سیاسی متنجن

ہفتہ 5 اپریل 2014

Muhammad Saqlain Raza

محمد ثقلین رضا

پاکستان پیپلز پارٹی کے سربراہوں بلاول بھٹو اور آصف علی زرداری نے پنجاب کے دوروں کا اعلان کر دیا ہے۔ یہ اعلان انہوں نے بھٹو کی برسی کے موقع پر مرکزی عاملہ کے اجلاس میں کیا ہے۔ پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین اور سابق صدر پاکستان آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ دھمکیوں سے خوفزدہ نہیں ہوں گے اور پنجاب بھر میں سرگرمیاں جاری رکھیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ جمہوریت کو ڈی ریل نہیں ہونے دیں گے۔


#درست فرماتے ہیں زرداری صاحب ! یہ واقعی اسی طرح سے جمہوریت ‘ حکومت کا تحفظ کریں گے جیسا کہ میاں جی سابقہ دور میں ا ن کی حکومت اور جمہوریت کا تحفظ کرتے رہے۔ اسے عام زبا ن میں ادھار بھی کہتے ہیں لیکن سیاست میں نقد سود اہوتاہے ادھار لینے اوردینے والے دونوں ہی نقصان میں رہتے ہیں ‘ بہرحا ل میاں جی پرایک ادھار ابھی باقی ہے کہ زرداری صاحب نے پرویز مشرف میاں صاحبان کی جان چھڑائی تبھی تو وہ پرواز کرنے لائق ہوئے اور پھر چھوٹے میاں جی ”میں نہیں مانتا ‘میں نہیں جانتا “ چھوٹے بڑے سروں میں گانے لائق ہوئے اور پھر لوڈشیڈنگ کے خلاف احتجاجاً کیمپ بھی لگالیا ۔

(جاری ہے)

لوڈشیڈنگ کی وہی حالت ہے اور پنجاب کے عوام منتظر ہیں کہ اب کی بار کونسا ”شہبازشریف“ سامنے آتا ہے ۔ بہرحال ایک آمریت پسند جھلاکہتاہے کہ ان جمہوریت پسندوں کے نزدیک جمہوریت کرسی کانام ہے۔ یعنی ملک چلاجائے مگر جمہوریت (کرسی ) نہ جائے۔
#طالبان کا جنگ بندی میں 10 روز کی توسیع کا اعلان، مذاکرات میں پیش رفت کیلئے حکومتی اور طالبان کمیٹیوں کا مشترکہ اجلاس طلب کر لیا گیا
#گزشتہ روز طالبان رہنماعمر خالد خراسانی نے ایک بیان میں کہا تھا کہ جنگ بندی میں توسیع کافیصلہ نہیں ہوا اور اس کا مطلب ہے کہ جنگ دوبارہ شروع ہو گئی ہے جس کے بعد کالعدم تحریک طالبان کے ترجمان شاہد اللہ شاہد نے اس بات کی تصدیق کی تاہم انہوں نے کہا کہ ابھی مشاورت جاری ہے اور کوئی بھی فیصلہ مشاورت کے بعد کیا جائے گا، مذاکرات جنگ بندی کے بغیر بھی ہو سکتے ہیں۔

طالبان رہنماں کی جانب سے اس بیان کے بعد فاٹا کی پولیٹیکل انتظامیہ کی جانب سے 16 طالبان قیدیوں کی رہائی کی خبریں بھی سامنے آئیں جس پر ایک غیر ملکی خبر ایجنسی نے یہ دعوی کیا کہ ان قیدیوں کی رہائی وزیراعظم نواز شریف کے حکم پر عمل میں لائی گئی ہے تاہم وزیراعظم ہاس سے جاری ایک بیان میں اس بات کی تردید کی گئی اور کہا گیا کہ وزیراعظم نواز شریف نے کسی طالبان قیدی کی رہائی کی منظوری دی اور نہ ہی کسی طالبان قیدی کو رہا کیا گیا ہے۔

اس تردید کے کچھ ہی دیر بعد وزا رت داخلہ کی جانب سے ایک وضاحتی بیان جاری کیا گیا جس میں طالبان قیدیوں کی رہائی کی تصدیق کی گئی اور بتایا گیا کہ رہا ہونے والے طالبان غیر عسکری ہیں جنہیں شمالی وزیرستان کے علاقے محسود سے سرچ آپریشن کے دوران گرفتار کیا گیا تھا۔جب ملک کے وزیراعظم اور دیگر وزرا میں اتنی ہی ذہنی ہم آہنگی نہ ہوتو اس حکومت کے بار ے میں اندازہ لگانے میں دیر نہیں لگتی۔

بہرحال یہ وہ داستان ہے جس کے بارے میں کہاجاسکتاہے کہ سنتاجا‘شرماتا جا۔ بعض سیاسی‘ عسکری ماہرین کاخیال ہے کہ یہ طالبان کا معاملہ کئی بھیدیوں اور بھیدوں کاپردہ چاک کردے گا اور عوام کی نظر میں ”طالبان“ حامی بے نقاب ہوتے چلے جائیں گے
دوسری بات یہ کہ اس مذاکرات کے کھیل میں کئی طرح کے اتا ر چڑھاؤ ایسے بھی آئے جب لگنے لگاتھا کہ اب یہ یار ”تڑک کرکے ٹٹنے“ والی ہے لیکن ”قاضیوں“ نے فی الحال قضا کو روک رکھا ہے
#سابق فوجی صدر پرویز مشرف ہسپتال سیچک شہزادمیں واقع اپنے فارم ہاس منتقل ہوگئے ہیں جبکہ روٹ پر ہونیوالے دھماکے سے ان کا سکواڈبال بال بچ گیا۔

پرویز مشرف کی ٹیم کے علاوہ پولیس سمیت کسی بھی منتقلی کی کانوں کان خبر نہ تھی لیکن پھر بھی دھماکہ ہو گیا۔دھماکہ مشرف کا قافلہ گزرنے کے تھوڑی دیر بعد فیض آباد کے قریب سڑک کنارے برساتی پانی کے پائپ میں نصب بارودی مواد پھٹنے سے ہواتاہم کسی قسم کا جانی نقصان نہیں ہوا۔پولیس نے رپورٹ درج کر کے تحقیقات شروع کر دی ہیں اور خدشہ ہے کہ دھماکے کا ہدف پرویزمشرف ہی ہوسکتے ہیں
##یقینا یہ کارستانی بھی پرویز مشرف کے مہربانوں کی ہی ہوگی ‘جنہیں ان سے بے شمار شکوے بھی ہیں لیکن بعض لوگوں کاکہنا ہے کہ یہ دھماکے دراصل مشرف کو باہر منتقل کرانے یاعدالتی حاضر ی سے استثنیٰ دلوانے کیلئے ہی کرائے یاکئے جارہے ہیں۔

ہوسکتاہے کہ دونوں میں سے کوئی بات بھی درست نہ ہو لیکن یہ تو طے ہے کہ مشرف اور مشرف کیس دونوں ہی حاکمین وطن کیلئے گلے کی پھانس بن کر رہ گئے ہیں انہیں نہ تو گلے سے اتار نا آسان لگ رہا ہے اور نہ ہی اگلنا اتنا آسان ہے۔ گلے سے پیٹ میں اتارنے پرحکومت کے پیٹ میں درد بھی ہوسکتاہے اور یہ بھی امکان موجود ہے کہ بھاری بھرکم بوٹوں والے پھر پیٹ درد کا کچھ دوسری طرح سے علاج کریں تاہم امکانات یہی زیادہ ہیں کہ پیٹ میں جانے اور نگلنے سے پہلے ہی پرویز مشرف ”باہر “ نکلنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔

دوسری بات کہ اگر حکومت ”باآسانی“ مشرف کو باہر جانے دیتی ہے تو اس کے ہاتھ کچھ نہیں آئیگا الٹا یہ تاثر عام ہوگا کہ اب تک مشرف کے خلا ف ہونیوالی کاروائی بھی ”ٹوپی “ ڈرامہ ہے۔ بھولا کہتاہے کہ حکومت تو فی الحال ا س کیس کے معاملے میں ہاتھ بندھی غلام کاکردار اداکررہی ہے ‘ ورنہ تو عدلیہ نے ہی سارا انتظام وانصرام اپنے ہاتھ میں لیا ہوا ہے ۔

باایں ہمہ اسے دوسرے لفظوں میں یوں بھی کہاجاسکتاہے کہ اگر عدالت کاڈر نہ ہوتا توحکمران اپنے گلے یہ ”پھانس“ کب کی نکال چکے ہوتے ۔لیکن اس صورت میں مشرف بھی میاں برادران کی طرح کے کئی ”شورٹی بانڈ “ لیکر دوبارہ مادر وطن لوٹ آتے ہیں اوران کی زبان پر یہ شعر بھی ہوتا کہ
شاید مجھے نکال کے پچھتارہے ہوں آپ
محفل میں اس خیال سے پھر آگیاہوں میں
ایسی صورت میں میاں برادران کیلئے مشرف سے نمٹنا ذرا مشکل ہی ہوجاتا ہے۔ اب عدالت جانے اورعدالت کاکام ‘ حکمران بس یس سریس سر کی گردان ہی الاپ رہے ہیں

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :