انڈر ورلڈکا ڈون

اتوار 6 اپریل 2014

Muhammad Ali Rana

محمد علی رانا

ہاں میں اعتراف کرتا ہوں کہ میں ہی پاکستان کا سب سے بڑا وہ ڈون ہوں جِس کے ایک اشارے پر سینکڑوں بلکہ ہزاروں جانیں بھی جاسکتی ہیں ۔ میرا نیٹ ورک بہت مضبوط ہے میں ایک ایجنسی ہوں اور چھوٹے موٹے غنڈے موالی تو کیا طالبان بھی میری مدد حاصل کیے بنا زیرو ہیں۔میں ہوں ڈون اور پاکستان تو کیا بیرونِ ملکوں کی پولیس مِل کربھی مجھے پکڑ نہیں سکتی۔

اب تمہارے پاس پورے پندہ منٹ ہیں جو پوچھنا ہے جلدی پوچھو!ٹی وی پر اہم تجزیہ کاروں کا پروگرام شروع ہونے والا ہے۔ جلدی انٹر ویو شروع کرو۔
” سب سے پہلے تو میں اور میرے پڑھنے والے آپ کا نام جاننا چاہیں گے …؟“
”میں اپنا نام منظرِ عام پر لا کر خود کو سستی مشہوری دلوانے کا قائل نہیں ہمارا کام ہی میری پہچان ہے ۔

(جاری ہے)

سستی بلکہ فری کی شہرت حاصل کرنے والے تم کو زلزلہ زدگان،سیلاب زدگان ایسی جگہوں پر اپنے بڑے بڑے ناموں ، بینروں اور اکلوتے غذائی یا گھریلوں غیر استعمال شدہ سامان کے ٹرک کے ساتھ فوٹو شوٹ کرواتے ہوئے ہزاروں مِل جائیں گے اور اگر آج کل انہیں ڈھونڈھنا ہے تو تھرپار کر چلے جاؤمیرا قیمتی وقت ضائع مت کرو“ نیچے چٹائی پر بیٹھے ہوئے مجھے نوکیلے پتھر چبھنے لگے تو میں نے موقع کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے فوراً سوال بدلا۔


”آپ انڈر ورلڈ کے اتنے بڑے ڈون ہیں اور اِس پتھریلی زمین پر سوتے ہیں ؟ “
”فائیو اور سیون سٹار اور لگژری رہائشوں میں سونے کیلئے پیدا نہیں کیے گئے ہم ۔وہاں پر نیند اِس قدر میٹھی آتی ہے کہ جاگنے کے فوراً بعد ہی دوبارہ سونے کا وقت ہوجاتا ہے ۔ہمیں تو جاگنا ہے اگر ہم ہی میٹھی نیند سوگئے تو پورے ملک پر نظر کون رکھے گا ؟“
” اچھا یہ بتائیں کہ آپ اتنی آسانی سے ہدف تک پہنچ کیسے جاتے ہیں اور سب سے بڑھ کر آپ کو اتنی مستند معلومات ملتی کہاں سے ہے ؟“
میری بات سن کر مِسٹر ڈون مسکرائے پھر بولے ” ہم بھی پڑھے لکھے اور بینا لوگ ہیں “
”میں سمجھا نہیں آپ کہنا کیا چا ہ رہے ہیں ؟“
اِس مرتبہ ڈون صاحب نے ایک زور دار قہقہ بلند کیا اور بولے ” میرے انڈر گراؤنڈ خفیہ آفس میں چھوٹا بڑا ہر اخبار آتا ہے اور اتنے نیوز چینلوں کے نام آپ نے آج تک سنے نہیں ہوں گے جتنے ہمارے ہاں ڈش، کیبل، سیٹلائٹ اور انٹر نیٹ کے ذریعے آتے ہیں اور تجزیہ کارواینکر تو کمال کرتے ہیں ۔

کہاں کیا ہونا ہے ،آج کِس اہم شخصیت نے کہا کا دورا کرنا ہے ،کِس کِس مذہبی مقام پر کتنی سکیورٹی ہے ۔ محافط سیکورٹی گارڈز کی تعدادکتنی ہے،کہاں میلے سجنے ہیں ،کِن مارکیٹوں میں رش زیادہ اور سیکیورٹی نام کی ہے،کہاں کے سکیورٹی کیمرے خراب ہو چکے ہیں وغیرہ وغیرہ ہمارے علم میں سب ہوتاہے “
”اچھا کیا یہ ریپ اور اجتمائی زیادتیوں کے پسِ پردہ بھی آپ کا ہاتھ ہے یا پھر یہ کِسی اور ڈیپارٹمنٹ کا کام ہے ؟“
اِس بار ڈون نے ذرا مسکراتے ہوئے جواب دیا” میرے شیرجوان رات دِن محنت اور ایمانداری سے ملک میں انتشار پھیلانے کے بعد تھکے ہارے فارغ وقت میں جب ٹی وی آن کرتے ہیں تو خون گرمانے والے مناظر کی بھرمار ہوتی ہے ۔

رنگین صفحات پر نظر مارتے ہیں تو دِل لبھانے والی تصاویر ناچ رہی ہوتیں ہیں اورگاؤں دیہاتوں کی معصوم بچیوں تک سے زیادتیوں کی خفیہ سے خفیہ خبر یں کتنے ہی طعنے دیتی ہیں ہمیں کہ“میں نے ڈون صاحب کی بات کو کاٹا۔
”جی میں آپ کی پوری بات سمجھ گیا۔اچھا ایک آخری بات اُمید کرتا ہوں کہ آپ کوبری نہیں لگے گی ۔ میرا نہیں خیال کہ آپ کے علم میں یہ بات نہ ہو کہ چوری، ڈکیتی، راہزنی،قتل و غارت ،معصوم لڑکیوں کی عزتوں سے کھیلنا یہ سب انسانی فعل نہیں بلکہ حیوانی اور شیطانی کام ہیں اور ایسا کرنے والے کی بخشش ممکن نہیں “میں نے ڈرتے ڈرتے نظریں نیچے کر کے ظالم جابر کے سامنے کلمہ حق کہا اور ساتھ ہی میں پسینے میں نہاں بھی چکا تھامگر اندر سے مطمئن تھا کیونکہ میں ہیپناٹائس کے علم کا تھوڑابہت فنکار بھی ہوں ۔


”یہ ہمارا کام ہے ۔ ہم دِن رات محنت ، لگن اور جدوجہد کے ساتھ اپنی نیندیں حرام کر کے اپنا کام احسن طریقے سے کر رہے ہیں ۔ہم بے روزگار، حالات کے ستائے کھپائے،بھوکے ننگوں کو کم محنت اور زیادہ منافع کا کام دیتے ہیں اور ویسے بھی وہ ہمارے کہنے پر نہیں بلکہ اپنے پیٹ کی آگ کو بجھانے کیلئے ہمارے پاس آتے ہیں اور ہم تو بس اُن کی مدد کرتے ہیں ۔

ہم ہاتھوں میں ڈگریاں پکڑے بھوکے نوجوانوں کو یوں بے روزگار بھٹکتا نہیں دیکھ سکتے ہمیں اُن کی مدد کرنی ہے ۔ دراصل یہ مدد خود ہماری مدد بھی ہے یوں بیشمار ملک دشمن عناصر بن مانگے اتنا دیتے ہیں کہ ہماری جھولیاں بھر جاتی ہیں اور ہماراکاروبار بھی عروج پر رہتا ہے ۔حکومت اگر ملک سے بے روزگاری اورمہنگائی کو ختم کردے تو یقینا ہم جیسے ماسٹر مائنڈ زنہ صرف بے روزگار ہو جائیں گے بلکہ اُن کی جگہ ہم لوگ بھوکے مرنے لگے گیں ہمارا ہمدرد اور مدد گاراگر کوئی ہے تو وہ صرف یہی ہیں “اور پھر ایک بھرپور قہقہ بلند ہوا۔


آخر میں میں نے رسماً کہا ” آپ سے ملکر بے انتہا خوشی ہوئی آپ کا کافی قیمتی وقت لیاآپ کہیں تو میں اگلے ویک اینڈ پر صرف ایک بار اور حاضر ہو جاؤں تاکہ آپ سے کچھ مزید معلومات بھی حاصل کر کے اپنی اسٹوری کو پارٹ ون اور پارٹ ٹو کے ناموں سے مرچ مصالحہ لگا کر شائع کر کے خوب داد وصول کر سکوں “میں نے ابھی اتنا کہا ہی تھا کہ ڈون کے مخصوص چیلے نے اُس کے کان میں سرگوشی کی ” جناب ! یہ کیا غضب کر دیا۔

اپنے ہاتھ پاؤں کاٹ کر دے دیے آپ نے یہ شخص آج اگر یہاں ہماری گفاں سے صحیح سلامت لوٹ گیا تو ہم سب کیلئے خطرہ بن سکتا ہے “ اپنے خاص چیلے کی بات سنکر ڈون کے وجود میں جیسے کرنٹ کی لہر سی دوڑ گئی ہو وہ چونکا ڈون کی آنکھوں میں اب شرارے تھے اُس نے مجھ جیسے بظاہر انسانوں کو حکم دیا ” اِسے اذیت ناک موت دیکر اِس کا سر کاٹ کے میرے پاس لے آؤ علاقہ غیر میں فٹبال کے میچ کا آغاز ہونے والا ہے “
” رحم ڈون جی … رحم …رحم“ میں گڑ گڑانے لگا،بڑا سا تیز دھار خنجر میری گردن کے قریب تر آیا ہی تھا کہ … میری بیوی نے میرے منہ پر پانی کے چھنٹے مار کر جگا دیا”اُٹھو جب دیکھو خواب ہی دیکھتے رہتے ہو“

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :