائش ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ سید منور حسن نے طالبان سے بھی پروفیسر اجمل اور دیگر قیدیوں کو رہا کرنے کو کہا ہے انہوں نے کہا کہ ملک دشمن سازشوں کا جال پھیلا رہے ہیں حکومت اور طالبان دشمن کے ایجنڈے کو ناکام بنانے کے لیے فہم فراست سے کام لیں کسی بھی چیز کو انا کا مسئلہ نہ بنائیں مذاکرات کی کامیابی نا گزیر ہے اس دوران حکومت نے طالبان کے سولہ قیدی رہا کر دیے جن کا تعلق محسود گروپ سے ہے پو لیٹیکل ایجنٹ نے کہا کہ چند روز میں سو مذید طالبان قیدیوں کو رہا کر دیا جائے گا طالبان کے ترجمان شاہد اللہ شاہد نے کہا ہے کہ رہا کئے گئے افراد کا طالبان سے کوئی تعلق نہیں پھر بھی طالبان نے بالغ نظری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی طرف سے مذیددس روز کے لیے جنگ بندی میں توسیع کر دی اور کہا کہ ہم حکومت کے ساتھ عہد کے پابند ہیں حکومت کو تسلیم شدہ شرائط پر عمل درآمد کر چاہیے اس دوران عسکری اور سیاسی قیادت نے وزیر اعظم کی زیر صدارت اعلیٰ سطحی اجلاس میں طالبان سے مذاکرات جاری رکھنے پر اتفاق کیا وزیر داخلہ نے مذاکرات میں پیش رفت اور طالبان قیدیوں کی رہائی سے متعلق اجلاس میں بریفنگ دی اور حکومت نے تیرہ طالبان راہ نماؤں کو رہا کرنے کا فیصلہ کیا ہے سنگین جرائم میں ملوث قیدیوں کو رہا نہ کرنے کا فیصلہ بھی کیا گیا وزیر داخلہ نے وزیر اعظم کو طالبان کمیٹی سے ملاقات کی تفصیل سے آگا کیا اور کہا کہ طالبان نے پروفیسر اجمل کی رہائی کے بدلے اپنے تین کمانڈروں کی رہائی کا مطالبہ کیا ہے اس وقت جب مذاکرات صحیح سمت میں چل رہے ہیں تو پیپلز پارٹی کے سرپرست اعلیٰ بلاول زرداری نے حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ جہالت کے اندھیرے اتنے بڑھ گئے ہیں کہ آنکھوں والے مذاکرات کے نام پر اندھوں سے راستہ پوچھ رہے ہیں طالبان اسلام کے نام پر دہشت کا قانون لاگو کرنا چاہتے ہیں ان کی آمریت کے آگے نہیں جھکیں گے طالبان کو بتانا چاہتا ہوں کہ یہ اسلام نہیں ہے ملک میں ظالموں(طالبان) کا نظام آ گیا تو سند ھ میں بیٹیاں زندہ دفن ہوں گی معلوم نہیں وہ پاکستان کے لیڈر ہیں یا سندھ کے لیڈر ہیں جو سندھ کی بیٹیوں کی بات کر رہے ہیں بلاول صاحب کی تقریر لکھنے والوں نے اس بات پر غور نہیں کیا کہ زرداری صاحب کے حکم کے تحت خورشید شاہ صاحب حکومت کے مذاکراتی عمل میں تعاون کر رہے ہیں یاوہ باپ بیٹے کو لڑانا چاہتے ہیں ذرائع نے اسلام کے بارے میں نابلد بلاول صاحب کو اسلام کے بارے میں سوچ سمجھ کر تقریر کرنی چاہیے بیٹیوں کو تو اُن جیسے وڈیروں نے کچھ نہ دیا ہو گا اسلام نے تو بیٹیوں کے حقوق متعین کئے ہیں ایم کیو ایم کے فاروق ستار صاحب فرماتے ہیں مذاکرات پر تمام سیاسی جماعتوں کو تشویش ہے پتا نہیں وہ اے پی سی کا فیصلہ بھول گئے ہیں جس میں ایم کیو ایم شریک تھی حمید گل صاحب نے کہا ہے کہ ملک دشمن قوتیں مذاکرات ناکام بنانا چاہتی ہیں امریکا اور بھارت نے ہمیشہ امن وامان کے خلاف سازشیں کی ہیں اس لیے حکومت ہوشیار رہے سمیع الحق صاحب نے کہا ہے کہ فضا بہترین ہو گئی ہے مذاکرات کے نتائج اچھے نکلیں گے دونوں جانب مستقل جنگ بندی اور قیدیوں کی رہائی کی کوششیں کر رہے ہیں جنگی قیدیوں کے تبادلے کا مرحلہ تمام معاملات طے ہونے پر آئے گا۔


قارئین!طالبان سے مذاکرات کرنے سے ملک میں امن قائم ہوا ہے بلوچستان میں بھی بلدیاتی انتخابات کامیابی سے ہو گئے اب ہم نواز شریف صاحب سے گزارش کرتے ہیں ہیں کہ بلوچستان کے علیحدگی پسندوں سے بھی پہلی فرست میں مذاکرات شروع کریں کچھ لو کچھ دو کی بنیاد پر اس میں بھی نواز شریف کامیاب ہو گے جب امن وامان ہو گا توملک ترقی کرے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :