محنت رائیگاں نہیں جاتی۔۔۔۔!

اتوار 6 اپریل 2014

Farrukh Shahbaz Warraich

فرخ شہباز وڑائچ

کیٹس 31 اکتوبر 1795ء میں انگلستان کے شہر لندن کے قریب فنزبری میں پیدا ہوا۔آٹھ سال کی عمر میں اْس کا باپ ایک حادثے میں فوت ہو گیاتھا
۔14سال کی عمر میں ایک شدید صدمہ اسے تب ملا جب اس کی ماں اپنی بیماری سے لڑتے لڑتے چلی گئی۔کیٹس اوردوسرے بچوں کی دیکھ بھال کے لئے کیٹس کی نانی نے دو گارڈین مقرر کئے۔
1811ء میں اْس نے سکول سے فارغ ہو کر ایک سرجن تھامس ہامنڈ کے ساتھ سرجری سیکھنا شروع کر دی اور جولائی 1815ء میں میڈیکل کا امتحان پاس کر لیا، مگر سکول چھوڑنے کے پہلے زمانے میں ہی اْس کو شاعری سے شغف ہو گیا تھا اور اْس نے کلاسیکی ادب پڑھنا شروع کر دیا تھا،وہ اچانک کتابیں پڑھنا شروع کر دیتا تھا سارا سارا دن کتابیں پڑھتا رہتااب اس کا ایک ہی شوق تھا وہ تھا کتابیں ڈھونڈنااور ان کو پڑھنا اس میں اْس کے دوست چارلس کوارڈن کلیرک کا بڑا حصہ تھا،۔

(جاری ہے)

۔۔جب دوسرے بچے کھیلتے تھے اس وقت کیٹس کسی خاموش کونے میں بیٹھ کر کسی کتاب میں مگن دکھائی دیتا تھا۔
پھر جان کیٹس نے اپنی میڈیکل کی تعلیم کو ادبی زندگی پر قربان کر دیاخود کو شاعری کے لیے وقف کر دیا۔ وہ لندن کے مشہور شاعروں سے ملا۔ دوستوں کی حوصلہ افزائی سے اْس نے سنجیدگی سے لکھنا شروع کر دیا۔ مارچ1817ء میں اْس کی شاعری کی پہلی کتاب شائع ہوئی۔کیٹس کی شاعری کی کتاب کو منفی ردعمل کا سامنا کرنا پڑا،اس کی پہلی کتاب کو کوئی خاص پذیرائی نہ مل سکی۔
پھر اپریل 1818آگیا اس سال اس کی دوسری کتاب بھی منظر عام پر آگئی۔کیٹس کو شاعری سے پیار تھا اسے شاعری کا شوق بھی تھا اور جنون بھی۔۔۔ وہ اپنی شاعری میں پرفیکشن کا قائل تھا۔
رومانوی تحریک کی شاعری کی خوبیاں کیٹس کی شاعری میں موجود تھیں۔لیکن اس سب کے باوجود کیٹس اپنی زندگی میں اتنا مشہور نہ ہو سکا ۔۔۔
1818ء میں کیٹس کا بھائی ٹام مر گیا اور دوسرا بھائی جارج شادی کر کے امریکا چلا گیا۔ یوں کیٹس پریشان اور تنہا رہ گیا۔ لیورپول سے سکاٹ لینڈ تک ایک سفر میں جان کیٹس بیمارہو گیا اور اْس کی بیماری بڑھتی گئی۔اسی دوران اکتوبر 1818ء میں کیٹس کوایک لڑکی فینی برااؤن سے پیار ہو گیا، مگر فینی کی ماں نے یہ کہہ کر رشتہ دینے سے انکار کر دیا کہ۔۔۔ شاعر لوگ ہمیشہ بھوکے ہی مرتے ہیں۔۔۔۔ بیماری اورشادی سے انکار نے اْس کے تخیل سے وہ اشعار نکالے کہ کیٹس کی پچیس سالہ زندگی اَمرہو گئی۔
فروری 1820ؤہ ایک مہینہ بستر پر رہا اور ستمبر 1820ء کو اْسے انگلستان سے اٹلی لے جایا گیا کیوں کہ اْس کی زندگی کی آخری خواہش یہ ہی تھی ، مگر 23 فروری 1821ء کو یہ عظیم شاعر صرف پچیس سال کی عمر میں اٹلی کے شہر روم اپنے دوست کے بازؤں میں وفات پاگیا۔
کیٹس کی شاعری اس کی زندگی میں اسے کچھ نہ دے سکی لیکن اس کے اس آرٹ نے اس کے مرنے کے بعد اسے انیسویں صدی کا مشہور شاعر بنا ڈالا۔
اس کی وفات کے بعد آہستہ آہستہ اْس کی فنی خوبیاں لوگوں کے سامنے آتی گئیں اور وہ مقبول ہوتا گیا۔پھر وہ وقت آیا کہ دنیا نے کیٹس کو انگریزی ادب کا ایک عظیم شاعر اور رومانوی تحریک کی ایک اہم شخصیت تسلیم کرلیا۔جی ہاں!وہی لوگ جو اس کی زندگی میں اس کو ماننے سے انکاری پر تھے کہنے پر مجبور ہوگئے۔۔۔۔ اْس کی خوبصورت شاعری حسوں کو متاثر کرتی ہے۔
جان کیٹس کے ان خوبصورت الفاظ نے لوگوں کو ایسا گرویدہ بنایا
Beauty is truth ,truth beauty that is all
آج بھی دنیا بھر میں یہ الفاظ کیٹس کا حوالہ ہیں کیٹس کے صرف ان الفاظ پردنیا بھر کے نقاد درجن کتابیں لکھ چکیں ہیں۔۔۔
اْردو کی معروف شاعرہ پروین شاکر نے کیٹس کو ”شاعر ِجمال “کہا ۔۔۔۔
عظیم شاعر ورڈزورتھ نے کیٹس کے مرنے پر یہ تاریخی الفاظ کہے تھے جو آج تک جان کیٹس کے فن کی گواہی دے رہے ہیں۔
''I cannot afford to lose him'''
ایک لمحے کے لئے جان کیٹس کی تکالیف دیکھیے۔۔۔ کیٹس کی زندگی کے خوفناک دنوں کاتصور کیجیے۔۔۔۔کیٹس کی زندگی کا درد محسوس کیجیے۔۔۔۔زندگی میں وہ دن بھی آتے ہیں جب آپ خوفناک حادثات میں گھرے ہوتے ہیں ۔۔۔کامیابی اپنے دروازے آپ پر بند کر لیتی ہے۔۔۔۔مایوسی اور آپ کی سانسوں کے فاصلے مٹ جاتے ہیں۔۔۔یا تو آپ سب کچھ قسمت کا کھیل سمجھ کر بیٹھ جاتیں ہیں۔۔۔یا پھر اپنے اندر کے آرٹسٹ کو مرنے نہیں دیتے صلے کی پروا کئے بغیر اپنی دھن میں لگے رہتے ہیں۔۔۔۔ایک لمحے کے لئے سوچیں اگر کیٹس ان حالات سے سمجھوتہ کر لیتا تو کیا آج اس کے مرنے کے دو سو سالوں بعد اس کا نام لیا جاتا؟؟محنت اور لگن کا صلہ دیر سے سہی ملتا ضرور ہے۔
اس عظیم آرٹسٹ کی آخری خواہش دیکھیے۔۔کیٹس کی خواہش تھی کہ اس کے مرنے کے بعد اس کی قبر کے کتبے پر نام اور تاریخ وفات کی بجائے یہ الفاظ لکھے جائیں۔۔۔۔
''Here lies One whose Name was write in Water''
کہنے والوں نے کہا کیٹس اپنی قبر پر یہ الفاظ تو لکھوا گیا کہ ”یہاں وہ دفن ہے جس کا نام پانی پر لکھا تھا(جس کی زندگی مختصر تھی)“ لیکن در اصل وہ اپنے آرٹ اپنی محنت ،اپنی شاعری کی خوبصورتی کے ذریعے ستاروں پر اپنا نام لکھوا گیا جو اس کے مرنے سے لے کر رہتی دنیا تک چمکتے رہیں گے ۔۔۔جی ہاں محنت کبھی رائیگاں نہیں جاتی۔۔۔!

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :