مودی ، واجپائی اور مسئلہ کشمیر …!

اتوار 6 اپریل 2014

Sareer Khalid

صریر خالد

جموں و کشمیر میں مختلف سیاسی جماعتوں کے لئے مسئلہ کشمیر نام کی کشتی پر سوار ہوکر انتخابات کا سمندر پار کرنے کی کوششیں نئی نہیں ہیں لیکن اب کے بی جے پی کے امیدوار برائے وزارتِ عظمیٰ نریندر مودی بھی اس کشتی میں سوار دکھائی دینے لگے ہیں۔حالانکہ خود نریندر مودی کی شبیہ سخت گیر اور فرقہ وارانہ ہے تاہم اُنہوں نے کہا ہے کہ اقتدار میں آنے کی صورت میں وہ سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کی بتائی ہوئی ”انسانیت“کے اسباق پڑھیں گے اور انہیں اپناتے ہوئے کشمیریوں کے مسائل کو ختم کر دینگے۔


نریندر مودی اور انسانیت کا کوئی واسطہ ہے بھی یا نہیں یہ اب ایک لمبے عرصہ سے ایک بڑے سوال کے بطور موضوعِ بحث ہے۔چناچہ گجرات میں اُنکی کارستانیوں کو دیکھتے ہوئے موجودہ دنیا اُنہیں محض ڈرانے دھمکانے اور مار دھاڑ کے لئے جانتی ہے تاہم جب وہ مسئلہ کشمیر جیسے پُر پیچ تنازعے کے تئیں انسانی نظریہ سے دیکھنے کا وعدہ کرتے ہیں تو معاملہ کسی حد تک دلچسپ بن جاتا ہے حالانکہ یہ محض اُن شوشوں میں سے ایک ہو سکتا ہے کہ جو سیاسی لیڈران ووٹ بٹورنے کے لئے ،بعد از انتخاب جوابدہی کے کسی ڈر کے بغیر، چھوڑتے رہتے ہیں۔

(جاری ہے)


بی جے پی کی جانب سے نریندر مودی کو وزارتِ عظمیٰ کی امیدواری مختلف وجوہات کے لئے بذاتِ خود ایک دلچسپ معاملہ ہے تاہم اس کے ساتھ اور بھی دلچسپ باتیں جُڑتی جا رہی ہیں اور یہ دلچسپیوں کا ایک سلسلہ بنتا جا رہا ہے۔اس حوالے سے تازہ اضافہ یہ ہے کہ جموں و کشمیر میں علیٰحدگی پسندوں کے ایک دھڑے کے لیڈر مولوی عمر فاروق نے گذشتہ دنوں غیر محسوس انداز میں نریندر مودی کے لئے تشہیری مہم شروع کر دی ہے۔

مولوی عمر فاروق کا یہ بیان گذشتہ ہفتے سرینگر سے نئی دلی تک اور اسلام آباد سے امریکہ تک کے اخباروں کی سُرخیوں میں پڑھا گیا کہ اُنکے نزدیک بی جے پی کی سابق مرکزی سرکار موجودہ یو پی اے سرکار سے بہت بہتر تھی۔ این ڈی اے کی سابق مرکزی سرکار کو متحدہ قومی محاذ(یو پی اے)کی موجودہ حکومت سے بہتر قرار دیتے ہوئے سرکردہ علیٰحدگی پسند لیڈر کا کہنا ہے کہ سابق وزیرِ اعظم اٹل بہاری واجپائی نے مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کے لئے کافی کوششیں کی تھیں۔

حریت کانفرنس (ع)کے لیڈر کو اُمید ہے کہ این ڈی اے کے اقتدار میں لوٹنے کی صورت میں مسئلہ کشمیر کے حل کے حوالے سے پیشرفت ممکن ہو سکتی ہے۔نئی دلی کی ایک ٹیلی ویژن چینل کے ساتھ اپنے انٹرویو میں مولوی عمر فاروق نے یو پی اے کے مقابلے میں این ڈی اے کی وضاحت کے ساتھ تعریفیں کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ یہ اُمید کرتے ہیں کہ پھر سے اقتدار میں آنے کی صورت میں این ڈی اے کی جانب سے مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے اقدامات کئے جائیں گے۔

۔عمر فاروق نے اٹل بہاری واجپائی کی تعریفیں کرتے ہوئے کہا ہے کہ اُنکے دور ِ اقتدارمیں ایسے کئی اقدامات دیکھنے میں آئے تھے کہ جن سے کشمیری عوام کو ایک مثبت پیغام ملا تھا۔اُنکے الفاظ میں”جہاں تک مسئلہ کشمیر کا تعلق ہے این ڈی اے نے کئی اقدامات کئے تھے جبکہ موجودہ یو پی اے حکومت نے کوئی بڑا اقدام نہیں کیا ہے“۔یاد رہے کہ اٹل بہاری واجپائی کے دورِ حکومت میں نہ صرف مرکز نے سرینگر -مظفر آباد بس سروس کی شروعات سمیت اعتماد سازی کے کئی اقدامات کئے تھے بلکہ اُنہوں نے خود پاکستان جاکر ہمسائیہ ملک کے ساتھ دوستی کرنے اور مسئلہ کشمیر کے حل کی جانب بڑھنے کے واضح اشارے دئے تھے۔

جموں و کشمیر کے کسی بھی علیٰحدگی پسند لیڈر کی جانب سے یوں مین اسٹریم کی سیاست میں پارٹیوں کے درمیان امتیاز کرکے کسی ایک کی کھل کر تعریفیں کرنے کا رواج کم ہے۔ ممکن ہے کہ عمر فاروق کو اس طرح کے الفاظ کی ادائیگی کے لئے درونِ خانہ تنقید کا سامنا کرنا پڑے لیکن اس امکان کو ایک طرف چھوڑتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ انتخابی مہم کے زوروں پر ہونے کے دوران مولوی عمر فاروق کا یہ” غیر روایتی اور غیر متوقع بیان“نہ صرف اہم ہے بلکہ اسکے بین السطور بہت کچھ پڑھا جا سکتا ہے۔

ظاہر ہے کہ ایک غیر متوقع سمت سے یوں تعریفوں کی بوچھاڑ ،وہ بھی انتخابی موسم میں،ہونے کو بی جے پی انتخابی پوسٹر کی طرح استعمال کرنے کی کوشش کرے گی جو اس نے کی بھی۔مولوی عمر کے بیان کے فوری ردِ عمل میں بی جے پی نے دعویٰ کیا کہ پارٹی کی بہتر پالیسیوں کو عوام میں ویسع مقبولیت حاصل ہوئی ہیں اور مولوی عمر کا بیان اسی مقبولیت کا نتیجہ ہے۔

پارٹی کے سینئر لیڈر چمن لال گپتا نے ردِ عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا”مولوی عمر فاروق کا بیان خوش آئیندہ ہے اور ہمیں لگتا ہے کہ بی جے پی کی پالیسیوں کی مقبولیت کا مظہر بھی“۔اُنہوں نے مزید کہا کہ سابق وزیرِ اعظم اٹل بہاری واجپائی نے اس طرح کی مدبرانہ قیادت فراہم کی تھی کہ جسکی مخالفین بھی تعریفیں کرنے پر مجبور ہو رہے ہیں۔چمن لال گپتا نے کہا”واجپائی جی کی سبھی پالیسیوں کو من و عن اپنانے اور عملانے کی ضرورت ہے تاکہ بھارت اور پاکستان کے مابین کشیدگی بھی ختم ہو جائے اور مسائل کے حل کی سبیل بھی ہو جائے“۔

ہر آن جارحانہ طرزِ تخاطب اپنانے کو اپنی سیاست کا محور بناتے ہوئے چلتی آرہی بی جے پی کے سینئر لیڈر نے مزید کہا”مسائل کو فقط گفتار سے ہی حل کیا جا سکتا ہے نہ کہ تشدد سے“۔چمن لال گپتا ہی نہیں بلکہ پارٹی کے مرکزی ترجمان سیتا رمن بھی مولوی عمر کے بیان کے اگلے ہی دن مفصل بیان میں وعدہ کر گئے کہ پارٹی کے اقتدار میں آنے کی صورت میں اٹل بہاری واجپائی کے ایام کو لوٹا یا جائے گا کہ جب مسئلہکشمیر سمیت ہندوپاک کے سبھی مسائل کو لیکر دونوں ملکوں کے علاوہ دلی اور سرینگر کے درمیان خوب ملاقاتیں اور ڈھیر ساری باتیں ہوتی تھیں۔


پھر جب خفیہ ایجنسی آئی بی کے سابق چیف اے ایس دُلت نے مولوی عمر فاروق کے بیان پر اپنی طرفسے تبصرہ کرتے ہوئے اُنکی اُمیدوں کو صحیح ٹھہرا کر اُنکے بر آنے کا امکان موجود بتایا تو معاملہ اور بھی دلچسپ ہو گیا۔اُنہوں نے کہا کہ اگر نریندر مودی وزیر اعظم بنتے ہیں تو وہ کشمیر کے حوالے سے واجپائی کی پالیسی کو دہرائیں گے۔کشمیر امورات میں دلچسپی رکھنے والوں کو یہ بات یاد دلانے کی ضرورت نہیں ہے کہ اے ایس دُلت آئی بی کے سابق سربراہ ضرور ہیں لیکن کشمیر کے حوالے سے اُنہیں ”سابق“نہیں کہا جا سکتا ہے کہ وہ حالیہ برسوں کے دوران کشمیر میں بہت سرگرم پائے گئے ہیں۔

چناچہ دلی اور سرینگر کے درمیان ایک پُل تیار کرنے کی کوششوں میں انہماک سے مصروف رہنے والے اے ایس دُلت کو مولوی عمر فاروق یا پھر اُنکی طرح سوچنے والے دیگر علیٰحدگی پسندوں کو نئی دلی کے ساتھ ہمیشہ ہی بات کرنے پر آمادہ کئے رکھنے میں ایک کلیدی کردار مانا جاتا ہے۔ اس وجہ سے وہ سرینگر سے لیکر نئی دلی تک کے سیاسی و اقتدار کے گلیاروں میں خاصی پہنچ رکھتے ہیں ظاہر ہے کہ اُنکی کہی بے پر کی نہیں ہوتی اور اس سے کچھ اور نہ سہی البتہ اگلے دنوں کے سیاسی منظر نامہ کا اندازہ لگانا ممکن ہو جاتا ہے۔


اس تاثریا مشاہدے کو بدھ کے روز اُسوقت تقویت ملی کہ جب نریندر مودی نے جموں آکر بزبانِ خود یہ وعدہ کیا کہ اُنہیں اقتدار ملا تو وہ این ڈی اے کی واجپائی کی قیادت والی سرکار کی پالیسیوں کا احیاء کر کے کشمیر کی تقدیر بدل دینگے۔مودی نے کہا”ہم واجپائی کے دکھائے ہوئے انسانیت،جمہوریت اور کشمیریت کے راستے پر آگے بڑھیں گے“۔وزیرِ اعظم بننے کے خواب دیکھ رہے نریندر مودی نے واجپائی سرکار کو مزید وقت نہ ملنے کو کشمیر کی بد نصیبی کے بطور پیش کرتے ہوئے کہا کہ اگر واجپائی کو مزید پانچ سال کا موقعہ ملا ہوتا تو کشمیر کا چہرہ بدل گیا ہوتا اور اسکے مسائل ختم ہو گئے ہوتے۔

گذشتہ سال دسمبر میں جموں میں ہی ایک ریلی سے خطاب کرنے کے بعد نریندر مودی آج دوسری بار یہاں ایک ریلی سے مخاطب تھے تاہم اب کے اُنہوں نے الفاظ کا تول تول کر استعمال کیا اور کسی بھی تنازعہ سے بچتے ہوئے خود کو خوابوں کی سوداگری تک محدود کئے رکھا۔یاد رہے کہ دسمبر کی ریلی میں جموں و کشمیر کو ”خصوصی درجہ“دینے والی دفعہ 370کی مخالفت کر کے نریندر مودی نے ایک بڑے تنازعے کو جنم دیا تھا جسے لیکر وہ بعدازاں بحث کے لئے تیار نہ ہوئے اور با الآخرچُپ ہو گئے۔


اٹل بہاری واجپائی کی جس ”کشمیر پالیسی“کو کچھ اس طرح پیش کیا جا رہا ہے کہ جیسے اُنہوں نے کشمیر کو ”آزاد“چھوڑ دینے کا منصوبہ بنایا ہو،وہ کیا تھا…اس بارے میں ٹھوس انداز میں کہیں کوئی نقشہ راہ شائد موجود بھی نہیں ہے۔بلکہ ،جیسا کہ مبصرین کہتے ہیں،واجپائی نے ڈیڑھ دہائی قبل سرینگر میں بطورِ وزیر اعظم ایک پریس کانفرنس سے خطاب کے دوران آئینِ ہند کے دائرے کی بجائے ”انسانیت کے دائرے“کی وسیع المعنیٰ اصطلاح کا استعمال کر کے مختلف لوگوں کو مختلف خطوط پر سوچنے کے لئے آزاد چھوڑ دیاتھا۔

ظاہر ہے کہ لوگ آج بھی اس ”آزادی“کا استعمال کرتے ہوئے سابق وزیرِ اعظم کے بیان کو اپنی پسند کا جامہ پہنا کر چلتے آ رہے ہیں۔ظاہر ہے کہ ابھی نریندر مودی کی باری آئی تو اُنہوں نے ٹھیک اُسی طرح اٹل بہاری واجپائی کے راستے کشمیر جانے کی بات کہی کہ جس غیر واضح انداز میں خود واجپائی نے اپنی ”کشمیر پالیسی“کا تعارف کرایا تھا۔
مسئلہ کشمیر کے کئی امتیازات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ انتخابات کا وقت آنے پر یہ اہم ہوجاتا ہے اور ہر چھوٹی بڑی پارٹی،با الخصوص وادیٴ کشمیر میں،اس مسئلے کے حل کی باتیں کر کے اُن ووٹروں کو لبھانے کی کوشش کرتی ہے کہ جو خود کے سبھی مصائب کے لئے مسئلہ کشمیر کو بنیادی وجہ مانتے ہوئے چلے آ رہے ہیں۔

نیشنل کانفرنس یا پی ڈی پی کے جیسی پارٹیاں بھلے ہی اسمبلی پہنچنے پر مسئلہ کشمیر کو بھول جاتی ہوں لیکن انتخابات کے وقت کہیں اشارتاََ اور کہیں وضاحتاََ اس مسئلے کا تذکرہ اور اس کے حل کے لئے آسمان سے تارے توڑ لانے کی باتیں کرنا ان پارٹیوں سے چوکتا نہیں ہے۔اب کی بار مولوی عمر فاروق نے ایک اہم وقت پر بی جے پی کو جیسے لقمہ دیدیا ہو اور پارٹی نے بھی مسئلہ کشمیر نام کی کشتی پر سواری کرکے جہلم کو پار کرنے کا نسخہ آزمانا چاہا ہے۔


جہاں تک مولوی عمر فاروق کے بیان اور اُنکی قبیل کے علیٰحدگی پسندوں کے اٹل بہاری واجپائی کی غیر واضح ”کشمیر پالیسی“،جسکے کسی بھی صورت ہندوستان کی روایتی کشمیر پالیسی سے مختلف ہونے کا کہیں کوئی ثبوت بھی نہیں ہے،کے معترف ہونے کی بات ہے اس میں اس سے زیادہ کچھ بھی نظر نہیں آتا ہے کہ واجپائی کے دور میں ان لوگوں کو دلی گھوم آنے کے کئی مواقع ملے تھے۔

حالانکہ ہندوپاک اور پھر دلی -سرینگرسرگرمیوں کے انتہائی مصروف شیڈول کے باوجود بھی واجپائی کے دور میں ایسا کوئی غیر معمولی اقدام ممکن نہیں ہو پایا تھا کہ جسکی جانب اشارہ کر کے بات کی جا سکتی ہو۔مرنے مارنے پر آمادہ جموں و کشمیر کی جنگجو قیادت کے ساتھ انسانیت اپنانے کی باتیں اپنی جگہ لیکن یہ بات بھی تاریخ کے اوراق میں محفوظ ہے کہ بڑی مشکل سے جنگبندی پر آمادہ ہوئی حزب المجاہدین کو بہت دیر تک اس فیصلے پر بر قرار رہنے کے لئے سرکار کے لئے ”ممکن“نہیں ہو سکا تھا۔


نریندر مودی اقتدار میں آتے بھی ہیں یا نہیں اس بارے میں ابھی وثوق کے ساتھ کوئی جوتشی بھی بات نہیں کر سکتا ہے لیکن اگر ایسا ہوا تو کشمیر کا چہرہ کس حد تک بدل سکتا ہے اور کشمیر کی تقدیر میں کیا تبدیلی رونما ہو سکتی ہے،یہ ایک بڑا سوال ہے۔ہو سکتا ہے کہ اقتدار میں آنے کی صورت میں نریندر مودی کشمیر میں ”ترقی“کا پہلے سے آزمودہ نسخہ آزمائیں لیکن جہاں تک مسئلہ کشمیر کے حل کی بات ہے وہ شائد کوئی ”منفرِد“کشمیر پالیسی بنانے پر آمادہ ہونگے اور نہ ہی خود کو ایسا کرنے کے لئے آزاد پائیں گے۔

یہاں یہ بات ذہن نشین رکھنا لازمی ہے کہ وزارتِ عظمیٰ کی امیدواری تک نریندر مودی پارٹی کے کئی ”دِگج“لیڈروں کو پچھاڑتے ہوئے آئے ہیں اور اس کے لئے مودی کی وہی انسانیت دشمن شبیہ بڑی وجہ ہے کہ جسکے لئے حالانکہ اُنہیں امریکہ و برطانیہ دورے کا ویزہ تک نہیں ملتا ہے۔پھر یہ بات بھی قابل غور ہے کہ بی بی سی کے مطابق پاکستان میں نریندر مودی کی شبیہ انتہائی خراب ہے جبکہ جموں و کشمیر میں سب سے موثر علیٰحدگی پسند قائد سید علی شاہ گیلانی بھی کئی بار مودی کو انسانیت کا قاتل قرار دیتے ہوئے اُنکے لئے تھو تھو کر چکے ہیں۔

ایسے میں مودی سے” انسانیت“کی راہ پر گامزن رہنے کی اُمید کیسے کی جا سکتی ہے،سید گیلانی یا پاکستان کے اُنکے ساتھ Engageہونے کی اُمید کیسے کی جا سکتی ہے یہ تو ایک سوال ہے ہی لیکن اس سے بھی بڑا سوال یہ ہے کہ کیا خود نریندر مودی کسی غیر روایتی کشمیر پالیسی کے لئے تیار ہونگے یا تیار ہونے کے لئے خود کو آزاد پائیں گے بھی…بہت مشکل ہے!!!۔(بشکریہ عالمی سہارا)۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :