ہائے غریب لوگ۔۔۔۔۔۔

پیر 31 مارچ 2014

Mumtaz Amir Ranjha

ممتاز امیر رانجھا

گیس کی لائن کافی طویل تھی۔گاڑی میں بیٹھے بیٹھے اپنی باری کا انتظار کرنا بہت تکلیف دہ کام ہے لیکن اس سے کہیں زیادہ تکلیف ایک کم سن بچے کو دیکھ کر ہوئی۔آٹھ سال کا پٹھان بچہ ایک ہاتھ میں بوٹ پالش اور دوسرے ہاتھ میں ایک چھوٹا سا ہینڈ بیگ اٹھائے میرے پاس آیا۔”انکل انکل جوتے پالش کروا لیں“۔اس بچے نے نہایت ہی کسمپرسی میں درخواست کی۔

”لیکن بچے میں نے تو صبح ہی جوتے پالش کئے ہیں اس لئے اب جوتوں کو پالش کی ضرورت نہیں“۔اس بچے کا ری ایکشن بہت ہی قابل رحم تھا۔”انکل انکل آپ کے دس روپے ہی تو خرچ ہونگے لیکن میرے گھر میں آپ کی امدادہو جائے گی“۔اس کا بعد سوال و جواب کی کوئی صورت باقی نہیں رہتی تھی میں نے اپنے دونوں جوتے اتارے اور بچے کو تھما دیئے۔

(جاری ہے)

وہ بچہ جوتے پالش کرکے چلا گیا لیکن میری آنکھوں میں ڈھیروں سوال اور ان گنت آنسو چھوڑ گیا۔


عظمت کا بڑھاپا اس کے چلنے سے روک رہا تھا لیکن ا س کے کندھوں پر گھاس کا تھیلا مجھے ہرروز نظر آتا۔اس کے دونوں بچے غربت اور جہالت کا شکار تھے۔جہالت اس لئے کہ سود خوروں گروپ نے ا نہیں اپنے جال میں اس طرح پھنسایا کہ دونوں بیٹیوں نے نہ صرف سو د کی مد میں بھینیسں خرید لیں بلکہ قسطوں اور سود پر موٹر سائیکل بھی لے لیا جس پر وہ دودھ بیچنے جاتے تھے۔

بیٹو ں کی کم علمی اور لاپرواہی کی وجہ سے کاروبار ٹھپ ہو گیا۔وہ پورا خاندان سود اور ادھار کے چنگل میں اس طرح پھنساکے بالاخر انہیں اپنا گھر بیچ محلہ چھوڑنا پڑا۔کتنی بدنصیبی ہوتی ہے کہ جب گھر میں تین شادی شدہ بیٹیوں کو غربت کی وجہ سے طلاق ہو جائے، اس کی مزید وجہ بھی بھائیوں کی نالائقی ٹھہری۔کتنی لاچارگی ہوتی ہے کہ جب غربت کی وجہ سے ادھار لینے والے مال اور موٹر سائیکل لیکر چلے جائیں۔

کتنی پریشان کن صورت حال ہوتی ہے جب بوڑھے والدین،طلاق یافتہ بہنوں اور نکھٹو بیٹوں کو اپنا مکان چھوڑ کر کہیں دور کرائے کے مکان میں جانا پڑ جائے۔
ہمارے دائیں بائیں کتنے بچے ہیں جو اپنے گھر کی دال روٹی چلانے کے لئے اپنی زندگی کے قیمتی دن محنت مزدوری میں گنوا دیتے ہیں۔ان کے نرم نرم ہاتھ سخت محنت مشقت کی نذر ہو جاتے ہیں۔کئی والدین کی لاپرواہی ان بچوں کا مستقبل ضائع کرتی ہے اور کئی بچے حکم الٰہی سے یتیم ہو کر یا کسی اور مسلے کا شکار ہو کر چھوٹی عمر میں کھیلنے اور پڑھنے لکھنے سے دوری کا شکار ہو جاتے ہیں،یوں انہیں محنت مشقت کرنا پڑ جاتی ہے۔

ہمارے پڑوسی ،محلہ دار اور نہ جانے کتنے جاننے والے لوگ غربت اور بیچارگی کی زندگی گزار رہے ہیں ،ہم لوگ اس بات سے لا علم ہوتے ہیں۔ہمارے ملک میں خاص و عام کے لئے کتنے ادارے اور کتنے افراد مختلف نظام ہائے زندگی کو با سہولت بنانے کے لئے سر گرم ہیں لیکن ہم سارے عوام کی غربت ،باالخصوص بیواؤں،معصوم بچوں اور بوڑھے لاوارث افراد کے لئے کوئی بھی توادارہ یا نظام بنانے میں ناکام نظر آتے ہیں۔

حکومتی اور عوامی سظح پر اس قسم کی سوچ اور اداروں کی سخت ضرورت ہے۔ایسے ادارے ضرور ہونا ضروری ہیں جو معصوم بچوں کی فری تعلیم ،صحت اور کھیلوں کا خیال رکھیں۔ایسے ادارے بہت ضروری ہیں جو غریب ،مسکین اور لاچار افراد کو ان کے دروازے پر فوری امدا د باہم پہنچائیں۔یوں تو ہمارے ملک میں حکومتی اور عوامی سطح پر کئی نام نہاد ادارے اپنی اپنی دکانیں چمکائے پھر رہے ہیں لیکن حقیقتاً عملی طور پر کوئی بھی ایسا ادارہ نہیں جو میدان عمل میں سرخرو نظر آئے۔


آجکل ڈیلی نیوز پیپرز میں اور ٹی نیوز چینلز پر لوگوں کی مایوسی،قتل وغارت کی خبریں عام ہیں۔کہیں کوئی مرد اپنی بیوی بچوں کو مار دیتا ہے تو کہیں کوئی بیوی اپنے بچوں کو مار دیتی ہے۔کہیں کوئی بیٹا اپنے والدین کو قتل کر دیتا ہے تو کہیں اپنا بھائی اپنے ہی بھائیوں کو گلہ گھونٹ دیتا ہے۔یہ سارے نفسیاتی مسائل دین سے دوری اور غربت کی وجہ سے ہیں۔

ہمیں اپنے گھروں میں مذہبی تعلیم کی سخت ضرورت ہے،علاوہ ازیں ہمیں اپنے محلہ،گلی اور علاقے کے حساب سے غرباء مساکین کی بھرپور مدد کی ضرورت ہے۔محلے اور مساجدمیں ایسا اتفاق رائے پیدا کیا جائے کہ غریب اور مساکین کی مدد اور ان کے مسائل کے تلاش پر بہترین ماحول پیدا کیا جا سکے۔
ہمارے سیاستدانوں کے یہ حالات ہیں کہ سندھ میں عوام بھوک سے بے حال ہیں لیکن وہاں کے صوبائی سیاستدان سندھی آموں کو امریکن مارکیٹ بھجوانے کے لئے پریشان ہیں۔

ان کو تھرپارکر کی کوئی فکر نہیں کہ وہاں بچے بھوک سے نہ صرف بلک رہے ہیں بلکہ مر رہے ہیں۔سیاستدان ہی نہیں ہم باقی عوام بھی دوغلاہٹ سے بھرے ہوئے ہیں۔کئی نام نہادجعلسازپانچ پانچ انچ کی داڑھیاں رکھ کے سوچ میں بے ایمانی کومارنے کا عزم نہیں رکھتے۔ ڈالرز کی قیمت ضرور گری لیکن اس کے مقابلے میں ہماری مہنگائی ذرا بھی تو کم نہیں ہوئی۔تاجر اوربڑے دکاندار عوام کو اسی طرح گلہ دبائے ہوئے ہیں بلکہ عوام کے مزید خون نچوڑنے کے طریقے تلاش کر رہے ہیں۔

ہم سارے لوگ بڑے بڑے ہوٹلوں پر بڑے بڑے بل خوشی سے اداکرتے ہیں لیکن کسی ضرورت مند فقیر اور لاچار آدمی کے ہاتھ پر پانچ دس کا نوٹ رکھتے ہوئے ہمیں موت پڑتی ہے۔گھروں میں پچاس پچاس انچ کی (LED)لگ جاتی ہے لیکن محلے کی مسجد میں اینٹ تک کے پیسے نہیں دینے کی سعی نہیں کرتے۔اذان کی آوازسننا پسند نہیں کرتے لیکن گھر میں (ووفر)پر فحاشی شاعری سے تزئین یافتہ گانے سننے کا بہت شوق رکھتے ہیں۔

اپنے بچوں بچیوں کو مذہبی تربت دینا پسند نہیں کرتے لیکن انہیں تعلیم کے لئے یورپ بھیجنے کی شمع ضرور جلائے ہوتے ہیں۔غربت ختم کرنے کے لئے غریب ختم کئے جا رہے ہیں۔اگر ہم سب نے ترقی کرنی ہے تو غریبوں کا کچھ سوچویار،یقین کرو ایک وقت کا کھانا چھوڑ دو لیکن غریبوں کے چولہے مت ٹھنڈے کرو۔اگلے جہاں ہم سب کیا کریں گے۔کس کو منہ دکھائیں گے؟ہمارے گھروں میں تک کباب اور غریبوں کے گھر میں فاقے،وہاں کیا کرو گے کاکے؟سوچنا بہت ضروری ہے۔

مجھے گیس پمپ کا پٹھان بچہ اور سود میں گھر دینے والاعظمت نہیں بھولتا۔ہائے غریب لوگ،کاش میں وزیراعظم ہوتا۔۔۔کاش
الحمد للہ میری صحت آپ سب بھائیوں کی دعاؤں سے بہت بہتر ہے۔تمام قارئین اور احباب کا شکریہ جنہوں نے ٹیلیفونک اور ای میل سروس سے صحت دریافت کی۔پاکستان نے بنگالیوں کو بہت اچھے طریقے سے شکست دی ،جیت مبارک ہو،دعا کریں کریں کہ ہماری ٹیم بنگلہ دیش سے ورلڈ کپ کا اعزاز لیکر لوٹے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :